چند غزوات اور غزوہ خندق (احزاب)
غزوہ بدر کی فتح اور غزوہ اُحد کے امتحان سے ہم نے سیکھا کہ کبھی ہار اور کبھی جیت مگر ولولہ اور جوش اگر ہو تو ہمت پست نہیں ہوتی، اسلئے حضور ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔اایک سال میں مندرجہ ذیل غزوات کر کے ثابت کر دیا کہ مسلمان اپنے ایمان اور ریاست کو بچانے کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔
دوسرا قیادت کو آرام کرنا آتا ہی نہیں تھا بلکہ مسلسل عمل کے میدان میں رہ کر امت کو سبق دینا تھا کہ آرام حرام ہے اور اب آرام تو آخرت میں ہی کریں گے۔ یہ ملٹری آپریشن اسقدر آسان نہیں ہوتے تھے بلکہ سب کے کھانے کا بندوبست، مدینے والوں کی حفاظت کا بندوبست، خیمے، ہتھ یار، سب کچھ اُٹھانا اور لگانا، کھانا پکانا، نمازیں، مسائل سب ساتھ ہوتے تھے۔
غزوہ حمراء الاسد: شوال 3ھ میں جب اُحد کے میدان سے کفار واپس ہوئے تو راستے میں اُن کو خیال آیا کہ ہمیں چاہئے تھا کہ ہم واپس مکہ نہ آتے بلکہ مدینہ پاک پر چڑھائی کر کے مسلمانوں کو ختم کر دیتے۔ حضور ﷺ کے سیکریسی نظام نے بتایا کہ کفار یہ سوچ کر واپس ہو رہے ہیں تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو زخمی ابھی اُحد سے واپس ہوئے ہیں، وہی دوبارہ ہمارے ساتھ لڑائی کے لئے چلیں گے، مدینہ سے دور مقام حمراء الاسد پر پڑاؤ ڈالا۔ دوسری طرف مشرکین مکہ کا آپس میں فیصلہ نہ ہو سکا، اسلئے وہ واپس مکہ چلے گئے اور حضور ﷺ مدینہ تشریف لے آئے۔
غزوہ بنی نضیر: ربیع الاول 4ھ، دو آدمی بنو عامر کے جن کے ساتھ حضور ﷺ کا عہد تھا، جب مدینہ منورہ سے نکلے تو راستے میں عمرو بن امیہ ضمری نے ان کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے دیت کے لئے بنو نصیر سے مدد مانگی جن سے حضور ﷺ کا معاہدہ تھا کہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ انہوں نے حضور ﷺاور صحابہ کرام کو بے خبری میں شہید کرنے کی کوشش کی جس کی خبر حضرت جبرائیل علیہ اسلام نے دی تو آپ ﷺ واپس تشریف لائے اور صحابہ کرام کو ساتھ لے جا کران کا محاصرہ کر لیااور ان کا معاشی نظام تباہ کیا، اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں خوف ڈال دیا، انہوں نے صُلح کی درخواست کی تو انہیں اسلحے کے سوا باقی تمام سامان کو لے جانے کی اجازت دے کر جلاوطن کر دیا گیا۔اسطرح کچھ یہودی شام اور کچھ خیبر جا کر آباد ہو گئے۔ اس واقعہ کے بیان میں سورہ حشر نازل ہوئی۔
غزوہ ذات الرقاع: 4ھ جمادی الاول میں حضور ﷺ 400صحابہ کرام کے ساتھ بنی محارب بنی ثعلبہ اور بنی غطفان کے مقابلے کے لئے نکلے اور اسی غزوہ میں صحابہ کرام کو صلوۃ الخوف پڑھائی گئی۔
غزوہ بدر صغری: شعبان 4ھ کو حضور ﷺ نے ابوسفیان (رضی اللہ عنہ جو بعد میں مسلمان ہوئے) نے جو کہا تھا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پر پھر ملیں گے تو حضور ﷺ 1500 صحابہ کرام کے ساتھ تشریف لائے مگر ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) کی وہاں پہنچنے کی ہمت نہ ہوئی۔
غزوہ دومتہ الجندل: 5ھ ربیع الاول میں آپ ﷺ کو علم ہوا کہ دومتہ الجندل کے قبائل آنے جانے والوں کو لوٹ رہے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ مدینہ پاک پر حملہ بھی کرنا چاہتے ہیں تو آپ ﷺ 1000 صحابہ کرام کے ساتھ وہاں پہنچے لیکن دومتہ الجندل والوں کو علم ہوا تو بھاگ گئے اورآپ ﷺ چند دن وہاں قیام فرما کر واپس ہوئے۔ (ان غزوات کی تفصیل کمنٹ سیکشن میں موجود ہے)
غزوہ احزاب: جاری ہے (باقی آئندہ)
دینِ اسلام: دین بھی ہماری ذمہ داری میں آتا ہے کہ کونسا دین بچوں کو دینا ہے ورنہ بچے ہمیشہ کنفیوزڈ رہیں گے۔ دین اسلام نفرت نہیں سکھاتا بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر جماعت یہ بتائے کہ دیوبندی بریلوی یا اہلحدیث ہونا کیوں لازم ہے بلکہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ۔
بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء (دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کی وجہ سے) سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔ کیوں اسلام کو سب بدنام کروا رہے ہو؟