سبائی کہانی
قرآن و سنت پر چلنے والے کو اہلسنت کہتے ہیں اور اہلسنت کے قانون و اصول کا بہترین علم جناب احمد رضا خاں صاحب کے فتاوی رضویہ سے ملتا ہے۔ البتہ بریلوی کوبدعتی و مشرک، رضا خانی، قبر پرست کہنے والے دیوبندی اور اہلحدیث سے عرض ہے کہ غیر شرعی ”مزار یا میلاد“ سے نہیں بلکہ فتاوی رضویہ سے بدعت و شرک ثابت کریں۔ البتہ عبداللہ بن سبا کی کہانی اہلسنت اور اہلتشیع کی کتابوں میں اسطرح لکھی ہے۔
اہلسنت کی کتابیں
1۔ سیدنا علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا: اس کالے خبیث یعنی عبداللہ بن سبا کامیرے ساتھ کیاتعلق ہے؟ اور وہ (ابن سبا) ابوبکر اور عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بُرا کہتا تھا۔ (التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ ص 580 ح 1398)
2۔ (سیدنا) علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منبر پر فرمایا: یہ کالا ابن السوداء اللہ اور رسول پر جھوٹ بولتاہے۔ (الجزء الثالث و العشرون من حدیث ابی الطاہر محمد بن احمد بن عبداللہ بن نصر الذہلی :157وسندہ حسن، تاریخ ابن ابی خیثمہ: 1398، تاریخ دمشق 31/6) ابن سوداء سے مراد ابن سبا ہے۔
3۔ عبیداللہ بن عتبہ (بن مسعود) رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نہ تو سبائی (عبداللہ بن سبا و الایعنی شیعہ) ہوں اور نہ حروری (خارجی) ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 11 ص 299 ،300 ح 31227، دوسرا نسخہ ح 31761)
4۔ یزیدبن زریع رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 192ھ) نے فرمایا: ہمیں(محمد بن السائب) الکلبی نے حدیث بیان کی اور وہ سبائی(یعنی عبداللہ بن سبا کی پارٹی میں سے )تھا۔ (الکامل لابن عدی ج 6 ص 2128 وسندہ صحیح ،دوسرا نسخہ ج 7 ص 275)
5۔ محمد بن السائب الکلبی نےکہا: "اناسبائی”میں سبائی ہوں۔ (الضعفاء للعقیلی 4/77 وسندہ صحیح، المجروحین لابن حبان 2/253)
6۔ لفظ سبائی کی تشریح میں امام ابوجعفر العقیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "هم صنف من الرافضة اصحاب عبد اللّه بن سبا” یہ رافضیوں کی ایک قسم ہے، یہ عبداللہ بن سبا کے پیروکار ہیں۔ (الضعفاء الکبیر 4/77)
7۔ امام عامر بن شراحیل الشعبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 104ھ) نے فرمایا: میں نے ان سبائیوں سے زیادہ احمق کوئی قوم نہیں دیکھی (الکامل لابن عدی 6/2128 وسندہ صحیح ،دوسرا نسخہ ج 7 ص 275)
8۔ امام ابن شہاب الزہری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ثقہ راوی عبداللہ بن محمد بن علی بن ابی طالب کے بارے میں فرمایا: "اور عبداللہ سبائیوں کے پیچھے چلتے تھے۔ (التاریخ الکبیر للبخاری 5/187) سبائیوں سےمراد رافضیوں(شیعوں) کی ایک قسم ہے۔ (تہذیب الکمال ج 10 ص513)
9۔ حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اور کلبی سبائی تھا، وہ عبداللہ بن سبا کے پیروکاروں میں سے تھا۔ (المجروحین 2/253)
10۔ ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی نے کہا: پھر سبائی ہیں، جب انھوں نے کفر میں غلو کیا تو یہ دعویٰ کیا کہ علی اُن کے الٰہ (معبود) ہیں حتیٰ کہ انھوں (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے ان لوگوں کو جلادیا۔ (احوال الرجال ص 37)
