آسان مسائلِ نماز (قسط 3)
ان اصول اور قانون کو سیکھے بغیر ہر مسلمان حافظ نماز نہیں بن سکتا۔ دوسرا امام نہیں بن سکتا، تیسرا نماز کی حقیقت جان نہیں سکتا کیونکہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ نماز میں غلطی کا کفارہ یعنی سجدہ سہو کہاں کرنا ہے۔
نماز میں (1) واجب کے چھوڑنے (2) واجب میں تاخیر (3) فرض کو دیر لگانے (4) فرض کو آگے پیچھے کرنے (5) فرض یا واجب’’دو بار‘‘ کرنے (6) واجب کو تبدیل کرنے سے’’سجدہ سہو‘‘ یعنی نماز کے آخر میں دو سجدے کرنے پڑتے ہیں ۔سب نمازوں (فرض، واجب، سنت اور نفل)میں فرض اور واجب میں اتنی دیر کرنا جس میں تین مرتبہ ’’سبحان اللہ، سبحان اللہ، سبحان اللہ‘‘ پڑھا جا سکتا ہو، اس پر سجدہ سہو کرنا پڑتا ہے۔ اب مثالوں پر غور کریں کہ کہاں کیا ’’بھول‘‘ ہوئی اور کہاں’’دیر‘‘ ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ’’سجدہ سہو‘‘ کرناپڑا، اگر سمجھ نہ آئے تو نمازی کسی عالم سے سیکھ لے جیسے:
تلاوت: نماز میں سورۃ پڑھنا یاد نہیں رہا لیکن الحمد شریف پڑھ لی یا الحمد شریف نہیں پڑھی مگر سورۃ پڑھ لی یا الحمد شریف کو سورۃ پڑھنے کے بعد پڑھا تواس بھول پر’’سجدہ سہو‘‘ کرنا پڑے گا۔
* الحمد شریف کا ایک ایک لفظ ایک مرتبہ ہی پڑھنا واجب ہے، اسلئے اگر بھول کر الحمد شریف پڑھ لی تو’’سجدہ سہو‘‘ کرنا پڑے گا۔
* الحمد شریف اور آمین کے بعد سورۃ پڑھتے ہیں اور سورۃ پڑھنے میں دیر لگا دی کہ کون سی سورت پڑھوں تو ’’سجدہ سہو‘‘ کرناہو گا، اسلئے نمازمیں کون سی سورتیں پڑھنی ہیں نماز سے پہلے فیصلہ کریں۔
* ہرفرض، واجب، سنت اور نفل ’’نماز‘‘ کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورۃ ملانی ضروری ہے اوراگر بھول کر نہ ملائی تو ’’ سجدہ سہو‘‘ کرنا پڑے گا۔
البتہ فرض نمازیں (ظہر، عصر، عشاء ) کی آخری دو رکعتوں میں اور مغرب کی آخری ایک رکعت میں سورۃ نہیں ملاتے بلکہ صرف الحمدشریف پڑھتے ہیں، ان فرضو ں میں اگر الحمد شریف کے ساتھ سورۃ مل بھی جائے تو ’’سجدہ سہو‘‘ نہیں کرتے۔
* امام پرظہر اورعصر آہستہ آواز میں اور باقی نمازوں میں اونچی آواز میں ’’تلاوت ‘‘ کرنا واجب ہے، اگر امام ظہر وعصر (رُکن کی مقدار) اُونچی پڑھ گیا یا فجر، مغرب عشاء میں خاموشی سے تلاوت کی تو ’’سجدہ سہو‘‘ کرے گا۔
* اگر کوئی دوسری رکعت میں کھڑا ہو کر الحمد شریف کی جگہ ’’ التحیات ‘‘ شروع کر دے تو سجدہ سہو ’’نہیں‘‘ کرے گا بلکہ یاد آنے پر الحمد شریف پڑھ کر سورۃ ملائے اور رکوع کرے۔ البتہ بھول کر التحیات کی جگہ پر الحمد شریف پڑھنی شروع کر دی تو ’’ سجدہ سہو‘‘ کرنا پڑے گا۔
* امام کے پیچھے عوام الحمد شریف اور قرآن کی تلاوت نہیں کرے گی چاہے وہ نماز ظہر یا عصر ہو۔
* قرآن کی سورتوں کو ترتیب سے پڑھنا چاہئے لیکن اگر ترتیب بدل بھی گئی تو سجدہ سہو نہیں کرتے۔
