باغی جماعت حدیث عمار
یہ احادیث اب کی نہیں ہیں بلکہ خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے قرآن، تاریخ، احادیث کا سارا ذخیرہ پڑھکر قانون بنایا تھا کہ صحابہ کرام کے صحابہ کرام کے ساتھ مسائل، صحابہ کرام کے اہلبیت کے ساتھ معاملات اور اہلبیت کے اہلبیت کے ساتھ مشاجرات پر خاموش رہیں گے کیونکہ ان کے حق میں قرآن و سنت موجود ہے۔ موجودہ دور میں نام نہاد سنی علماء اور پیر حضرات رافضیوں سے ملکر ان احادیث کو اچھال رہے ہیں تاکہ عوام کو مذہبی انتشار کا شکار کریں:
بخاری 447 "حضرت عمار رضی اللہ عنہ مسجد بناتے ہوئے دو دو اینٹیں اُٹھا رہے تھے جب کہ دوسرے صحابہ ایک ایک اینٹ اُٹھا رہے تھے، نبی کریم ﷺ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا: افسوس!عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی۔”
ظاہری مفہوم: اسلئے سیدھا سادا مفہوم بنتا ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو باغی جماعت شہید کرے گی۔
بخاری 1127 "حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک رات ان کے اور فاطمہ کے پاس حضور ﷺ آئے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ (تہجد کی) نماز نہیں پڑھو گے؟ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔ ہماری اس بات پر آپ ﷺ واپس تشریف لے گئے۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ ﷺ ران پر ہاتھ مار کر فرما رہے تھے (سورہ کہف کی آیت) و کان الانسان اکثر شئی جدلا ترجمہ:لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے“۔ اس آیت سے مفسرین کہتے ہیں وہ لوگ مراد ہیں جو قرآن پر اعتراض کرتے ہیں۔
ظاہری مفہوم: اب اس حدیث کے مطابق کوئی یہ کہے کہ معاذ اللہ حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما دونوں جھگڑالو تھے تو بے ایمان ہو جائے گا بلکہ اُس کو گستاخ اہلبیت بھی کہا جائے گا۔اسلئے بخاری و مسلم میں محدثین احادیث لاتے ہیں مگر احادیث کی شرح اہلسنت علماء کرام اسطرح کرتے ہیں:
مسلم 2458 ”جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہو جائے گا تو ان (مسلمانوں کی دونوں اختلاف کرنے والی جماعتوں) کے بیچ میں سے ایک گروہ نکلے گا اور اس گروہ کے ساتھ جو مسلمانوں کی جماعت لڑائی کرے گی وہ حق کے زیادہ قریب ہو گی“۔
صحیح ابن حبان 6744 ”میری امت میں دو گروہ ہو جائیں گے پھر ان دونوں گروہوں کے درمیان میں سے ایک الگ گروہ نکلے گا پھر اس (مسلمانوں کی دو جماعتوں کے بیچ سے) نکلنے والے (گروہ) سے جو مسلمان (جماعت) لڑائی کرے گی وہ حق کے زیادہ قریب ہو گی“۔
صحیح ابن حبان 6749 نبی کریم ﷺ نے کچھ لوگوں کا تذکرہ کیا جو اس وقت پیدا ہوں گے جب لوگوں میں اختلاف ہو جائے گا، آپ ﷺ نے فرمایا ان کی نشاندہی ٹنڈ ہو گی وہ سب سے برے انسان ہیں یا وہ سب سے بری مخلوق ہیں (مسلمانوں کی) دو جماعتوں میں سے انہیں جو قتل کرے گا وہ حق کے زیادہ قریب ہو گا۔
شرح احادیث: ان دو مسلمان جماعتوں سے مراد حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنھما کی جماعتیں ہیں۔ اسلئے امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: بیچ میں ہونے والے اختلاف سے مراد حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنھما کا آپس کا اختلاف ہے اور جو گروہ ان کے بیچ سے نکلا وہ خوارج کا گروہ ہے۔ خوارج سے لڑائی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کی اسلئے بھی وہ حق پر ہیں۔
اہلتشیع عالم: باقر مجلسی نے لکھا: چوتھی متفق علیہ حدیث جس کو حمیدی نے روایت کیا ہے، مسند ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے اس حدیث میں پستان والے (خارجی) شخص اور ان کے ساتھیوں کا تذکرہ ہے جن کو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نھروان جگہ پر قتل کیا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کے اختلاف کے وقت ایک گروہ مسلمانوں سے الگ ہو جائے گا اور جو جماعت اس گروہ سے لڑے گی وہ دونوں جماعتوں میں سے حق سے زیادہ قریب ہو گی۔ (بحار الانوار طبع جدید ج 32 ص 349 طبع قدیم ج 32 ص 310 المجلد السادس عشر)۔ بخاری 3610 ”ابو سعید خدری فرماتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے (مسلمانوں کے بیچ سے نکلنے والے تیسرے گروہ خارجیوں)اس گروہ سے لڑائی کی اور میں ان کے ساتھ تھا“۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا کہ انکا کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہمارے اور ان کے مقتولین جنت میں جائیں گے، باقی یہ معاملہ میرا یا معاویہ کا ہے۔ (ابن ابی شیبہ ج 7 ص 552) اور جنت جمل کے مقتولین کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا بھائی کہا (ابن ابی شیبہ ج7، ص 535)
تجزیہ: جنگ جمل اور جنگ صفین والے جنتی ٹھرے اور جنگ نہروان والے قاتلین عثمان، خارجی و سبائی و ایرانی تھے۔ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”حدیث عمار“ دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور دوسری جماعت باغی ہے مگر وہ مجتہد ہیں اسلئے ان پر کوئی گناہ نہیں“۔
