حُکم الہی سے جدائی
(حضرات ابرہیم حاجرہ اسماعیل علیھم السلام)
1۔ ہر کام اللہ کریم کے حُکم سے ہوتا ہے، دن رات ہوتا ہے اور ہر وقت ہوتا ہے، اسلئے تفاسیر کہتی ہیں کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنھا نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو عرض کی کہ آپ حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا اور اُس کے دودھ پیتے بچے کو کہیں دور چھوڑ آئیں، اس پر اللہ کریم کا حُکم بھی آ گیا کہ اس کی بات مان لیں تو آپ علیہ السلام نے اپنی پیاری بیوی حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا اور حضرت اسماعیل علیہ اسلام کو مکہ چھوڑ آئے۔
2۔ بخاری 3365 میں ہے کہ حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا کوجب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دودھ پیتے بچے کے ساتھ ایک بڑے درخت کے پاس چھوڑا تو حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا پیچھے آئیں اور مقام کدا پر آواز دے کر پوچھا کہ آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جار ہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اللہ! حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا نے خوش ہو کر کہا کہ پھر میں راضی ہوں۔ آپ پیچھے مُڑے بغیر اپنی فیملی کے لئے دُعا کر کے واپس فلسطین آگئے۔
حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا بچے کو دودھ پلاتی رہیں اور مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور پھر پانی ختم ہوا تو صفا پر چڑھ کر دیکھا شاید کوئی نظر آ جائے مگر نظر لوٹ آئی لیکن کوئی نظر میں نہ آیا، پھر بچے کے پاس آئیں جو تڑپ رہا تھا، ایڑیاں رگڑ رہا تھا، پھر مروہ پہاڑ پر گئیں اور یہ سب کو معلوم ہے کہ صفا مروہ کے ساتھ پھیرے عُمرہ اور حج کے دوران لازم کیوں ہیں۔ یہ اسی ہماری ماں کی تڑپ پر تڑپنے کا حُکم ہوا کہ اسطرح عُمرے میں پھیرے لگاؤ ورنہ عُمرہ نہیں ہو گا۔
حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا جب واپس آئیں تو دیکھا کہ بچے کی ایڑیوں کے پاس پانی بہہ رہا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ یہ ایڑی کے ساتھ ایڑی حضرت جبرائیل علیہ اسلام کی لگی تھی اور میٹھا پانی نکل آیا جو اللہ کریم کی قدرت کا شاہکار ہے۔اس پانی کو آج تک حاجی و زائرین پی رہے ہیں اور اس جیسا صاف شفاف بھوک و پیاس مٹانے والا پانی کہیں نہیں ملے گا۔
وہیں پر جرہم قبیلہ آ کر آباد ہوا اوراُس قبیلے کی ایک لڑکی سے حضرت اسماعیل کا نکاح ہوا، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ رضی اللہ عنھا سے پوچھ کر اپنی اولاد کو دیکھنے آئے تو حضرت اسماعیل کی بیوی سے ملاقات ہوئی اور پوچھا کہ اسماعیل کہاں ہیں تو اس عورت نے کہا کہ شکار پر گئے ہیں۔ اُس عورت نے نہ کھانا پوچھا اور نہ پانی توآپ علیہ اسلام نے کہا اسماعیل آئے تو اُس سے کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل لے۔ اُس عورت نے جب خُلیہ بتایا اور بات بتائی تو انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی۔
پھر دوسری دفعہ آئے توحضرت اسماعیل علیہ اسلام پھر شکار پر گئے ہوئے تھے مگر ان کی دوسری بیوی نے کھانا وغیرہ کھلایا اور آپ نے اس عورت کو دعائیں دیں۔ تیسری بار جب آپ علیہ اسلام تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام آب زمزم کے پیچھے تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ کیا عالم ملاقات کا ہو گا اور کیا جذبہ اور پیار ہو گا، یہ وہی سمجھ سکتا ہے جس کا کوئی بچھڑا ملا ہوتا ہے۔
تحقیق: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان نہیں۔ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اسی سنت کو ادا کرتے ہوئے اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور لیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
ہر مسلمان قرآن و سنت پر ایک ہے البتہ اہلتشیع کا دین اسلام نہیں ہے کیونکہ وہ اہلبیت اور صحابہ کرام کے دین کو الگ الگ مانتے ہیں لیکن مولا علی نے کیا صرف ایک کو علم دیا باقی جتنے صحابہ تھے کیا وہ جاہل تھے حالانکہ اہلتشیع خود مسلمان ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ خود نہیں بتاتے کہ ان کی احادیث حضور ﷺ کی ہیں یا کسی اور نے گھڑی ہیں۔ منگھڑت دین ہے اہلتشیع۔
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