حضور ﷺ کی نماز (دوسری قسط)
حضرت نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ) رضی اللہ عنہ 80ھ کوفہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت نعمان کا علمی سلسلہ حضرات حماد، علقمہ، فقہی صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہوا حضورﷺ سے ملتا ہے۔ اسلئے حضرت نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی فقہ پر عمل کرتے ہیں۔ حضرت نعمان بن ثابت احادیث کی کتب صحاح ستہ (بخاری مسلم ترمذی ابن ماجہ ابوداود وغیرہ) کے دور سے پہلے کے ہیں۔ پاکستان میں اہلسنت اپنے”فقہی امام“ کی قرآن و احادیث کے مطابق تقلید کے ذریعے اتباع رسول کرتے ہیں۔اصول: حضرت نعمان بن ثابت سب سے پہلے قرآن، پھر احادیث و سنت، اُس کے بعد ضعیف احادیث کو بھی اپنے قول سے زیادہ اہمیت دیتے، اب اس نماز میں ان کا اپنا قول ہے تو بتا دیں، اگر ضعیف احادیث ہیں تو وہ اپنے قول سے زیادہ اہمیت ضعیف احادیث کو دیتے ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق حضورﷺ نے اسطرح نماز ادا کی ہے:
آہستہ آمین کیوں: اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد ہے:اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ترجمہ:تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو،یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(الأعراف:55)
مذکورہ آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آہستہ دُعاء کرنے کا حکم دیا ہے اور آمین کہنا بھی ایک دُعاء ہے،چنانچہ:
1۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں: آمین کہنا دُعاء ہے۔ (بخاری:1/156)
2۔ حضرت ہارون علیہ السلام نےحضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعاء پر جو آمین کہا تھا اُس کو بھی قرآن کریم میں ”دُعاء“ قرار دیا گیاہے۔(یونس:89)(تفسیر بغوی)
3۔ آمین دُعاء ہے جس کے معنی”اِسْمَعْ وَاسْتَجِبْ“ ترجمہ: اے اللہ سن لیجئے اور قبول فرما لیجئے۔
4۔ لفظِ آمین اللہ کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے جیسے :”آمِينَ:اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ“یعنی آمین اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:7971)
5۔ علّامہ فخر الدّین رازی جوکہ شافعی المسلک ہیں، اُنہوں نے آمین کے بارے میں فرمایا:آمین کے بارے میں دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ یہ دُعاء ہے اور دوسرا یہ کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے،پس اگر یہ دُعاء ہے تو اس کو ہلکی آواز میں پڑھنا واجب ہےاِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: ”تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو“اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہےتب بھی اس کو ہلکی آواز میں پڑھنا واجب ہے، اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”اوراپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی کرتا ہوا اور ڈرتاہوا یاد کرتا رہ“۔ پس اگر (آمین کو آہستہ کہنے کا) وجوب ثابت نہ بھی ہو تب بھی یہ مستحب ہونے سے کم تو نہیں ہوگا، اور ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ (تفسیر کبیر للرازی:14/282)
6۔ حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺنے ہمیں نماز پڑھائی اور جب سورہ فاتحہ ختم کی تو آہستہ آواز میں آمین کہی۔(مسند احمد:18854)
7۔ حضرت عمر اور علی تسمیہ، تعوذ اور آمین بلند آواز میں نہیں کہا کرتے تھے۔ (شرح معانی الآثار:1208)
8۔ مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں :پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہیں گے: ثناء، تعوذ، تسمیہ، آمین اور تحمید۔ (مصنف عبد الرزاق:2597)
