السابقون الاولون (پہلے ایمان لانے والے)
ایک دُکاندار صبح فجر کے وقت دُکان کھولے اور عشاء کے بعد بند کرے اور ایک بندہ صرف دو گھنٹے کے لئے دُکان کھولے تو بہتر وہی ہو گا جس نے صبح کے وقت دُکان کھولی اور عشاء کے وقت بند کی کیونکہ اُس نے کمائی چاہے نہ کی مگر اپنا وقت پورا دیا۔ اسی طرح جو بچپن سے دیندار ہو گیا، ایمانداری کی دُکان کھولی، وہ بہتر ہے اُن سے جو آخری وقت میں ایماندار بننا چاہتا ہے۔ ابن اسحاق کے مطابق حضور ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں:
(۱) ابو عبیدہ بن الجراح (۲) ابو سلمہ بن عبدالاسد بن مخزوم (۳) ارقم بن ابی ارقم بن مخزوم (۴) عثمان بن مظعون (۵) عبداللہ بن مظعون (۶) عبیدہ بن حارث (۷) سعید بن زید (۸) فاطمہ بنت خطاب (۹) اسماء بنت ابو بکر (۱۰) عائشہ بنت ابوبکر (۱۱) خباب بن ارت رضی اللہ عنھم
یہ کمزور روایت لگتی ہے مگر ابن اسحاق نے اس کو بیان کیا ہے۔ دوسرا اُس وقت یہ خفیہ دعوت تبلیغ تھی ورنہ ظلم و ستم ہو رہے تھے اور یہ تحریک آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔
صحیح بخاری 3460 ”عمار ابن یاسر نے اسلام قبول کیا اور فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے ساتھ ابوبکر، دو عورتیں اور دو غلام تھے“۔ پھر اسلام میں داخل ہوئے حضرات ام عمار سمیہ بنت خیاط، یاسر، بلال بن رباح، مصعب بن عمیر، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم اور اُس وقت مشکل حالات تھے۔
الذھبی کی تاریخ اسلام میں السابقین الاولین
(1) حضرات خدیجہ بنت خویلد (2) علی بن ابی طالب (3) ابوبکر صدیق (4) زید بن حارثہ (5) عثمان بن عفان (6) الزبیر بن عوام (7) سعد بن ابی وقاص (8) طلحہ بن عبیداللہ (9) عبدالرحمن بن عوف (10) ابوعبیدہ بن جراح (11) ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی (12) ارقم بن ابی ارقم (13) عثمان بن مظعون (14) عبیدہ بن حارث (15) سعید بن زید بن عمرو (16) اسماء بنت ابو بکر (17) خباب بن ارت (18) عمیر بن ابی وقاص (19) عبداللہ بن مسعود (20)مسعود بن ابی ربیعہ (21) سلیط بن عمرو بن عبدشمس (22) عیاش بن ابی ربیعہ (23) ان کی بیوی اسماء بنت سلامتہ (24) خُنیس بن حذافہ (25) عامر بن ربیعہ (26) عبداللہ بن جحش (27) جعفر بن ابی طالب (28) ان کی بیوی اسماء بنت عمیس (29) حاطب بن حارث (30) اور ان کی بیوی فاطمہ بنت المجلل (31) اور بھائی خطاب بن حارث (32) اور اس کی بیوی فکیہہ بنت یسار (33) اور بھائی معمر بن حارث (34) سائب ولد عثمان بن مظعون (35) مطلب بن ازھر (36) اور ان کی بیوی رملہ بنت ابی عوف (37) نحام نعیم بن عبداللہ (38) عامر بن فہیرہ مولی صدیق اکبر (39) خالد بن سعید بن العاص (40) اور ان کی بیوی امیمہ بنت خلف (41) حاطب بن عمرو (41) ابو خذیفہ بن عتبہ (42) واقد بن عبداللہ (43) خالد بن البکیر (44) اور بھائی عامر بن البکیر (45) بھائی عاقل بن البکیر (46) بھائی ایاس بن البکر (47) عمار بن یاسر (48) صہیب بن سنان (49) ابو ذر جندب (50) ابو نجیح عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنھم۔ یہ پچاس پہلے ایمان لانے والوں سے ہیں ان پر سلام ہو۔
اس فہرست میں اضافہ
(1)حضرت زینب بنت محمد ﷺ (2) رقیہ بنت محمد ﷺ (3) ام کلثوم بنت محمدﷺ (4) بلال بن رباح (5) مصعب بن عمیر (6) ام سلمہ (7) عتبہ بن غزوان (8) ام رومان زوجہ حضرت ابوبکر (9) عبداللہ بن ابوبکر (10) یاسر بن مالک (11) سمیہ بنت خیاط (12) المقداد بن عمرو (13)زنیرہ (14) النہدیہ (15) اور ابن النہدیہ (16) ام عبیس (17) جاریہ (18) لیلی بنت ابی حثمہ (19) سہلہ بنت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنھم۔ انہوں نے حضرت عمر اور حمزہ رضی اللہ عنھما سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ان پر بھی اسلام ہو۔
نام: یہ نام برکت کے لئے بھی لکھے ہیں، بخشش کے لئے بھی لکھے ہیں، ان پر سلام بھیجنے کے لئے بھی لکھے ہیں، ان کو پڑھنے سے حضور ﷺ کی یاد آئے اور پھر نہ جائے اسلئے لکھے ہیں، یہ اُس دور کے ہیں جب موت پاس اور زندگی دور نظر آتی تھی اسلئے ان پر سلام ہو۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو صحابہ کرام کے ناموں کا علم نہیں ہے حالانکہ کتابیں بھری ہیں احادیث اور سیرت کی صحابہ اور صحابیات کے ناموں سے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہم پڑھتے نہیں۔
نتیجہ: اس پیج پر بھی عوام پوچھتی ہے کہ تمہارے ساتھ کون ہے جب کہ جسے سمجھ آ جائے وہ ہمارے ساتھ ہے، بات کو سمجھے اور آگے پھیلائے۔ اب کام عوام کو کرنا ہو گا کیونکہ کل قیامت میں یا قبر میں یہ نہیں کہنا میں تو وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔
بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء (دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کی وجہ سے) سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔
اہلتشیع حضرات اہلسنت کو مسلمان نہیں سمجھتے، اگر مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اختلاف کیا ہوا کیونکہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ اہلتشیع کی بنیاد نہیں ہے کیونکہ بنیاد قرآن و سنت سے بنتی ہے۔ حضور ﷺ کی احادیث 124000صحابہ کرام نے اکٹھی کیں جن میں پنج تن بھی شامل ہیں لیکن اہلتشیع کی احادیث حضور ﷺ سے اگر مولا علی سے اہلتشیع تک پہنچیں ہیں تو حضور ﷺ کے تو 124000صحابی ہوئے، اہلتشیع کیا حضور ﷺ کے صحابہ کو مانتے ہیں یا مولا علی کے اپنے کوئی صحابی تھے، کون تھے نام بتائیں جن سے احادیث روایات کی ہیں ورنہ اہلسنت ٹھیک کہتے ہیں اہلتشیع بے بنیاد ہیں۔