Janaza Par Biyanat (جنازے پر بیانات)

جنازے پر بیانات

سخت گرمی میں جنازہ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو نماز جنازہ سے پہلے مولوی صاحب نے تقریر کرنا شروع کر دی، اُس نے ابھی دو منٹ تقریر کی تھی کہ آوازیں آنا شروع ہو گئیں کہ مولوی صاحب سخت گرمی ہے، اپنی تقریر بند کرو اور نماز جنازہ پڑھاؤ ورنہ کہیں ایک دو بندے مزید گرمی سے مر نہ جائیں۔ اسلئے سمجھ آئی کہ حالات کو دیکھ کر ہمیشہ نور فراست سے کام لے کر ہر عمل کرنا چاہئے۔

ایک جگہ پر عوام نے کہا کہ مولوی صاحب جب تک لوگ وضو نہیں کر لیتے، کچھ بیان کر دیں، مولوی صاحب نے کہا کہ کس بات کا عوام کو علم نہیں تاکہ وہ بیان کروں، دوسرا اگر میت عبرت کا سامان پیدا نہیں کر رہی تو اس سے زیادہ بیان کیا کرنا۔

ایک مولوی صاحب نے بڑے افسوس سے کہا کہ میں نے بہت سے جنازے اپنے محلے کے پڑھائے ہیں مگر کسی کو جنازے کے بعد مسجد آتے نہیں دیکھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مرنا سب نے ہے مگر مرنے سے پہلے بدلنے کی سوچ پیدا نہیں ہوتی جس سے ہمیشہ غفلت میں رہتے ہوئے مر جاتے ہیں۔

ایک جگہ پر مولوی صاحب نے بیان کیا کہ اگر نماز جنازہ کا طریقہ اور دعائیں کسی کو نہیں آتیں تو اب یاد کروائی بھی نہیں جا سکتیں جیسے اس وقت اس میت کو کلمہ پڑھایا نہیں جا سکتا۔

ایک مولوی صاحب نے کہا کہ تعلق نباہنے کے لئے جنازہ پڑھا توکیا پڑھا کیونکہ میت کی بخشش کروانے کی نیت کسی کی نہیں تھی۔ اگر اب بھی تم لوگوں کو کلمے کے مطابق زندگی گذارنے کی سوچ نہیں آئی تو کل تمہارے جنازے پر بھی وہی لوگ ہوں گے جن کو نماز جنازہ نہیں آتا ہو گا لیکن تعلق نباہنے کے لئے آئیں گے۔

ایک جگہ مولوی صاحب نہ کہا کہ کسی کو جنازے میں کچھ پڑھنا نہیں آتا تو کوئی بات نہیں، نماز جنازہ چار تکبیروں کے ساتھ ہے یعنی اگر امام نے اللہ اکبر کہنا ہے تو عوام نے بھی اللہ اکبر کہنا ہے، اگر امام نے اللہ اکبر کہا اور عوام نے نہیں کہا تو نماز جنازہ عوام کا ادا نہیں ہو گا کیونکہ یہ چار تکبیریں امام اور عوام دونوں کے لئے شرط ہیں۔

ایک نیک بندے کا جنازہ تھا تو مولوی صاحب نے کہا کہ نماز جنازہ پڑھ کر اس کی بخشش نہیں کروانی بلکہ اس کا جنازہ پڑھکر اپنی بخشش کروانی ہے۔ اسلئے اسطرح کے بنو کہ تمہارا جنازہ کوئی پڑھے تو پڑھنے والا بخشا جائے۔

ایک مولوی صاحب نے کہا کہ مانتے ہیں کہ تقاریر سے کوئی بدلتا نہیں مگر پھر بھی تقاریر کرنا پڑتیں ہیں کیونکہ انبیاء کرام نے سمجھایا مگر عوام نہیں سمجھی تو تبلیغ بند نہیں کی اسلئے جب تک زندہ ہیں اچھے طریقے سے سمجھاتے رہیں گے۔

ایک مولوی صاحب نے کہا کہ قرآن و سنت کے مطابق امام شافعی، مالکی، حنبلی، حنفی کی تقلید میں حضور ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے جنازہ پڑھنا حق ہے لیکن اہلحدیث حضرات کو چاہئے کہ اپنے مجتہد کا نام بتائیں جس نے تقلید کو بدعت و شرک کہا اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کی۔

ایک مولوی صاحب نے کہا جنازے کے بعد دُعا کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ تصور یہ تھا کہ دُعا، درود، کلمہ، ذکر و اذکار کسی وقت میں بھی پڑھنا منع نہیں ہے، اسلئے جب مرضی اور جس وقت مرضی پڑھ سکتے ہیں لیکن جاہل عوام نے اس کو اپنے اپنے وقت میں فرض کر لیا ہے اور جن علماء نے اس قانون کو نہیں سمجھایا وہ سب مُجرم ہیں۔

اگر آج کے دور میں یہ اعلان کر دیا جائے کہ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، تیجہ دسواں، میلاد، عُرس وغیرہ ساری زندگی نہ کرے بلکہ اس کے علاوہ طریقہ بدل بدل کر کام کئے جائیں تو کوئی گناہ نہیں تو آدھی عوام صدمے سے ہی مر جائے کہ جس عملوں پر لڑ رہے تھے وہ مستحب تھے۔

اہلسنت: دیوبندی اور بریلوی کہلانے والی جماعتیں عثمانیہ خلافت، اجماع امت، چار مصلے والی ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا۔ سعودی وہابی علماء اور اہلحدیث ایک ہیں مگر ساتھ میں دیوبندی بھی ان کے ساتھ ملکر خلافت عثمانیہ والوں (بریلوی حضرات) کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں مگر سعودیہ کے حنبلی مصلے پر اہلحدیث غیر مقلدیت چھوڑ کر اور دیوبندی حنفیت کے ساتھ ساتھ پیری مریدی دم درود، تعویذ دھاگے (المہند کے عقائد) چھوڑ کر اکٹھے نہیں ہوتے جس سے رافضیت کی طرح وہابیت بھی اہلسنت کو تباہ کر رہی ہے۔

تجویز: دیوبندی، اہلحدیث ایک مصلہ پر اکٹھے ہو جائیں ورنہ سعودی اور ایرانی جب اکٹھے ہو گئے تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ ایجنٹ کون کون تھے اور خلافت عثمانیہ والے اہلسنت کو ختم کرنے کی کوشش کیوں کی گئی۔

اہلتشیع سے سوال: ایک ہی سوال اہلتشیع جماعت سے ہے کہ کیا حضور ﷺ کے دین (قرآن اور حضور ﷺ کے فرمان) پر صحابہ کرام اور اہلبیت نہیں تھے؟ چاروں خلفاء کرام نہیں تھے؟ قیصر و کسری کو فتح کرنے والے نہیں تھے۔ کس دور میں اہلتشیع نے اپنا دین ایجاد کیا؟

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general