11۔ امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اعمش کے شاگرد ابو سلمان یزید نامی راوی کے بارے میں فرمایا: "وھو سبائی” اور وہ سبائی ہے۔ (تاریخ ابن معین، روایۃ الددری: 2870)
ان کے علاوہ اہلسنت کی اسماء الرجال کی کتابوں (تاریخ دمشق لابن عساکر(31/3) میزان الاعتدال(2/426) لسان المیزان (3/289،دوسرانسخہ 4/22) سے عبداللہ بن سبا یہودی کے وجود کا ثبوت ملتا ہے۔ فرقوں پر لکھی گئی کتابوں (ابو الحسن الاشعری کی کتاب”مقالات الاسلامیین” (ص 86) الملل والنحل للشہرستانی(ج 2 ص 11) اوزا الفصل فی الملل و الاھواء و النحل (4/180) میں بھی عبداللہ بن سبا اور سبائیوں کا ذکر موجود ہے۔ اہل سنت کاعبداللہ بن سبا کے وجود پر اجماع ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اہلتشیع کی کتابیں
1۔ امام ابو عبداللہ (جعفر بن محمد بن علی الصادق) رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: عبداللہ بن سبا پر اللہ لعنت کرے اُس نے امیر المومنین (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے بارے میں ربوبیت (رب ہونے) کا دعویٰ کیا، اللہ کی قسم! امیر المومنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تو اللہ کے طاعت شعار بندے تھے، تباہی ہے اس کے لیے جو ہم پر جھوٹ بولتا ہے، بے شک ایک قوم ہمارے بارے میں ایسی باتیں کرے گی جو ہم ا پنے بارے میں نہیں کرتے، ہم ان سے بری ہیں ہم ان سے بری ہیں۔ (رجال کشی ص 107، روایت نمبر 172)
2۔ ہشام بن سالم سے روایت ہے کہ میں نے ابوعبداللہ کو اپنے شاگردوں کے سامنے عبداللہ بن سبا اور امیر المومنین علی بن ابی طالب کے بارے میں اس کے دعوی ربوبیت کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا: اس نے جب یہ دعویٰ کیا تو امیر المومنین (رضی اللہ عنہ) نے اس سے توبہ کرنے کامطالبہ کیا، اس نے انکار کر دیا تو انھوں نے اُسے آگ میں جلادیا۔ (رجال کشی ص107، روایت: 171، وسندہ صحیح عندالشیعہ)
3۔اسماء الرجال میں شیعوں کے امام کشی نے لکھا ہے: بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا پھر اسلام لے آیا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے والہانہ محبت کی وہ یہودیت میں غلو کرتے ہوئے یوشع بن نون کے بارے میں کہتا تھا: وہ موسیٰ علیہ السلام کے وصی تھے، پھر مسلمان ہونے کے بعد وہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اس طرح کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ وصی ہیں۔
سب سے پہلے علی کی امامت کی فرضیت والا قول اُسی نے مشہور کیا اور آپ کے دشمنوں سے براءت کا اظہار کیا، آپ کے مخالفین سے کھلم کھلا دشمنی کی اور انھیں کافر کہا، اس وجہ سے جو لوگ شیعوں کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں: شیعوں اور رافضیوں کی اصل یہودیت میں سے ہے۔ (رجال کشی ص108، 109)