سجدہ: بھول کر ایک سجدہ کر کے بندہ دوسری رکعت کے لئے اُٹھ گیا تو یاد آنے پر واپس آ کر ایک سجدہ کرے اور دوبارہ الحمد شریف اور سورۃ پڑھے اور آخر میں’’ سجدہ سہو‘‘ کرے۔
قعدہ کرنا اورتشہد (التحیات پڑھنا)
نماز (ظہر، عصر، مغرب یا عشاء) میں دوسری رکعت میں بیٹھنا تھا لیکن بھول کر کھڑے ہوکر تیسری رکعت میں’’قرات‘‘ شروع کر دی تو اب ساری رکعتیں کھڑی ہو کر پڑھ لیں اور آخر پر ’’سجدہ سہو‘‘ کریں، اگر تیسری رکعت میں کھڑے ہونے کے بعد بیٹھ گئے تو گناہ گار ہوں گے لیکن سجدہ سہو کرنے سے نماز ہو جائے گی۔
* امام دوسری رکعت میں نہیں بیٹھا بلکہ تیسری رکعت میں کھڑا ہونے کے بعد واپس آ گیا ہے تو گناہ گار ہے مگر سجدہ سہو کرنے پر نماز ہو جائے گی لیکن اگر عوام کے سبحان اللہ کہنے پر آیا تو نماز دوبارہ پڑھنی پڑھے گی۔
* اگرچوتھی رکعت میں التحیات پڑھ کر پانچویں کیلئے کھڑا ہو گیا ہے تو اس صورت میں سجدہ سے پہلے پہلے واپس آ کر التحیات نہیں پڑھنی بلکہ سیدھا ’’سجدہ سہو‘‘ کرے اور پھر التحیات، درود اور دعا پڑھے، لیکن اگر پانچویں رکعت کا سجدہ بھی کر لیا ہے تو ایک رکعت اور ملا لے تاکہ چھ رکعت ہو جائیں گی، 4 فرض اور 2 نفل ادا ہو جائیں گے مگر ’’سجدہ سہو‘‘ پھر بھی کرنا پڑے گا۔
* امام اگر پانچویں رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا تو پیچھے سے عوام سوئی نہ رہے بلکہ لقمہ (سبحان اللہ کہے) دے اور اگر اس نے واپس آنے میں دیر لگا دی تو ’’سجدہ سہو‘‘ کرنا پڑے گا۔
* نماز (ظہر، عصر، مغرب یا عشاء) میں دوسری رکعت میں التحیات کے بعدکھڑا ہونا تھالیکن اتنا درود شریف (اللّھم صل علی محمد) پڑھ لیا تو سجدہ سہو کرنا پڑے گا۔
اگر امام کے ساتھ التحیات میں دوسری رکعت میں ملے اور امام تیسری رکعت کے لئے اٹھ جائے تو عوام ’’التحیات ‘‘پوری کر کے امام کے ساتھ تیسری رکعت میں شامل ہو۔ اسی طرح چوتھی رکعت کے آخر میں شامل ہوئے اور امام نے سلام پھیر دیا لیکن ’’عوام‘‘ التحیات عبدہ و رسولہ تک پوری کر کے بقیّہ نمازپڑھے۔
7۔ ساتواں فرض نماز سے ارادے سے نکلنا
نماز کا یہ ساتواں (7) فرض ہے۔ اس میں السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہنا واجب ہے۔ اگر السلام علیکم کہہ کر نمازی نہیں نکلے گا تو نماز ادا نہیں ہو گی۔ امام سلام پھیر دے لیکن جس نے اپنی بقیہ نماز پڑھنی ہے اگر جان بوجھ کر سلام پھیرے گا تو نماز نہیں ہو گی۔ اگر ’’سلام‘‘ پھیرنے کے فوراً بعد یاد آیا کہ ابھی بقیہ نماز پڑھنی تھی توفوراً کھڑا ہو جائے لیکن اگر سوچتے ہوئے دیر لگا دی تو ’’سجدہ سہو‘‘ کرے گا۔
طریقہ سجدہ سہو: ہر نماز کے آخر میں قعدہ میں بیٹھ کر التحیات کو عبدہ و رسولہ تک پڑھیں، دائیں طرف ایک سلام پھیریں، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے دو سجدے کریں اور اس کے بعد دوبارہ التحیات، درود اور دعا کے بعد دونوں طرف سلام پھیر دیں۔
