شر ا بی کی سز ا
حضور ﷺ جب مبعوث ہوئے تو بت پرستی، شر ا ب، جو ا، ز نا، سو د وغیرہ میں انسانیت غرق تھی۔ اسلئے بت پرستی کے خلاف رسول اللہ ﷺ بولتے رہے اور دیگر اعمال کا حکم رفتہ رفتہ نازل ہوتا رہا جیسے شر ا ب کے متعلق حکم تین قسطوں میں آیا:
1۔ سورہ بقرہ 219 میں یہ فرمایا گیا کہ شر ا ب (خ م ر و میسر) میں دنیاوی فائدہ ہوتا ہے مگر اس کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے۔
2۔ سورہ نساء 43 میں فرمایا: اے ایماندارو جب تم نش ے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔
3۔ سورہ مائدہ 90 میں فرمایا شر ا ب، جو ا، بت اور پانسے یہ سب ناپاک شیطانی اعمال ہیں۔ کیا تم ان سب بُرے اعمال سے بعض رُکو گے؟
فرمان نبوی: صحیح بخاری حدیث 4344: ہر نشہ آور شے خم ر ہے اور ہر خ مر حرام ہے۔ بخاری 242 و مسلم 2001 جو بھی مشروب عقل کو ڈھانپ لے وہ حر ام ہے۔ ابوداود 3581: ہر وہ شے جس کی زیادہ مقدار عقل کو ڈھانپ لےاس کی معمولی مقدار بھی حرا م ہے۔ بخاری 4619: جو شے عقل کو ڈھانپ لے اس کا نام خمر ہے۔صحیح مسلم 5141 خمر دوا نہیں بلکہ داء (بیماری) ہے۔ ابوداود 3870: اللہ تعالی نے تمہارے لئے اس شے میں شفا نہیں رکھی جو حرا م ہے۔
لعنت: ابوداود 3674: بے شک اللہ تعالی نے شر ا ب، اس کو کشید کرنے والے، جس کے لئے کشید کی گئی، اسے پینے والے، پلانے والے، اسے اٹھانے والے، جس کے لئے اٹھائی گئی ہو، اسے بیچنے والے، خریدنے والے اور اس کی قیمت کھانے والے (سب)پر لع نت کی ہے۔ ابن ماجہ 4020: شر ا ب کا نام بدل کر پینے والوں کو بندر اور سور بنایا جائے گا اور زمین میں دھنسایا جائے گا۔
واقعات: بخاری 2464: جب حضور ﷺ نے شر ا ب کو حرام قرار دیا اور مدینہ پاک کی گلیوں میں شر ا ب بہہ رہی تھی۔ سب نے اپنے اوپر حرا م کر لی۔ بخاری 4003 شر ا ب میں جانور ذبح کر دئے۔ بخاری 3394 و صحیح مسلم 168 معراج کی رات شر ا ب نہیں دودھ پسند کیا۔ بخاری 80: قیامت کے قریب شر ا ب عام ہو گی۔ بخاری 2475: شر ا ب پیتے وقت ایمان نکل جاتا ہے۔ ترمذی 2801: اس دستر خوان پر بھی بیٹھنا حرام جس پر شر ا ب ہو۔ ابوداود 3680 : شر ا ب پینے والے کی 40 روز تک نماز قبول نہیں۔ (یہ پڑھکر بھی نماز پڑھتے رہنا کیونکہ نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے)۔
سزا: شر ا بی پر اللہ کریم نے کوئی حد نہیں لگائی بلکہ اس کی سز ا حضور ﷺ کے فرمان سے ملتی ہے۔ ابوداود 4485 جو شر ا ب پئے اس کو کو ڑے لگاؤ۔ سنن ترمذی 1444میں حضور ﷺ نے درے لگانے کا حُکم دیا مگر قتل نہیں کیا جا سکتا۔ صحیح بخاری 6773، 6780، 2316: حضور ﷺ کے زمانے میں شر ا بی کو کوڑوں چھڑیوں اور جوتوں سے مارا جاتا۔ سیدنا ابوبکر کے زمانے میں 40 کوڑے مارے گئے۔
اجماع: البتہ سیدنا عمر فاروق کے دور میں آزاد شخص کے لئے شر ا ب پینے کی سز ا 80 کو ڑے مقرر کی گئی اور اس پر اجماع ہے۔ صحیح مسلم 1707: شر ا بی کی سزا 80 کو ڑے ہے۔
گواہ: شر ا ب کی سز ا تب جب مجرم خود اقرار کر لے یا
4۔ یہ بھی اُس صورت میں ہے کہ جب شر ا بی خود اقرار کر لے یا اس کے شر ا ب پینے پر دو معتبر آدمیوں کی شہادت یعنی گواہی مل جائے۔ اسلئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبید اللہ پر شر ا ب کی حد لگائی۔ (مصنف عبد الرزاق)
الزام: اہلتشیع حضرات کا الزام ہے مگر کسی بھی مستند کتاب میں بھی یہ نہیں آتا کہ حضرات ابوبکر، عمر و عثمان رضی اللہ عنھم نے شر ا ب پی ہو بلکہ کمنٹ سیکشن میں احادیث موجود ہیں جس کے مطابق ان دو ہستیوں نے کبھی یہ عمل نہیں کیا۔
تبلیغ: تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (صحیح مسلم 177، ابو داود 4340)