چو ر کی سزا
1۔ سورہ مائدہ آیت نمبر 38میں اللہ کریم فرماتا ہے ”جو مرد یا عورت چو ر ہو تو اللہ کی طرف سے سز ا کے طور پر ان کی چو ری کی وجہ سے ان کے ہا تھ کا ٹ دو اور اللہ کریم غالب حکمت والا ہے“۔سنن نسائی 4874: کوئی شخص ایمان رکھتے ہوئے ز نا نہیں کرتا، کوئی شخص ایمان رکھتے ہوئے چو ری نہیں کرتا، کوئی شخص ایمان رکھتے ہوئے شر اب نہیں پیتا۔۔۔
2۔ نسائی 4876 ”جب وہ یہ کام کرتا ہے تو وہ اپنے گلے سے اسلام کا (قلا وہ) پٹہ اتار دیتا ہے یعنی بے ایمان ہو جاتا ہے (اُس وقت وہ بے ایمان ہوتا ہے) نسائی 4874 البتہ پھر بھی وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ کریم اس کی توبہ قبول کرتا ہے کیونکہ توبہ کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ (صحیح بخاری 2648 حضور ﷺ نے فتح مکہ پر ایک عورت کا ہاتھ چو ری کی وجہ سے کا ٹ دیا تھا اور اس نے توبہ کر لی اور نکاح بھی کر لیا اور جب کبھی آتی تو میں اس کی ضرورت حضور ﷺ کے سامنے پیش کر دیتی”۔ اسلئے ہر ایک گنا ہ گاری کی توبہ قبول ہونے کے بعد گواہی قبول ہے۔
3۔ سَرِ قہ یعنی چو ری کا لغوی معنی ہے خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اُٹھا لینا اور شرعی تعریف یہ ہے کہ عاقل بالغ شخص کا کسی ایسی محفوظ جگہ سے کہ جس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ہو، دس درہم (2.75تولہ چاندی کے برابر رقم تقریباً 4238روپے)کی مالیت کی چیز کسی شبہ و تاویل کے بغیر اُٹھا لینا۔ نسائی 4877 حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی کی لعنت نازل ہو چو ری کرنے والے پر، انڈا چر اتا ہے تو اس کا ہاتھ کا ٹا جاتا ہے اور رسی چر اتا ہے تو ہاتھ کا ٹا جاتا ہے۔
4۔ اگر چو ر خود اقرار کر لے کہ میں نے چو ری کی ہے تو اس کا ہاتھ کا ٹا جائے گا۔ سنن نسائی 4881: حضور ﷺ کے سامنے ایک چو ر کو لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے نہیں لگتا کہ تم نے چو ری کی ہے، اُس نے کہا کہ نہیں میں نے چو ری کی ہے تو آپ ﷺ نے اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حُکم دیا۔ اسی طرح دو مرد گواہی دیں کہ اس بندے نے چو ری کی ہے اور قاضی گواہوں سے سوال و جواب کرے گا کہ کسطرح چوری کی، کہاں کی، کتنے کی کی اور کس چیز کی کی اور پھر فیصلہ دے گا۔
5۔ حد ود کے کیس میں قاضی سفارش نہیں مان سکتا جیسے صحیح بخاری 3475 حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے ایک مخزومہ عورت (فاطمہ بنت اسود) جس نے چوری کی، اس کی سفارش کی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ تو اللہ کی حد ود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چو ری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔
سوچ: اگر آج چو ر نہیں پکڑا جاتا تو غم نہ کھا، اسلئے کہ چو ری کے مال سے مسجد بنانے والے کو ثواب نہیں ہوتا بلکہ جس کا مال لگ رہا ہوتا ہے اُس کو ثواب مل رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی کے مال سے پالنے والے کو ثواب نہیں ہے۔اسلئے عوام کا مال چر انے والا عذاب میں ہی رہے گا اور جہاں لگائے گا ثواب جس کا مال ہے اس کو ملے گا۔
فقہ: کتنا ہاتھ کاٹنا ہے اور کیسے کاٹنا ہے، باربار چو ری کرے تو پھر کیا کرنا ہے یہ سب فقہ کے مسائل ہیں جو قرآن و سنت میں ہیں، یہاں بیان یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
نتیجہ: 5000 روپیہ کہیں سے چو ری کی نیت سے اُٹھایا حد لگی یا نہ لگی لیکن سمجھ لو جو آج بگھت گیا وہ بچ گیا اور جس نے آج سزا نہ پائی کل وہ قیامت والے دن پائے گا لیکن اگر وہ توبہ کر لے جس جس کا مال چرایا ہے اُس کا واپس کر دے یا اُسے اللہ کی راہ پر لگا کر کہے کہ یا اللہ اس کا ثواب اُس کو جس کا ہے۔
دین کا چو ر: دین کے چو ر وہ ہیں جو دین کے نام پر لو ٹتے ہیں اور حق بیان نہیں کرتے۔ ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان کیسا؟ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
ہمیں اسلام ، اہلبیت اور مولا علی کے دشمن اہلتشیع لگتے ہیں کیونکہ ایک سوال کا جواب نہیں دیتے۔ کیا صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین علیحدہ علیحدہ تھا؟ قیصر و کسری تک جو دین پہنچا وہ حضور کا دین نہیں تھا؟ اہلتشیع کا دین کونسا ہے اور کس وقت کن کتابوں سے وجود میں آیا۔
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