٭ اگر ایک نمازمیں کئی واجب چُھوٹ گئے تو سجدہ سہو ایک دفعہ کریں۔ اگر سجدہ سہو کرنا بھی سلام کے وقت میں یاد آیا یا دونوں طرف سلام بھی پھیر دیا لیکن کسی سے بات نہیں کی اور سینہ ابھی قبلہ رُخ ہے تو اسی وقت اللہ اکبر کہتے ہوئے دو سجدے کریں اورالتحیات، درود، دعا پڑھ کر سلام پھیر دیں۔
اتحاد اُمت: خلافت عثمانیہ، اجماع امت، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی،شافعی، مالکی، حنبلی) کے متفقہ عقائد پر ہو گی جس پر دیوبندی اور بریلوی عوام بھائی بھائی ہیں۔ دیوبندی اور بریلوی علماء کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں جس کا علم عوام کو بالکل نہیں ہے بلکہ عوام سمجھ رہی ہے کہ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، عرس، میلاد، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، انگھوٹے چومنا وغیرہ کا اصل اختلاف ہے حالانکہ یہ سب اعمال اگر کوئی اہلسنت نہیں کرتا تو کوئی گناہ گار نہیں ہے اور ان اعمال نہ کرنے والے کو دیوبندی یا وہابی کہنے والے کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا ہو گا۔
عثمانیہ خلافت، اجماع امت، اہلسنت کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ موجودہ دیوبندی حنفی، اہلحدیث غیر مقلد، سعودی عرب کے حنبلی یا وہابی علماء اگر ایک ہیں تو ایک ہو جائیں ورنہ پاکستان میں فساد برپا نہ کریں جس سے اہلتشیع رافضیت کو فائدہ ہو۔
اہلحدیث کی حماقت: اہلحدیث حضرات کے کس مجتہد نے کہا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور اب صحیح احادیث میں میری پیروی کرنا اور ضعیف احادیث کا انکار کرنا، اس کا جواب نہیں دیں گے۔
حضور ﷺ کا فیض 124000 صحابہ کرام و اہلبیت کے ذریعے دور دور تک پھیلا۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ مولا علی نہیں بلکہ ڈپلیکیٹ علی حضور ﷺ کے وارث ہیں مگر ڈپلیکیٹ علی کو حضور ﷺ کے مقابلے میں نہیں مان سکتے ورنہ ختم نبوت کے منکر بن جائیں گے۔ دوسری بات اگر صرف ڈپلیکیٹ علی کو وارث مان لیا جائے تو 124000 صحابہ کرام کو چھوڑ کر کونسا دین اور کونسی احادیث ہیں جو ڈپلیکیٹ علی نے اکیلے اہلتشیع کو کس دور میں کن کن صحابی یا تابعی راویوں کے ذریعے سکھائیں؟
نُکتہ: اہلتشیع علماء نے اپنی عوام کو جھوٹ سکھایا ہے اسلئے خود بھی جھوٹے، احادیث کی کتابیں بھی جھوٹیں اور فقہ جعفر بھی جھوٹی ہے، اگر اہلتشیع کی کتابوں کے حوالے دو تو اپنی کتابوں کے انکاری بن جاتے ہیں، اسلئے اہلتشیع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ خود آل محمد ﷺ کے دشمن ہیں کیونکہ قرآن و سنت کے اُلٹ ہیں۔