Hazrat Adam A.S (حضرت آدم علیہ السلام)

حضرت آدم علیہ السلام


1۔ حضرت آدم علیہ السلام اللہ تعالی کے برگزیدہ نبی تھے (صحیح ابن حبان: 361) آپ کا لقب صفی اللہ تھا (ترمذی 3616)۔ فرشتے اور جن اللہ کریم کی عبادت کر رہے تھے کہ اللہ کریم نے فرمایا کہ میں زمین پر اپنا ایک خلیفہ بنانے لگا ہوں، فرشتوں نے عرض کی کہ وہ تو خونریزی اور فساد کریں گے، اللہ کریم نے حضرت آدم علیہ السلام کو علم کا تاج پہنا کر فرشتوں سے جب نام پوچھے تو فرشتوں نے عرض کی کہ ہم نہیں جانتے اور حضرت آدم علیہ السلام نے سب اشیاء کے نام بتا دئے۔اللہ کریم نے فرمایا میں کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔(تفصیل سورہ بقرہ آیت 30سے 39)

2۔سورہ اعراف آیت نمبر 11 سے 25 اور سورہ الحجر میں 28سے 43 میں اللہ کریم نے حضرت آدم علیہ السلام کوکھنکھناتے، سیاہ اور سڑے ہوئے گارے سے بنانے، روح پھونکنے، فرشتوں کا سجدہ اور ابلیس کا متکبر ہوکر کہنا کہ میں آگ سے اور آدم خاک سے، اللہ کریم کا ابلیس کو راندہ درگاہ کرنااور ابلیس کا اللہ کریم پر گمراہی کا الزام لگاکر قیامت والے دن تک مہلت مانگنا، پھر حضرت آدم علیہ اسلام کو جنت سے نکلوانا اور حضرت آدم علیہ السلام کا دنیا میں آکر معافی مانگنا تفصیل سے لکھا ہوا ہے۔

3۔ سورہ مومنون آیت 12میں ہے کہ اللہ کریم نے حضرت آدم کو چُنی ہوئی مٹی سے بنایا“۔اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک مٹھی خاک سے پیدا فرمایا اور یہ مٹی تمام روئے زمین سے حاصل کی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی نسل میں مختلف رنگ و زبان کے لوگ ہیں (ترمذی، ابوداود) اللہ کریم نے اس پُتلے کو کچھ عرصہ کیلئے چھوڑ ا، ابلیس نے چکر لگا کر غور سے دیکھا کہ پتلا اندر سے خالی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ آدم اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے گا (مسلم) اللہ کریم نے جمعہ کے دن اس پتلے کو زندہ انسان بن جانے کا حکم دیا اور حکم سنتے ہی وہ پتلا زندہ انسان بن گیا (صحیح مسلم)

4۔حضرت آدم علیہ اسلام کا قد ساٹھ ہاتھ کا تھا(بخاری) جب بناکر جسم میں روح پھونکی گئی تو چھینک آئی اور اللہ کے حکم سے الحمد للہ کہا۔ (ابن حبان) اللہ کریم نے فرمایا کہ جاؤ ان فرشتوں کو سلام کرو اور وہ جو جواب دیں وہ تمہارا اور تمہاری اولادکا سلام ہو گا۔ حضرت آدم علیہ السلام ان کے پاس گئے اور ان سے کہا اسلام علیکم، فرشتوں نے جواب دیا و علیک السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ (بخاری)

5۔اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر دست قدرت (ہاتھ) لگایا تو قیامت تک پیدا ہونے والی روحیں نکل کر آدم علیہ اسلام کے سامنے پیش ہو گئیں۔ آدم علیہ السلام نے عرض کی اے میرے رب، یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ تمہاری اولاد ہے۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھاتو وہ بہت پسند آیا، کہنے لگے اے میرے رب یہ کون ہے؟ فرمایا: یہ تمہاری اولاد کی آخری جماعتوں میں ایک شخص ہے جس کا نام داؤد ہے۔ آدم علیہ اسلام نے پوچھا:اے میرے رب تو نے اس کی عمر کتنی رکھی ہے؟ اللہ نے فرمایا: 60 سال۔آدم علیہ السلام نے عرض کی اے میرے رب میری عمر سے اس کی عمر کے 40 سال بڑھا دے۔ پس اللہ تعالی نے ایسا کر کے گواہ بھی ٹھرا دیا۔ پھر جب آدم علیہ السلام کی عمر مکمل ہو گئی تو اللہ تعالی نے ان کی طرف ملک الموت علیہ اسلام کو بھیجا تو آدم علیہ اسلام نے کہا، کیا میری عمر کے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ ملک الموت نے کہا: کیا آپ نے چالیس سال اپنے بیٹے داؤد علیہ السلام کو ہبہ نہیں کئے تھے۔ آدم علیہ السلام نے انکار کر دیا، لہذا آپ کی اولاد بھی انکاری ہے اور آدم بھول گئے لہذا آپ کی اولاد بھی نسیان کا شکار ہو گئی (ترمذی، نسائی، ابن حبان، حاکم) یہ حضورﷺ کا فرمان ہے لیکن امتی نے حضرت آدم علیہ السلام کو انکاری نہیں کہنا۔