9۔ حضرت شُعبہ سے مَروی ہے کہ سلمہ بن کُہیل فرماتے ہیں کہ میں نے حُجر ابو العنبَس سے سنا ہے وہ فرمارہے تھے کہ میں نے علقمہ بن وائل سے سنا ،وہ(اپنے والد) حضرت وائل بن حُجر سے نقل کرتے ہیں جبکہ(حضرت حُجر ابو العنبَس کے قول کے مطابق) میں نے خود بھی حضرت وائل بن حُجر سے سنا ہے کہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکے ساتھ نماز پڑھی،جب آپﷺنے(سورۃا لفاتحہ کے اختتام پر) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھاتوآہستہ آواز میں آمین کہا۔ (مسند ابوداؤد الطیالسی:1117)
سفیان ثوری اورشُعبہ کی روایت کا تعارض (ٹکراؤ) کا حل :
حضرت وائل بن حُجرکی مذکورہ بالا روایت حدیث کی کئی معتبرکتابوں میں موجود ہے، اِس کو حضرت سُفیان ثوری اوراِمام شُعبہ دونوں ہی نے نقل کیا ہے، حضرت شُعبہ کی روایت میں آمین آہستہ کہنے کا تذکرہ ہے جبکہ حضرت سُفیان ثوری زور سے آمین کہنا نقل کرتے ہیں، اور دونوں ہی کی روایت کردہ حدیث صحیح ہے، اس میں صحت و ضعف کا کوئی فرق نہیں، لہٰذاروایات کے اِ تعارض کو دور کرنے کیلئے ترجیح کے طریقے پر عمل کیا گیا ہے، آمین بالجہر کے قائلین نے حضرت سفیان ثوری کی روایت کو ترجیح دی ہے جبکہ آمین بالسّر کے مسلَک کو اختیار کرنے والے اِمام شُعبہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔
آہستہ آمین کہنے کے وزن دار دلائل
1۔ آمین کے آہستہ کہنے کی روایت اَوفَق بالقرآن یعنی قرآن کریم کے زیادہ مطابق ہے، اِس لئے کہ ”آمین“بالاتفاق ایک دُعائیہ کلمہ ہے اور دُعاء کے بارے میں قرآن کریم کا حکم یہ ہے کہ اُسے آہستہ مانگنا چاہیئے، پس اِسی لئے آمین کا کلمہ بھی آہستہ ہی کہنا چاہیئے۔
2۔ آمین کےآہستہ کہنے پربہت سے صحابہ کرام حتی کہ خلفاء راشدین اورحضرت عبد اللہ بن مسعود اور تابعین کا بھی عمل ہے جو خود ایک بہت بڑی وجہ ترجیح ہے جس سے حضرت شُعبہ کی آمین بالسّر کی روایت کا راجح ہونا معلوم ہوتا ہے۔
3۔ نبی کریمﷺکازورسے آمین کہنا تعلیم و تلقین کیلئے یعنی سکھانے کیلئے تھا ،مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی چنانچہ خود صحابی رسول حضرت ابووائل بن حجر نےاس کی صراحت کی ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:”فَقَالَ:«آمِينَ»يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ مَا أَرَاهُ إِلَّا يُعَلِّمُنَا“یعنی آپ ﷺنے(سورۃ الفاتحہ کے بعد)بلند آواز سے آمین کہا، جس کے بارے میں میرا خیال یہی ہے کہ آپ ﷺنےہمیں سکھانے کیلئے زور سے آمین کہا تھا۔ ( الکنیٰ و الاسماء للدولابی:1090)
اِسی طرح حضرت وائل بن حُجرہی کی ایک روایت میں ہے: فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ: «آمِينَ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ“ یعنی جب آپ ﷺسورۃا لفاتحہ سے فارغ ہوئےتو تین مرتبہ آمین کہا۔ (طبرانی کبیر:22/22)
وضاحت: مذکورہ روایت کا اِس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں کہ یہ تین مرتبہ آمین کہنالوگوں کو تعلیم دینے اوراُنہیں سکھانے کیلئے تھا، پس جس طرح آپﷺکاخلافِ معمول ایک سے زائد مرتبہ آمین کہنا لوگوں کو سکھانے کیلئے تھا اِسی طرح خلافِ معمول آواز سے آمین کہنا بھی تعلیم و تلقین کیلئے تھا، کوئی مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی، ورنہ ان روایاتِ جہریہ کے ہوتے ہوئے حضرت عُمر ،حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعودجیسے جلیل القدر صحابہ کرام کے سراً آمین کہنے کا کیا مطلب ہوگا۔