4۔ شیعوں کے ایک مشہور امام ابو محمد حسن بن موسیٰ النوبختی نے لکھا ہے: علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگردوں (اور متبعین ) میں سے علماء کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا پھر اسلام لے آیا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے والہانہ محبت کی، وہ اپنی یہودیت میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد یوشع بن نون کے بارے میں ایسا کلام کرتا تھا پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایسی بات کہی، سب سے پہلے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت کی فرضیت کا قول اس نے مشہورکیا، اس نے آپ کے دشمنوں سے براءت کا اظہار کیا اور آپ کے مخالفین سے کھلم کھلا دشمنی کی، اس وجہ سے جوشیعہ کا مخالف ہے وہ کہتا ہے: رافضیوں کی اصل یہودیت سے نکالی گئی ہے۔ (فرق الشیعہ لنوبختی ص22)
5۔ اسماء الرجال کی کتاب میں لکھا ہے: عبداللہ بن سبا ملعون ہے، اسے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلادیاتھا۔ (تنقیح المقال ج 1ص 89 راوی نمبر 6872)
6۔ ابوجعفر محمد بن الحسن الطوسی (متوفی 460ھ) نے لکھا ہے: عبداللہ بن سبا جو کفر کی طرف لوٹ گیا اور غلو کا اظہار کیا۔ (رجال الطوسی ص51)
7۔ حسن بن علی بن داود الحلی نے کہا: عبداللہ بن سبا کفر کی طرف لوٹ گیا اور غلو کا اظہار کیا،وہ نبوت کادعویٰ کرتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ ہیں۔ (کتاب الرجال ص254، الجزء الثانی)
8 – 10: دیکھئے المقالات والفرق لسعد بن عبداللہ الاشعری القمی(ص 21) قاموس الرجال للتستری (ج 5 ص 463) معجم رجال الحدیث للخوئی ( ج 10ص 200)
انکاری: اپنی کتابوں کے خلاف سید مرتضی عسکری نے ”عبداللہ بن سباء اور دوسری کہانیاں“ اور محمد جواد مغنیہ نے بھی اس کتاب کے مقدمے میں عبداللہ ابن سباء کے وجود کا انکار کیا ہے۔
سوال: اس پوسٹ پرعبداللہ بن سبا پر کوئی بحث نہیں ہو گی بلکہ اہلتشیع سے ایک ہی سوال ہے کہ قرآن کو اکٹھا کرنے والے صحابہ کرام اُن کے ایمان کا حصہ ہیں یا نہیں؟ اہلبیت کے اقوال کیا حضور ﷺ کی حدیث کے برابر ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو حضور ﷺ کی احادیث تو 124000صحابہ کرام سے اہلسنت نے اکٹھی کیں تو اہلتشیع نے منگھڑت الفاظ کو حضور ﷺ اور مولا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کر کے اپنی عوام کو گمراہ کیوں کیا؟
اہلتشیع: ش سے شیعہ اور ش سے شیطان جو ش سے شک ”اہلسنت“ کی کم تعلیم یافتہ عوام میں پیدا کرتے ہیں، اہلتشیع کا ساتھ ڈاکٹر، انجینئر، پیر،علماء اور نعت خواں بھی دے رہے ہیں کیونکہ اہلسنت کے دو بڑے دھڑے دیوبندی اور بریلوی ”چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف“ کی وجہ سے خلافت عثمانیہ والے عقائد بیان نہیں کرتے جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعت و شرک کہا بلکہ اہلحدیث اور دیوبندی وہابی علماء کے ساتھ ہیں مگر پھر بھی ایک پیج پر نام نہاد حنبلی مقلد نہیں بنتے۔
کتابیں: قرآن کی تحریف والی احادیث کی کتابیں اہلتشیع کی ہیں، اُن سے بھی مُکر جائیں گے، جن علماء نے قرآن کی تحریف کی بات کی اُن علماء سے بھی مُکر جائیں گے اور اُس کی بنیاد پر فقہ جعفر بنی اُسکو بے بنیاد نہیں کہیں گے۔ اہلتشیع کا عقیدہ ہی تقیہ بازی ہے جس میں سے کچھ حصہ پاکستان کے کرپٹ علماء کو ملا ہوا ہے جو اصل حقیقت بیان نہیں کر سکتے بلکہ قیامت آنے کا اعلان کر رہے ہیں۔