چند قیمتی باتیں
1۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ 73 فرقے ہوں گے جن میں سے 72 جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا لیکن سوچنے والی بات ہے کہ وہ 72فرقے کسی نہ کسی لحاظ سے مذہب میں غلطی کر کے جہنم میں جائیں گے مگر وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم کسی فرقے سے نہیں اور مذہب پر چلنا بھی گناہ سمجھتے ہیں وہ کس فرقے سے ہوں گے؟
2۔ دیندار کبھی خود کشی نہیں کرتا کیونکہ دین اس کا مددگار ہوتا ہے اسلئے کچھ ملے نہ ملے، مرضی کی شادی ہو نہ ہو، معیار کی نوکری ملے نہ ملے، کاروبار میں اضافہ ہو نہ ہو، کوئی پیار کرے نہ کرے، وہ ناول، فلم، ڈرامہ کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ اپنے اللہ کریم و نبی رحیم ﷺکی باتوں کو اپنی زندگی میں اہمیت دے کر مشکلات میں ”جینا“اپنے اوپر”فرض“ کر لیتا ہے۔
3۔ انسان کو اپنی حیثیت، مقام،مرتبے کا بُت اپنے اندر نہیں پالنا چاہئے اورنہ ہی لوگوں سے اپنے لئے تعریف کی بھیک مانگنی چاہئے کہ اسے انجنینئر، پروفیسر، صوفی، ولی، قطب کہیں بلکہ مقام، مرتبہ، حیثیت مرنے کے بعد اللہ کریم نے دینا ہے جس میں دنیا سے لیا گیا یا سُنا گیا لفظ رکاوٹ بن سکتا ہے اور یہ کہا جائے گا کہ کام تو تُو نے اس لئے کیا تھا کہ تجھے مجاہد، عالم یا سخی کہا جائے۔
4۔100 دوستوں کے ساتھ چلتے چلتے اگر دو (2) دوست خلوص والے مل جائیں تو دنیا میں تجھے”خزانہ“ ملنے کی مبارک ہو اور باقی 98 کا گلہ نہیں کرنا کیونکہ خزانے کی تلاش میں ”خاک“ بھی چھاننا پڑتی ہے۔
5۔ ہر وہ خیال جو دل میں آئے اور ہماری خواہش بن جائے مگر بندے کی بساط سے باہر ہو اس کو پانے کی”لگن“ اگر حرام ذریعے سے ہو تو نا جائز اور حلال سے ہو تو جائز ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ خواہشات کو چھوڑ کر انسان اپنی ضرورتوں کو بھی محدود کرتا جائے اس کو”صبر“ کہتے ہیں۔
6۔باکمال وہ ہوتا ہے جس کو کبھی”زوال“ نہ آئے اور جس کو”زوال“ آ جائے وہ کبھی بھی”با کمال“ نہیں ہو سکتا اس لئے ”دعوٰی کمال“ کرنا جائز نہیں۔
7۔ دنیا کے مزے ایک حد تک اچھے لگتے ہیں اور جب یہ مزے دوسروں کو تنگ کرنے لگیں تو بعض اوقات گناہ بھی بن جاتے ہیں۔ اس لئے شرارت، مذاق اور دل آزاری منع ہے۔
8۔ دنیا میں کسی سے مقابلہ بند کر دیا جائے تو سادگی خود بخود آ جائے گی اور جب مقابلہ کیا جائے تو دکھاوا جیسی زخمت سے نواز دیا جائے گا۔
9۔ مجاہدہ دراصل ”سنت“ پر چلتے ہوئے دنیا کی باتیں ”برداشت“ کرنے کا نام ہے اور اکثر دوست”قوتِ برداشت“ کے اس امتحان میں جلد اداس، مایوس اور پریشان ہو جاتے ہیں۔
10۔ جہاں کوئی برائی ہو رہی ہو یا ظلم کیا جارہا ہو یا کسی کی عزت اچھالی جا رہی ہو، اگر وہاں کچھ نہیں کر سکتے یعنی ظلم روک نہیں سکتے تو وہاں سے نکل جانے میں ہی”عافیت“ ہے تاکہ ظلم کرنے والوں کے ساتھ کہیں ہمارا ”حشر“نہ ہواور اس کو”ہجرت“ کرنا بھی کہتے ہیں۔
11۔ پہلے زمانے میں تبلیغ کرنے، دین پھیلانے اور حق بات کرنے پر نبیوں، ولیوں، اماموں کی”جان“ لے لی جاتی تھی مگر اس زمانے میں تبلیغ یا دین پھیلانے سے کھا کھا کر ”جان“ اور سنبھال سنبھال کر”جائیداد“ بنائی جاتی ہے لیکن یہ کونسی تبلیغ ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔
12۔ طبعیتوں کے”تضاد“ سے انسانوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ قوتِ برداشت کا امتحان بھی ہو تا رہتا ہے۔ اس لئے اپنے مزاج اور طبعیت کے لوگوں کا مل جانا”شُکر“ اور طبیعت کا ایک دوسرے سے نہ ملنا”صبر“ بن جاتا ہے۔
13۔ اپنی خامی و غلطی کو”چُھپانے“ کے لئے لفظوں کا سہارا دے کر دوسروں کو ”دھوکا“ دے سکتے ہیں مگر”جان“ بہتر بننے سے ہی چُھوٹے گی۔
14۔جنت کے دروازے”نیک اعمال“ کرنے سے کُھلتے ہیں اور”بد عمل“ کرنے سے بند بھی ہو جاتے ہیں۔
15۔بیماری اور روگ سے جان صرف اللہ کریم کی”خاص عنایت“ سے چھوٹتی ہے ورنہ ”جان“ لے لیتے ہیں لیکن دُعا کرو کہ ایسا کوئی”روگ“ نہ لگے جو جہنم میں لے جائے۔
تحقیق: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان نہیں۔ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
ہمیں اسلام ، اہلبیت اور مولا علی کے دشمن اہلتشیع لگتے ہیں کیونکہ ایک سوال کا جواب نہیں دیتے۔ کیا صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین علیحدہ علیحدہ تھا؟ قیصر و کسری تک جو دین پہنچا وہ حضور کا دین نہیں تھا؟ اہلتشیع کا دین کونسا ہے اور کس وقت کن کتابوں سے وجود میں آیا؟
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