قبر پرست دیوبندی اکابر
دیوبندی حضرات نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ 1924 میں خلافت عثمانیہ ختم ہو جائے گی اور آل سعود کے ساتھ آل وہاب کی حکومت ہو گی ورنہ دیوبندی علماء کبھی بھی المہند کے 26 سوالوں کا جھوٹ نہ بولتے۔ البتہ اب المہند کا چھٹا سوال پڑھیں اور عُمرہ یا حج کرنے والے بتائیں کہ کیا روضے کی طرف منہ کر کے دعا کرنے کو وہاں کے علماء شرک شرک نہیں کہتے:چھٹا سوال: کیا جائز ہے مسجد نبوی میں دعا کرنے والے کو یہ صورت کہ قبر شریف کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اور حضرت محمد ﷺ کا واسطہ دے کر حق تعالی سے دعا مانگے۔جواب: اس میں فقہاء کا اختلاف ہے۔۔ زیارت کرنے والے کو قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہئے جیسا کہ امام حسن نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔۔۔دوسرا امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ سنت یہ ہے کہ جب تم قبر شریف پر حاضر ہو تو قبر مطہر کی طرف منہ کر کے اس طرح کہو”آپ پر سلام نازل ہو اے نبی اور اللہ تعالی کی رحمت و برکات نازل ہوں پھر۔۔ فرماتے ہیں میں نے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو اس طرح فرماتے سنا کہ جب ابو ایوب سختیانی رحمتہ اللہ علیہ مدینہ منورہ میں آئے تو میں وہیں تھا۔ میں نے کہا میں ضرور دیکھوں گا یہ کیا کرتے ہیں۔ سو انہوں نے قبلہ کی طرف پشت کی اور رسول اللہﷺ کے چہرۂ مبارک کی طرف اپنا منہ کیا اور بلا تصنع روئے۔۔۔غرض اس سے ظاہر ہو گیا کہ جائز دونوں صورتیں ہیں مگر اولی یہی ہے کہ زیارت کے وقت چہرۂ مبارک کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہئے اور یہی ہمارے نزدیک معتبر ہے اور اسی پر ہمارا اور اہمارے مشائخ کا عمل ہے اور یہی حکم دعا مانگنے کا ہے جیسا کہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے جب کہ ان کے کسی خلیفہ نے ان سے مسئلہ دریافت کیا تھا۔الخ (المہندصفحہ31-33) اس سے پہلے المہند کا تیسرا چوتھا سوال بیان ہوا تھا:سوال: کیا وفات کے بعد رسول اللہﷺ کا توسل لینا دعاؤں میں جائز ہے یا نہیں؟ تمہارے نزدیک سلف صالحین یعنی انبیاء صدیقین اور شہدا اولیاء اللہ کا توسل بھی جائز ہے یا ناجائز؟
جواب: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء و صلحاء و اولیاء و شہداء و صدیقین کا توسل جائز ہے، ان کی حیات میں یا بعد وفات، بایں طور کہ کہے یا اللہ میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت براری چاہتا ہوں اسی جیسے اور کلمات کہے(المہندصفحہ29-30)
دیوبندی اور عرس
بزرگانِ دین کے یومِ وِصال کو عرس اِس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ محبوب سے ملاقات کا دِن ہے دلیلحدیث نم کنومۃ العروس ہے ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 60 دیوبند اشرف علی تھانوی)
عرس بزرگانِ دین اور سماع قوالی سننا جائز ہے بزرگانِ دین عرس مناتے اور سماع سنتے تھےاور اعراس کے دن کی تخصیص کا سبب یہ ہے کہ اُس دن اُناللہ والوں کا وِصال ہوا (بوادر النوادر صفحہ 400 دیوبندیاشرف علی تھانوی)
اعراس بزرگانِ دین خلاف شرع نہیں ہیں جس طرح مدارسِ دینیہ میں اسباق کےلیئے گھنٹے مقرر کرنا مباح امر اور جائز ہے اسی طرح تعین یوم عرس بھی جائزہے (بوادر النوادر صفحہ نمبر 401 دیوبندی اشرف علی تھانوی)