4۔ آمین کے زور سے کہنے کا مطلب بہت زیادہ اونچی آواز کے ساتھ آمین کہنا نہیں بلکہ اس سے”جہرِ خفیف“یعنی ہلکی آواز سے آمین کہنا مراد ہےجو سراً آمین کہنے کے خلاف نہیں اور اس کی تائید کئی روایات سے ہوتی ہے، چنانچہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت ہےجس میں نبی کریمﷺکے آمین کہنے کی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے: ”حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ“یعنی آپﷺنے سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر اتنی آواز سے آمین کہا یہاں تک کہ آپ ﷺسے متصل پہلی صف کے کچھ لوگوں نے سنا۔(ابوداؤد: 934)
روایتِ مذکورہ میں”مِنْ“ تبعیضیہ یعنی بعضیت کو بیان کرنے کیلئے ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ”پہلی صف کےکچھ لوگوں نے سنا“پوری صف کے لوگوں کا سننا مراد نہیں، کیونکہ اگر یہ تبعیض کیلئے نہ ہو اور مطلب یہ لیا جائے کہ پہلی صف کے تمام لوگوں نے سن لیا تو یہ درست نہ ہوگا کیونکہ یہ کیسے مُمکن ہوسکتا ہے کہ پہلی صف میں دور تک دائیں بائیں جانب کےتمام لوگوں نے تو سن لیا ہو لیکن اِمام کے بالکل پیچھے قریب کے دوسری صف میں کھڑے ہوئےلوگوں تک بھی آواز نہ پہنچی ہو۔ اِسی طرح ایک روایت میں ہے:”حَتَّى يُسْمِعَ مَنْ يَلِيهِ“یعنی آپﷺاِتنی آواز سے آمین کہتے کہ اپنے سے متصل لوگوں کوسنادیا کرتے تھے۔(مصنّف عبد الرزاق:2632)
پس اِن روایات کی روشنی میں روایاتِ جہریہ کا مطلب بھی ”جہرِ خفیف“ہی لیا جائے گا اوریہ نبی کریمﷺکایہ عمل بھی لوگوں کو تعلیم دینے اور سکھانے کیلئےتھا ۔پس اِس طرح روایات کا باہمی تضاد بھی باقی نہ رہے گا ،حضرات صحابہ کرام کے عمل کی اتباع بھی ہوجائے گی اور دُعاء کا جو اصل ادب ہے اُس کی رعایت بھی ہوسکے گی۔
دلائل: یہ دلائل اہلسنت کو سکھانے کے لئے ہیں جن کو اہلحدیث جماعت گمراہ کرتی ہے ورنہ تین ائمہ کرام کی نماز کے طریقے کے خلاف یہ دلائل ہر گز نہیں ہیں۔
سورت ملانا: حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں :نبی کریمﷺ پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھتے تھے اور آخری دو رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ: 3741)
رکوع کرنا :وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ۔ ترجمہ: اور رُکوع کرنے والوں کے ساتھ رُکوع کرو۔(البقرۃ:43)ایک معروف حدیث جو ”حدیثِ اعرابی“ کے نام سے مشہور ہے اُس میں مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺنے اُس اَعرابی کو جس نے جلدی جلدی نماز پڑھی تھی ،آپﷺنے اُسےنماز سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:”ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا “یعنی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد پھر تم اِطمینان کے ساتھ رکوع کرو۔
رکوع میں کمر سیدھی ہونی چاہیئے: حضرت ابوحمیدساعدی نےنبی کریمﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے رکوع کا طریقہ یہ اِرشاد فرمایا: پس جب آپﷺ نے رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو پکڑا پھر اپنی کمر کو ہموار اور برابر رکھا۔ (صحیح ابن خزیمہ:643)
رکوع میں سر کو کمر کے برابر سیدھا رکھنا چاہیئے:جب آپ ﷺرکوع کرتے تو نہ اپنے سر کو اونچا رکھتے تھے اور نہ نیچا ،بلکہ دونوں کے درمیان (یعنی برابر) رکھتے تھے۔(مسلم:498)
رکوع میں ہاتھوں کو پہلو سے الگ اور اُنگلیاں کشادہ رکھنی چاہیئے: نبی کریم ﷺنے حضرت انس بن مالک سے ارشاد فرمایا : اے میرے بیٹے ! جب تم رکوع کرو تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھو اور اپنی انگلیوں کو کشادہ رکھو اور اپنے ہاتھوں کو پہلووں سے الگ رکھو۔ (طبرانی اوسط: 5991)
رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں پر جماکر رکھنا چاہیئے: حضرت ابوحمید ساعدی نےنبی کریمﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے رکوع کا طریقہ یہ اِرشاد فرمایا: پس جب آپ ﷺ نے رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو پکڑا۔ (صحیح ابن خزیمہ:643) ایک اور روایت میں ہے: پھر آپ ﷺنےرکوع کیا اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر اس طرح رکھا گویا آپ انہیں پکڑے ہوئے ہوں۔ (ابوداؤد:734)
رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں پر سیدھا رکھنا چاہیئے: حضرت ابو حمید الساعدی فرماتے ہیں: پھر آپ نے رکوع کیا اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر اس طرح رکھا گویا آپ انہیں پکڑے ہوئے ہوں اور اپنے ہاتھوں کو سیدھا رکھا اور انہیں پہلوؤں سے الگ رکھا۔ (ابوداؤد:734)
رکوع کی تسبیحات اورتعداد: حضرت عبد اللہ بن مسعود نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:جب تم میں سے کوئی رکوع کرے اور اپنے رکوع میں تین مرتبہ یہ کہے”سُبْحَانَ رَبِّيَ العَظِيمِ “ تو اُس نے اپنا رکوع مکمل کرلیا ، اور یہ کم سے کم مقدار ہے۔ (ترمذی:261)
قومہ میں اطمینان کے ساتھ کھڑے ہونا: حضرت ابو حمیدساعدی فرماتے ہیں : نبی کریمﷺنے رکوع سے سر اٹھایا اور سیدھے کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ جسم کاہرجوڑ اپنی جگہ لوٹ آیا۔ (بخاری تعلیقاً :1/159) حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: آپﷺ رکوع سے اٹھ کر جب تک سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے سجدہ نہیں کرتے تھے اور سجدہ سے اُٹھ کر جب تک سیدھے بیٹھ نہ جاتے دوسرے سجدہ میں نہیں جاتے تھے۔ (مسلم:498)
رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے سمع اللہ اور قومہ میں تحمید کہنا: نبی کریمﷺجب جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے پھر(قیام و قراءت سے فارغ ہوکر)جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے پھ رکوع سے اپنی کمر مبارک اٹھاتے تو ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“کہتے پھر کھڑے ہو کر ”رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ “کہتے۔ (بخاری:789)
منفرد صرف تحمید پر اکتفا کرے گا: جب امام ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“کہے تو تم ”رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ کہو۔ (دارمی:1349)
مکمل نماز: تمام اقساط کو ایک کر کے یہ نماز 75000 عوام نے پڑھی اور 7591 نے اس کو پھیلایا۔
سوال: نماز پر کمنٹ کرنے سے بہتر ہے کہ اہلحدیث حضرات ایک سوال کا جواب دیں کیا حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی ہونا بدعت و شرک و لعنت ہے تو تقلید کو بدعت و شرک ان کے کس نبی نے قرآن و سنت سے ثابت کیا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں کیا۔ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ کس نے اہلحدیث جماعت کو اصول سکھایا کہ میری تقلید اتباع رسول ہے اس کا نام بتا دیں؟؟
تحقیق: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان نہیں۔ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
اہلتشیع کا دین اسلام نہیں ہے کیونکہ وہ اہلبیت اور صحابہ کرام کے دین کو الگ الگ مانتے ہیں لیکن مولا علی نے کیا صرف ایک کو علم دیا باقی جتنے صحابہ تھے کیا وہ جاہل تھے حالانکہ اہلتشیع خود مسلمان ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ خود نہیں بتاتے کہ ان کی احادیث حضور ﷺ کی ہیں یا کسی اور نے گھڑی ہیں۔ منگھڑت دین ہے اہلتشیع۔
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