مزید تشریح: حدیث عمار میں ہے”عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی“ کا مطلب ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے سامنے حق واضح تھا اور جب انسان کے سامنے حق واضح ہو جائے پھر بھی حق کو چھوڑ کر جائے تو جہنم میں جائے گا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کے سامنے یہ حق واضح نہیں تھا بلکہ وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے فی الفور قصاص نہ لینے کی وجہ سے خطا پر تصور کرتے تھے۔
بخاری 2732 ”صلح حدییبیہ کے وقت عروہ جب بھی حضورﷺ کی داڑھی کو رواج کے مطابق ہاتھ لگانے لگتا تو تلوار لٹکائے، سر پر خود پہنے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ اس کا ہاتھ جھٹک کر دور کرتے اور صلح حدیبیہ کے صحابہ کرام کے متعلق اللہ کا فرمان ہے: یقینا اللہ تعالی مومنوں سے خوش ہو گیا جبکہ وہ درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے (اللہ)نے جان لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔ (الفتح 18) مسلم 6404”اصحاب شجرہ (درخت والوں) کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں داخل نہ ہو گا“۔
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کئی اور بزرگ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھے تو قرآن و سنت کا کون انکار کرے گا؟؟
بخاری 6875 ”دو مسلمان جب آپس میں تلواروں کے ساتھ لڑتے ہیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہیں“ لیکن امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ خون جو صحابہ کے بیچ میں اختلافات کی وجہ سے بہے تھے، نبی کریم ﷺ کے اس وعید کے اندر داخل نہیں۔ اہلسنت اور اھل حق کا مذہب یہی ہے کہ ان کے بارے میں اچھا گمان رکھا جائے، اور جو ان کے بیچ میں اختلافات ہوئے اس حوالے سے خاموش رہا جائے، ان کے بیچ میں جو لڑائیاں ہوئیں تھیں اس حوالے سے (صحیح) توجیہ بیان کی جائے۔
بے شک وہ سارے کے سارے مجتہد اور توجیہ کرنے والے تھے اور ان کا نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی دنیا کی لالچ تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر جماعت کا یہی خیال تھا کہ وہ حق پر ہیں اور اس کا مخالف باغی ہے اسلئے ان سے قتال کرنا واجب ہے تاکہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کچھ ان میں سے درست تھے اور کچھ ان میں سے اجتہادی خطا کی وجہ سے معذور ہیں کیونکہ یہ غلطیاں اجتہاد کی وجہ سے صادر ہوئیں اور مجتہد جب اجتہاد کرتا ہے اس سے خطا صادر ہو جائے تو (پھر بھی اسے ثواب ملتا ہے) اور اسکی غلطی پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (شرح مسلم)
عقیدہ: اہلسنت کا عقیدہ یہ بنا کہ جنگ جمل اور جنگ صفین کے مقتولین جنتی ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف رافضی اور ناصبی ہو سکتے ہیں مگر اہلسنت نہیں۔
لڑائی: یہ بھی یاد رہے کہ یہ مسئلہ کتابوں کا ہے ورنہ کوئی بھی اُس وقت وہاں موجود نہیں تھا۔کتابوں میں لکھنے والوں نے منگھڑت، ضعیف اور جھوٹ بھی لکھا ہے اور اہلسنت علماء کرام نے اسلئے ایک اصول بنا دیا کہ صحابہ کرام کے صحابہ کرام کے ساتھ مسائل، صحابہ کرام کے اہلبیت کے ساتھ معاملات اور اہلبیت کے اہلبیت کے ساتھ مشاجرات پر خاموش رہیں گے کیونکہ ان کے حق میں قرآن و سنت موجود ہے۔
فتنہ: اس دور میں احادیث کی ظاہری شرح یا قرآن و سنت کے معنی تبدیل کر کے فتنہ پیدا کرنے والے رافضی اور نام نہاد سنی علماء موجود ہیں اور جہنم کی طرف بُلا رہے ہیں اور حدیث عمار کی شرح ان کو جنت کی طرف بلا رہی ہے۔
تحقیق: اسی طرح اپنی اولادوں کو دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث یا شیعہ نہیں بنانا بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بنانا ہے، اسلئے تحقیق کرنے کے لئے مذہبی جماعتوں سے سوال ہیں:
سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔ کیا علماء بتانا پسند کریں گے اور عوام پوچھنا پسند کرے گی؟
سوال: اہلحدیث جماعت تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں اور اہلحدیث جماعت کہتی ہے کہ ہم حضور ﷺ کے مقلد ہیں تو اس پر ایک ضروری سوال ہے کہ کیا حضور ﷺ، صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین نے بخاری و مسلم سے پہلے صحیح احادیث کے مطابق نماز ادا کی؟ اگر نہیں تو صحاح ستہ کے کتنے عرصے بعد کس ”مجتہد“ نے اہلحدیث جماعت کو ”صحیح احادیث“ سے نماز سکھائی اس کا نام بتا دیں۔
سوال: اہلتشیع بے بنیاد مذہب اسلئے ہے کہ قرآن و سنت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اہلتشیع کا تعلق نہ تو صحابہ کرام سے ہے جنہوں نے قرآن اکٹھا کیا اور نہ ہی اہلبیت (حضرات علی، فاطمہ، حسن و حسین و دیگرامام رضی اللہ عنھم) کا تعلق ان کتابوں (الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) اور اہلتشیع علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابوبریدہ) سے ہے، اسلئے اہلتشیع ختم نبوت کے منکر اور ڈپلیکیٹ علی کے حوالے سے اپنے دین کی عمارت بے بنیاد بنا کر بیٹھے ہیں۔