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ شاہ عبد الرّحیم اور شاہ ولی اللہ علیہماالرّحمہ کے مزرارت پر جاتے اور فاتحہ پڑھتے لنگر تقسیم کرتے ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ 38 حکایت 29 دیوبندی اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ عمرفاروق کراچی)
اشرف علی تھانوی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوتے اور محفلِ سماع و قوالی (اشرف السوانح جلد اول ،دوم صفحہ نمبر 226)۔
نتیجہ: دیوبندی اور بریلوی کا یہی عقیدہ ہے کہ قبر کی طرف منہ کر کے دعا کرنا، توسل استمداد استغاثہ کی احادیث پر عمل کرنا اور دن مقرر کر کے عرس کرنا جائز ہے مگر اہلحدیث حضرات اور سعودی عرب کے وہابی علماء کے نزدیک وصال کر جانے والوں کا وسیلہ جائز نہیں۔ اس کو ہی قبر پرستی کہہ کر پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
قیامت: اگر ہر مسلمان نے قبر و حشر میں اپنا جواب خود دینا ہے تو سب کو سمجھائے کہ خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت ہی اصل”اہلسنت“ ہیں اور ایسے اہلسنت مسلمان کے لئے کوئی فرض، واجب، سنت موکدہ نہیں ہے کہ میلاد، عرس، ایصالِ ثواب، اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، انگوٹھے چومنا، قبر پر اذان جیسے اعمال کرے اور نہ ہی قانون کے مطابق ان اعمال کو بدعت کہہ سکتا ہے۔
تجدید ایمان اور نکاح: ہمارے نزدیک دیوبندی، بریلوی، وہابی، اہلحدیث سبکو ایک دوسرے کو ان اعمال پر بدعتی و مشرک کو کافر کہنے پر تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا ہو گا کیونکہ بدعت و شرک خلافت عثمانیہ والوں نے سکھایا نہیں اور سعودی عرب کے آل وہاب نے کہا کہ تقلید، عرس، میلاد وغیرہ بدعت و شرک ہے تو پھر اہلحدیث اور سعودیہ نے کیا حضور ﷺ کے فرمان پر تقلید وغیرہ کو بدعت و شرک کہا، اگر نہیں تو اس کا نام بتائیں جس کے مقلد ہیں؟
دیوبندی حضرات رضا خانی، بریلوی، قبر پرست، بدعتی و مشرک دراصل اپنے ”اکابر علماء“ کو کہہ رہے ہیں جنہوں نے المہند لکھی کیونکہ فتاوی رضویہ تو خلافت عثمانیہ والوں کے عقائد و اعمال پر ہے جس پر دیوبندی اکابر تھے۔ اسلئے چار کفریہ عبارتوں کا عذاب بھی المہند لکھنے والوں پر ہے اور بدعتی و مشرک بھی موجودہ دیوبندی وہابی اپنے اکابر کو کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح یہ مولائی، ملنگنی، تفضیلی، تفسیقی پیروں کے ساتھ ان کے مرید بھی گمراہ ہیں اور دیوبندی پیر و مریدبھی گمراہ ہیں جب تک خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت کے عقائد اہلسنت پر متفق نہ ہوں کیونکہ سعودی عرب میں پیری مریدی جائز نہیں۔
سیاست: اہلسنت کے لئے یہ مشکل ہے کہ سعودی عرب کی طرف جائے گا تو وہابی ہو جائے گا اور ایرانی اہلتشیع کی طرف جائے گا تو رافضی ہو جائے گا۔ یہی پلاننگ خلافت عثمانیہ کے ساتھ ”خلافت“ لفظ کو ختم کرنے کے لئے”معاہدہ لوزان“ میں شامل تھی، اسلئے اب خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت کا کوئی نام نہیں لیتا۔ 100سال سے پہلے 600سال کی تاریخ کہاں گئی اور بنو امیہ اور بنو عباس پر مسلمان لڑ رہے ہیں جبکہ 100سال پہلے کی بیان ہی نہیں کرتے۔
اہلتشیع سے سوال: حضورﷺ، صحابہ کرام و تابعین کے قول و فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔ مرفوع حدیث کا تعلق حضور ﷺ، موقوف کا صحابی اور مقطوع کا تابعی سے ہوتا ہے۔اہلتشیع حضرات کی ساری احادیث کی کتابیں منگھڑت ہیں ورنہ مرفوع، موقوف اور مقطوع احادیث کے صحابہ کرام اور اہلبیت، تابعین کے نام بتائیں جن کا قرآن و سنت کے مطابق تقیہ، تبرا، معصوم، بدا کا عقیدہ تھا۔
۔