مرد و عورت کی نماز کا فرق (پانچویں قسط)
1۔ صحابیِ رسول حضرت ابوسعید خدریسے مَروی ہے کہ آپﷺنے اِرشاد فرمایا: مردوں کی سب سے بہترین صف پہلی اور عورتوں کی سب سے بہترین آخری ہے، آپﷺمردوں کوکھل کر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور عورتوں کواس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں، اور آپﷺمردوں کو اِس بات کا حکم دیاکرتے تھےکہ وہ تشہد کی حالت میں اپنے بائیں پاؤں کو بچھاکر دایاں پاؤں کھڑا کریں، اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر(یعنی تورّک کےساتھ زمین پر سرین رکھ کر)بیٹھیں، اور فرماتے : اے عورتو! تم لوگ نماز اپنی آنکھوں کو اٹھایا مت کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نگاہ مردوں کے ستر پر پڑجائے۔(سنن کبریٰ بیہقی:3198)
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے ایک مرتبہ عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ نے ارشاد فرمایا : ” تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ “ خوب اچھی طرح اکٹھے ہوکر اور سمٹ کر نما زپڑھے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2778)
3۔ حضرت ابن جریج حضرت عطاءسے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا: عورت رکوع کرتے ہوئے سمٹ کر رکوع کرے گی چنانچہ اپنے ہاتھوں کواُٹھاکر اپنے پیٹ کے ساتھ ملالے گی، جتنا ہوسکے سمٹ کررکوع کرے گی، پھر جب سجدہ کرے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے (جسم کے) ساتھ ملالے گی، اور اپنے پیٹ اور سینہ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملالے گی اور اور جتنا ہوسکے سمٹ کر سجدہ کرے گی۔(عبد الرزاق:5069)
فائدہ :اِس حدیث سے عورت کی نماز کا اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی پوری نماز میں شروع شروع سے آخر تک اِس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ وہ نماز میں زیادہ سے زیادہ سمٹ کر ارکان کی ادائیگی کرے، چنانچہ حدیثِ مذکور میں بار بار ” وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ “ کے الفاظ اِسی ضابطہ کو بیان کررہے ہیں۔
4۔ حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نےمجھ سے ارشاد فرمایا:اے وائل ! جب تم نماز پڑھنے لگو تو دونوں ہاتھ کانوں کے برابر اٹھاؤ،اورعورتیں اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتیوں تک اٹھائیں۔(طبرانی کبیر:22/19)
5۔ حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ کیا عورت تکبیر کہتے وقت اپنے ہاتھوں کو مردوں کی طرح اٹھائے گی؟ تو حضرت عطاءنے فرمایا: نہیں، عورت اپنے ہاتھوں کو مردوں کی طرح نہیں اٹھائے گی۔ اس کے بعد انہوں نے(سکھلانے کے لئے )بہت پست انداز میں اپنے ہاتھوں سے(تکبیر کا) اشارہ کیا اور ہاتھوں کو اپنی طرف سمیٹ کررکھا، اور فرمایا : عورت کی حالت(نماز کے بہت سے افعال میں ) مرد کی طرح نہیں ہے۔(مصنّف عبد الرزاق:5066)
6۔ حضرت امِّ درداءکے بارے میں آتا ہے کہ وہ نماز کو شروع کرتے ہوئے (یعنی تکبیر تحریمہ کہتے وقت)اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اُٹھایا کرتی تھیں۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2470)
7۔ حضرت عطاءسے عورت کے بارے میں دریافت کیاگیا کہ وہ نماز میں کہاں تک اپنے ہاتھ اُٹھائے گی؟ آپ نے اِرشاد فرمایا:اپنی چھاتیوں تک۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ:2471)
8۔ اِمام اوزاعی حضرت ابن شہاب زھری کا بھی یہی قول نقل فرماتے ہیں: عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اُٹھائے گی۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2471) حضرت حمّادبھی یہی فرماتے ہیں کہ عورت نماز کو شروع کرتے ہوئےاپنے ہاتھ اپنی چھاتی تک اُٹھائے گی۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2473)
9۔ حضرت عاصم احول فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حفصہ بنتِ سیرینکو دیکھا کہ اُنہوں نماز کی تکبیر کہتے ہوئے اپنے ہاتھ چھاتی تک اُٹھائے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2475)
10۔ حضرت ابن جریج حضرت عطاء کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ عورت بحالت قیام اپنے ہاتھوں کو جتنا سمیٹ سکتی ہے سمیٹے گی۔ (مصنّف عبد الرزاق:5067)
11۔ حضرت ابن جریج حضرت عطاءسے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا: عورت رکوع کرتے ہوئے سمٹ کر رکوع کرے گی چنانچہ اپنے ہاتھوں کواُٹھاکر اپنے پیٹ کے ساتھ ملالے گی، اور جتنا ہوسکے سمٹ کررکوع کرے گی۔(مصنّف عبد الرزاق:5069)
12۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی (دائیں) ران کو دوسری (بائیں) ران پر رکھے یعنی سمٹ جائے اور سجدہ میں جائے تواپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے اس طرح ملائے کہ پردہ کالحاظزیادہ سے زیادہ ہوسکے۔اللہ تعالی اس عورت کی طرف دیکھتے ہیں اور فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ : اے فرشتو!تم گواہ بن جاؤ ، میں نے اس عورت کی مغفرت کردی۔ (سنن کبریٰ بیہقی:3199)