6۔ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پشت سے نکلنے والی اولاد سے عہد لیا، الست بربکم قالوا بلی (الاعراف) اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ اسلام کی پسلی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ آدم علیہ اسلام ان سے سکون حاصل کریں (بخاری 3331) پھر اللہ تعالی نے انہیں جنت میں رہنے کا حکم دیا (الاعراف) حضرت آدم علیہ اسلام جمعہ کے دن جنت میں داخل ہوئے (بخاری)۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو، خوب کھاؤ پئیولیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم نقصان اٹھاؤ گے اور یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، اس سے ہوشیار رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے۔(بقرہ اور سورہ طہ)

7۔ادھر ابلیس نے کہا اے آدم میں تمہیں بتاؤں ہمیشہ جینے کا پیڑ اور وہ بادشاہی کے پرانی نہ پڑے۔(طہ 120) اور شیطان نے اللہ کریم کی قسمیں کھا کر حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو کہا کہ تمہارے رب نے جو تمہیں اس درخت سے منع کیا ہے صرف اسلئے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ اور ہمیشہ زندہ رہو اور اسطرح درخت کا پھل کھایا گیا (اعراف 20 -21)اماں حوا علیھا السلام نے پہلے درخت سے کھایا اور حضرت آدم علیہ السلام نے ان کی ترغیب پر بعد میں کھایا۔ اسلئے نبی کریمﷺ نے فرمایا، اگر حوا نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند کے ساتھ خیانت نہ کرتی (بخاری و مسلم 3648) اس حدیث سے بھی مراد ساری عورتیں نہیں بلکہ کسی کسی عورت میں خیانت کی صفت کا پایا جانا ہو سکتا ہے ورنہ تو اللہ کریم فرما رہا ہے کہ ان کوقسمیں کھا کھا کر ورغلایا گیا، ان کا ارادہ بھی نہیں تھا، ان کی توبہ بھی قبول کی گئی۔

8۔ درخت سے کھانا ہی تھا کہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہو گئیں، یہ دیکھ کر انہوں نے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے شروع کر دئے۔اللہ کریم نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کیا تھا اور تم سے کہا نہیں تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلم کھلا دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا (اعراف 22) البتہ اللہ تعالی نے جو عہد آدم علیہ اسلام سے لیا تھا، آدم سے بھول ہو گئی مگر ان کا عزم (ارادہ) نہیں تھا۔ (طہ 115) یعنی یہ اللہ کریم کی میشت یعنی مرضی تھی۔

9۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اب تم یہاں سے اتر کر زمین پر چلے جاؤ، اب تمہیں کچھ عرصہ کے لئے زمین پر رہنا ہے اور وہیں فائدہ اُٹھانا ہے (بقرہ 36) پھر جمعہ کے دن زمین پر اتار دئے گئے (نسائی، ابو داؤد، ابن حبان)

10۔ دنیا میں آکرحضرت آدم علیہ السلام بہت روتے، اللہ کریم نے ان کو ربنا ظلمنا انفسنا دعائیہ کلمات سکھائے اور جمعہ کے روز ان کی توبہ قبول فرمائی (الاعراف، 23، بقرہ 27، النسائی) پھر حضرت آدم علیہ اسلام کے لئے عمدہ لباس کا انتظام فرمایا (اعراف 26) اور اللہ تعالی نے ان کی اولاد کو عزت و کرامت سے سرفراز فرمایا۔ بحر و بر میں ان کی نقل و حرکت کے لئے سواریاں مہیا کیں اور ان کے لئے پاکیزہ کھانوں کا انتظام فرمایا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری عطا فرمائی (اسراء 7)

11۔ حضرت آدم علیہ اسلام کے دو بیٹے قابیل و ہابیل کا بھی قرآن مجید میں تذکرہ ملتا ہے جس میں قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا جس کا حضرت آدم علیہ السلام کو بہت دُکھ ہوا۔ ہابیل کے مرنے کے بعد اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک بیٹا دیا جس کا نام انہوں نے شیث علیہ السلام رکھا اور اپنی وفات سے پہلے شیث علیہ السلام کو تبلیغ کی وصیت کی۔

12۔ حضرت آدم علیہ السلام کی عمر اللہ تعالی نے ہزار سال رکھی تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی عمر میں سے حضرت داؤد علیہ اسلام کو 40 سال ہبہ کر دئے تھے، اسلئے 960 سال کی عمر میں حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حضرت عزرائیل علیہ السلام آئے تو آپ نے فرمایا کہ میری زندگی کے ابھی چالیس سال رہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ 40 سال تو آپ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو دے دئے تھے لیکن حضرت آدم علیہ السلام بھول چُکے تھے۔(ترمذی)

