واقعہ معراج
1۔ معراج النبی ﷺ کا واقعہ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں وضاحت سورہ نجم کی 1 – 18 میں اشاروں کنایوں میں آیا ہے اور اسی طرح مختلف احادیث میں اسکا ذکر موجود ہے۔ جناب علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے تفسیر تبیان القرآن جلد 6 صفحات 615 – 643 اور شرح صحیح مسلم جلد 1 میں تمام احادیث کے حوالے دے کر لکھا ہے۔ تبیان القرآن کے لنک کمنٹ میں موجود ہیں جس سے یہ تفسیر ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
2۔ واقعہ معراج کی دن، تاریخ، مہینے اور سال میں اختلاف مگر جمہور علماء کا عقیدہ ہے کہ حضور ﷺ 27 رجب المرجب کوجسم اور روح کے ساتھ گئے اور اپنی آنکھوں سے اللہ کریم کا دیدار کیا۔ اسلئے مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کا سفر قرآن میں ہے اور انکاری کافر ہے، سدرۃ المنتہی تک جانا احادیث سے ثابت اسلئے انکاری گمراہ ہے اور اجماع امت ہے کہ حضور ﷺ نے اللہ کریم کا دیدار کیا۔
اشاراتِ واقعہ معراج: حضور ﷺ کا ام ہانی کے گھر سونا، حضرت جبرائیل علیہ اسلام کا براق لے کر آنا، شق صدر کرنا، مقدس مقامات (مدینہ پاک، وادی سینا شجرہ موسی علیہ السلام، بیت اللحم میں پیدائش حضرت عیسی علیہ اسلام)پر 2 نفل پڑھنا، حضرت موسی علیہ السلام کو قبر میں نماز ادا کرتے دیکھنا، مسجد اقصی میں تمام نبیوں کا جسم و روح کے ساتھ تشریف لانا اور حضور ﷺ کا امامت کروانا، پانی شراب اور دودھ کے پیالے میں سے دودھ کا پیالہ پینا، آسمانوں کی طرف سفر کرنا، پہلے سے لے کر چھٹے آسمان تک حضرات آدم، عیسی، یوسف،ادریس، ہارون، موسی اورابراہیم علیھم السلام سے ملاقات، سدرۃ المنتی سے آگے حضرت جبرائیل علیہ اسلام کا انکار کرنا۔
حضور ﷺ کا رف رف سواری سے عرش معلی جانا، جنت میں حضرت بلال کے قدموں کی آہٹ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا محل دیکھنا۔ جہنم میں بے نمازی، زانی، سود خور، غیبت، راستے میں بیٹھنے والے، زکوۃ، خیانت اور بے عمل علماء کا حال دیکھنا۔ دجال اور دروغہ جہنم کو بھی دیکھا۔ دنیا کو بوڑھی عورت اورشیطان کو بوڑے مرد کی صورت میں دیکھا۔ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرنے والی کا حال دیکھا۔
اللہ کریم نے 50 نمازیں فرض کیں جو حضرت موسی علیہ السلام کے مشورے سے 5 ہوئیں۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات تحفے میں ملیں۔کروڑوں سال کا سفر ایک لمحے میں طے ہوا کہ بستر بھی گرم اور وضو کا پانی بھی بہہ رہا تھا کہ واپسی ہو گئی۔ حضور ﷺ کا سفر نامہ بتانا، کافروں کا مذاق اُڑانا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تصدیق کرنا، کافروں کا بیت المقدس کے متعلق سوال اور بیت المقدس کو اللہ کریم کا حضور ﷺ کے سامنے رکھ دینا۔ قافلوں کا بتانا اور جیسا بتانا ویسے ہونا۔