13۔ حضرت یزید بن حبیب سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، آپ ﷺ نے ان کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو جسم کے بعض حصوں کو زمین سے چمٹادو، اس لئے کہ اس (سجدہ کرنے )میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے۔ (سنن کبریٰ بیہقی:3201)
14۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں: نبی کریمﷺ مردوں کوکھل کر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور عورتوں کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں۔(سنن کبریٰ بیہقی:3198)
15۔ حضرت علی سے موقوفاً مروی ہے کہ عورت جب سجدہ کرے تو اسے چاہیے کہ سمٹ کر کرے اور اپنی رانوں کو پیٹ کے ساتھ ملاکر کر سجدہ کرے۔ (مصنّف عبد الرزاق:5072)
16۔ حضرت حسن فرماتے ہیں: عورت سجدے میں اپنے آپ کو سمیٹے گی ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2781)
17۔ حضرت معمر سےحضرت حسن اورحضرت قتادہ کا یہ قول منقول ہے کہ : جب عورت سجدہ کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے آپ کو سمیٹے ، اور اپنے پیٹ کو رانوں سے جدا نہ کرے،کہیں اس کی سرین نہ اٹھ جائیں۔ (مصنّف عبد الرزاق:5068)
18۔ حضرت علی سے مروی ہے: جب عورت سجدہ کرے توسرین کے بل بیٹھے اور اپنی دونوں رانوں کو ملاکر رکھے۔ ( ابن ابی شیبہ:2777)
19۔ حضرت مُجاہدسے مَروی ہے کہ وہ اِس بات کو ناپسند کیا کرتے تھے کہ کوئی مرد سجدہ کرتے ہوئے عورت کی طرح اپنے پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ:2780)
20۔ حضرت ابراہیم نخعی سے مروی ہے : جب عورت سجدہ کرے تو اُسے چاہیئے کہ وہ اپنی رانوں کو ملالے اور اپنے پیٹ کو اُن دونوں رانوں پر رکھ دے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2779)
21۔ حضرت ابراہیم نخعی سے مروی ہے، فرماتے ہیں: جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ چپکا دے، اور اپنی سرین کو اُٹھاکر نہ رکھےاور مَردوں کی طرح کھل کر سجدہ نہ کرے(یعنی اپنے جسم کو الگ الگ کرکے نہ رکھے)۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ:2782)
22۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: عورت کو حکم دیاجاتا تھا کہ وہ سجدہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں اور پیٹ کو اپنی ران پر رکھے اور مَردوں کی طرح کھل کر (الگ الگ ہوکر) سجدہ نہ کرے تاکہ اُس کی سُرین (مردوں کی طرح)نہ اُٹھ جائے۔ (مصنّف عبد الرزاق:5071)
23۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں : عورت نماز میں(جلسہاور قعدہ میں) ایک جانب ہوکر(یعنی بائیں سرین پر تورّک کے ساتھ)بیٹھے۔(ابن ابی شیبہ:2792)
24۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت صفیّہ بنت ابی عُبید جب نماز میں پہلے یا دوسرے قعدہ میں بیٹھتیں تو سمٹ کر (تورّک کے ساتھ)بیٹھا کرتی تھیں۔ (مصنّف عبد الرزاق:5074)
25۔ حضرت ابن جریج حضرت عطاءسے نقل فرماتے ہیں کہ عورت کا دونوں سجدوں کے درمیان(جلسہ میں) بیٹھنا اُسی طرح ہوگا جیسے وہ قعدہ میں بیٹھتی ہے۔ (مصنّف عبد الرزاق:5076)
26۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں : عورت کو حکم دیا جائے گا کہ وہ نماز میں دو کعت پر(یعنی قعدہ میں) اِس طرح بیٹھے کہ وہ اپنی رانوں کو ایک جانب ملالے(یعنی تورّک کے ساتھ بیٹھے)۔ (مصنّف عبد الرزاق:5077)
27۔ حضرت ابن جریج حضرت عطاء کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: عورت قعدہ میں جس طرح چاہے بیٹھے بشرطیکہ وہ سمٹ کر بیٹھے۔ (مصنّف عبد الرزاق:5078)
سوال: نمازکی احادیث پر کمنٹ کرنے سے بہتر ہے کہ اہلحدیث حضرات ایک سوال کا جواب دیں کیا حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی ہونا بدعت و شرک و لعنت ہے تو تقلید کو بدعت و شرک ان کے کس نبی نے قرآن و سنت سے ثابت کیا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں کیا۔ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ کس نے اہلحدیث جماعت کو اصول سکھایا کہ میری تقلید اتباع رسول ہے اس کا نام بتا دیں؟؟
تحقیق: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان نہیں۔ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
ہمیں اسلام ، اہلبیت اور مولا علی کے دشمن اہلتشیع لگتے ہیں کیونکہ ایک سوال کا جواب نہیں دیتے۔ کیا صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین علیحدہ علیحدہ تھا؟ قیصر و کسری تک جو دین پہنچا وہ حضور کا دین نہیں تھا؟ اہلتشیع کا دین کونسا ہے اور کس وقت کن کتابوں سے وجود میں آیا۔
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