13۔ حضرت آدم علیہ السلام کی روح قبض کی گئی، فرشتے اپنے ساتھ کفن اور خوشبو لے کر آئے تھے۔ پھر فرشتوں نے غسل، کفن، نماز جنازہ، قبر و دفن کیا یا کرنے کا طریقہ سمجھایا کیونکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت شیث علیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھائی (مسند احمد،حاکم، طبرانی، کبیر)۔ حضرت آدم علیہ اسلام کا انتقال جمعہ کے روز ہوا (ابن خزیمہ)۔ آپ کی قبر انور نامعلوم جگہ پر ہے یعنی اس کا علم نہیں۔ آپ کے وصال کے بعد سیدہ حوا علیھا السلام کا بھی انتقال ہو گیا اور ان کی قبر انور کا بھی معلوم نہیں ہے۔

14۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے بحث کی کہ آپ نے لوگوں کو اپنی غلطی کے سبب جنت سے نکلوایا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دلائل تھے کہ یہ سب اللہ کریم کی مرضی سے ہوا اور حضرت موسی کلیم اللہ پرحضرت آدم علیہ السلام غالب آ گئے (بخاری 6614)

15۔ قیامت کے دن بھی جب لوگ شفاعت کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو آپ اپنی غلطی یعنی جنت میں درخت کا کھانا بتا کر کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ شفاعت کر سکوں (مسلم) حالانکہ حضرت آدم علیہ السلام کی غلطی اللہ کریم کی مشیت سے تھی مگر قیامت والے دن تمام نبیوں نے اپنے اوپر الزام لے کر یہ فرمانا ہے کہ شفاعت کے حقدار ہم ہیں مگر آج کی شفاعت کے لئے تم حضورﷺ کے قدموں پرسر رکھو گے کیونکہ اصل مقام محمود کے مالک آج حضورﷺ ہیں ورنہ اللہ کریم سب نبیوں کی شفاعت قبول فرما سکتا ہے مگر اس دن شان حضور ﷺ کی ہو گی۔

بے تُکے سوال: حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر موجودہ وقت تک کیا کیا ہوا، کس دن ہوا، کسطرح ہوا، کیوں ہوا، کس نے کیا، حکم کس کا تھا، اللہ کریم روک نہیں سکتا تھا، کتنے بچے، بچوں یا والدین کے نام کیا تھے، اس کے بعد کیا ہوا، اس کے بعد یہ کیوں نہیں ہوا۔قرآن و سنت میں ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا، اسلئے ہر مسلمان نے یومنون بالغیب پر ایمان لا کر اپنی 60 یا 70 سالہ زندگی کو حضورﷺ کی سنت (فرض، واجب، سنت، مستحب) پر گذار کر کامل بندہ بننا ہے۔

ملحد و لبرلز: ملحد و لبرلز عوام کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے اور ان سب کی اپنی کوئی مذہبی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ سب شیطان لوگ ہوتے ہیں جو مذہبی عوام کے دل میں مختلف سوال کر کے وسوسہ ڈالنے کے لئے اللہ کریم نے پیدا کئے ہیں، اسلئے بہت سی عوام کو لبرلز گمراہ بھی کر لیتے ہیں۔لبرلز سے بحث نہ کریں بلکہ ان سے پوچھیں کہ ان کی کوئی کتاب یا کوئی ایک عالم ہو تو بتائیں ورنہ بحث کیسی؟

شعور: اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں سے کچھ باتیں عوام میں آ جاتی ہیں جن کا قرآن و سنت سے تعلق نہیں ہوتا۔ اسلئے علماء اہلسنت سے سوال کریں، البتہ اصل اہلسنت خلافت عثمانیہ، چار مصلے والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا۔ اگر کوئی وہابی ہے تو دیوبندی نہیں ہے کیونکہ دیوبندی خلافت عثمانیہ والے تھے اور بریلوی علماء کے ساتھ ان کا اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے اور ان کفریہ عبارتوں کا دفاع کرنے والے علماء کو توبہ کرنی بنتی ہے۔

عجیب: اہلحدیث حضرات تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں اور جیسے اہلتشیع علماء کی بنیادی کتابیں اور علماء کا سماع حضور ﷺ سے ثابت نہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ، اہلبیت اور بارہ امام سے جو لکھا وہ منگھڑت ہے مگر اہلبیت کے نام کا کارڈ صحابہ کرام کو گالیاں دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں، اسلئے اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے تعلق نہیں، اسی طرح اہلحدیث صحیح احادیث کے مطابق اپنے مسائل بیان کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس دور میں کس مجتہد نے صحاح ستہ سے صحیح احادیث کو تلاش کر کے اہلحدیث جماعت کو کن اصولوں پر سکھایا، اسلئے خود بھی مقلد مگر تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general