خصی جانور کی قربانی
یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ افواہیں کون پھیلا رہا ہے یا علماء کرام کے آپس میں اختلاف کی وجہ سے عوام سمجھتی ہے کہ ہو سکتا ہے فلاں کے نزدیک یہ غلط ہو اور فلاں کے نزدیک یہ ٹھیک ہو، اسلئے سوال پوچھتی ہے کہ کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے حالانکہ اور یہ کوئی عیب نہیں ہے:
سنن ابوداود 2802: حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چار طرح کے جانور قربانی کے لائق نہیں (1) جس کا کانا پن بالکل واضح ہو (2) جس کا لنگڑا پن بالکل واضح ہو (3) جس کی بیماری بالکل واضح ہو (4) وہ کمزور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔ اس پر حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺمجھے وہ جانور بھی ناپسند ہے جس کے دانت میں نقص ہو تو حضور ﷺ نے فرمایا جو تمہیں پسند ہو اُسے چھوڑ دو مگر دوسروں کے لئے حرام نہ کرو۔
سنن ابو داود 2805: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سینگ ٹوٹے (جڑ سے ٹوٹے) اور کان کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
سنن ابوداود 2795: حضور ﷺ نے قربانی کے دن دو خصی دنبے ذبح کئے۔ ابن ماجہ 3122: حضور ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو موٹے سینگ دار چتکبرے خصی کئے ہوئے مینڈھوں کو خریدتے، ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور ایک مینڈھا اپنی امت کی طرف سے قربانی کرتے۔ مسند احمد 23860میں بھی یہی لکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خصی جانور کی قربانی تمام محدثین وفقہا کے ہاں بالاجماع جائز ہے:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قربانی کے جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ خصی ہونے سے اس کے گوشت کی عمدگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ (فتح الباری:10/7)
علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ (541۔620 ھ)بیان کرتے ہیں : وَلَا نَعْلَمُ فِي ہٰذَا خِلَافًا ”اس بارے میں کوئی اختلاف ہمارے علم میں نہیں آیا۔” (المغني : 3/476، 9/442)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں : أَرْجُو أَن لَّا یَکُونَ بِہٖ بَأْسٌ ”اس میں کوئی حرج نہیں۔” (مسائل الإمام أحمد و إسحاق بن راہویہ بروایۃ إسحاق بن منصور الکوسج : 368/2)
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بکرے اور دنبے کو خصّی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (تفسیر الطبری : 10470)
نتیجہ: کسی ایک حدیث میں بھی حضور ﷺ نے خصی جانور کو عیب قرار نہیں دیا۔ اہلحدیث حضرات، دیوبندی اور بریلوی حضرات تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ خصی جانور کی قربانی جائز ہے۔
اختلاف: اصل اختلاف سعودی عرب کا خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے ساتھ ہے جنہوں نے پیری مریدی، دم درود، تعویذ دحاگے، تقلید، میلاد، عرس، ایصال ثواب وغیرہ کو قانون شکل دی۔ سعودی عرب کے وہابی علماء (غیر مقلد، اہلحدیث سلفی توحیدی، محمدی یہ سب ایک ہیں) بلکہ دیوبندی بھی خلافت عثمانیہ والوں کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں یعنی اپنے اکابر کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں حالانکہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کف ریہ عبارتیں ہیں باقی اختلاف نہیں ہے۔
حل:اتحاد امت کے لئے ان پانچ سوالوں کے جواب دیوبندی اور بریلوی علماء ملکر عوام کو دیں (1) بریلوی اور دیوبندی بننا لازمی ہے یا اہلسنت بننا لازمی ہے اور اہلسنت کیا خلافت عثمانیہ والے نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا (2) دیوبندی اور وہابی میں کیا فرق ہے؟ (3)بریلوی اور دیوبندی کا اصولی اختلاف کیا ہے؟ (4) دیوبندی اور بریلوی کو اکٹھا کرنے کی تجاویز کیا ہیں؟ (5) دیوبندی اور بریلوی کے عقائد کونسے ہیں؟
اہلحدیث حضرات محمد بن عبدالوہاب کے مقلد ہیں جن کی تقلید کو رسول اللہ ﷺ کی اتباع قرار دیتے ہیں حالانکہ تقلید کو خلاف شرع، حرام، بدعت و شرک بھی قرار دیتے ہیں یہی اختلاف ہے۔
اہلتشیع ختم نبو ت کے منکر اسطرح ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے کا حُکم ہے اور اتباع اُس کی کی جاتی ہے جس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ باقی صحابہ کرام اور اہلبیت معصوم نہیں ہیں۔ حضور ﷺ کی تمام زندگی کا مطالعہ کرنے والے صحابہ کرام اور اہلبیت ہیں اور ان سب سے حضور ﷺ کی احادیث بیان ہوئیں مگر اہلتشیع 124000کو چھوڑ کر اہلبیت سے علم حاصل کرنے کے داعی ہیں۔
سوال:حضرات امام علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے کب آیت مباہلہ، حدیث کساء سُنا کر کہا کہ ہم معصوم ہیں اور حدیث غدیر خُم کا اعلان کرو کیونکہ امامت ہماری ہے حضرات ابوبکر، عمر و عثمان رضی اللہ عنھم غلط ہیں۔ اگر اعلان کیا ہے تو بتا دیں ورنہ جھوٹا کون؟ صرف بے دین اہلتشیع جھوٹا ہے جس کا تعلق رسول اللہ ﷺ کے دین سے نہیں ہے۔