علماء کرام کا حضور ﷺ کی بشریت، نورانیت اور روحانیت پر لکھنا۔ لاکھوں سے زیادہ صفحات میں حضور ﷺ کی شان بیان کرنا۔سائنسی انداز میں معراج کو ثابت کرنا۔ شاعروں کا معراج نامہ لکھنا۔ کمنٹ سیکشن میں لبرلز، سیکولر اور دیگر بے دین کے سوالات موجود ہیں مگر ان سے ایک ہی سوال ہے کہ اپنی کوئی الہامی، عقلی، شعوری قانون کی متفقہ کتاب اور علماء بتاؤ تاکہ علم ہو کہ تمہارا عقیدہ کیا ہے؟
معراج شریف کی رات عبادت کی رات نہیں ہے بلکہ یہ کہیں کہ 27 رجب کو نوافل اور روزہ رکھنے کا احادیث میں آیا ہے جس پر عمل جائز ہے، احادیث کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔ دیدار الہی کے بارے میں عقیدہ اورجہنم کی سزاؤں کابھی کمنٹ سیکشن میں موجود ہے۔ علماء کرام تقریر جمعہ یا 27 رجب کی رات کو واقعہ معراج بیان کریں۔
بے عمل علماء: حضور ﷺ نے معراج کی رات بے عمل علماء کی سزا بھی بیان کی ہے۔ قبر میں بھی سوال جواب کے وقت میں ”من ربک“ کے جواب میں ”عوام“ یہی کہے گا کہ میں تو وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اسلئے عوام نے علماء پر نہیں رہنا اور علماء نے عوام پر نہیں رہنا بلکہ ”حق“ بتانا اور سیکھنا ہے۔ اگر اتنا نہیں کر سکتے تو یہ حق بیان کیا ہے، اس کی تصدیق کر دیں یا سمجھا دیں:
۱) دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چارمصلے اجماع امت کے دور کے عقائد اہلسنت پر ہیں اور اہلسنت کو بدعتی و مشرک سعودی عرب کے وہابی علماء نے کہا۔ بریلوی علماء کہتے ہیں کہ دیوبندی علماء کی چار عبارتوں پر کفر کا فتوی ہے اس کا دفاع نہ کیا جائے بلکہ توبہ کی جائے، البتہ دیوبندی چار کفریہ عبارتوں سے توبہ کرنے کی بجائے دفاع کرتے ہیں اور ساتھ میں جھوٹ پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ بریلوی اہلسنت بدعتی و مشرک ہیں۔
۲) اہلحدیث حضرات تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے قرآن و سنت سے ثابت کیا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور اب صحیح احادیث میں میری اتباع یا تقلید کرنا اور ضعیف احادیث کا انکار کرنا۔ یہ قانون کس مجتہد نے بنایا اُس کا نام بتا دیں۔
۳) سعودی عرب کے وہابی علماء نے خلافت عثمانیہ کو بدعتی و مشرک کہہ کر جھوٹا پراپیگنڈا کیا، اب اُس پراپیگنڈے میں دیوبندی اور اہلحدیث بھی شامل ہیں جنہوں نے فتاوی رضویہ اور جناب احمد رضا خاں صاحب کی کردار کشی کی۔ یہ بھی سچ ہے کہ بریلوی علماء نے فتاوی رضویہ کو بیان نہیں کیا جس سے جاہلیت پھیلی اور اب بریلویت تفضیلیت و تفسیقیت سے ہوتی ہوئی رافضیت کے راستے پر گامزن ہے، اس سے بچاؤ کا واحد حل صرف اور صرف فتاوی رضویہ کے عقائد اہلسنت پر متفق ہونا ہے۔
۴) رافضیت (اہلتشیع) حضرات قرآن کو اکٹھا کرنے والے صحابہ کرام کو گالیاں نکالتے ہیں اور اہلبیت کو 124000 صحابہ کرام سے علیحدہ کر کے ہر جھوٹی بات ان سے منسوب کر کے ”فقہ جعفر“ کو وجود میں لاتے ہیں تو ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کی مرفوع، موقوف اور مقطوع احادیث کے راوی کون کون سے صحابی یا تابعی ہیں؟