حاملہ جانور کی قربانی
اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک مسئلے سے کئی مسائل نکلتے ہیں جس کا حل حضور ﷺ کی احادیث میں موجود ہوتا ہے اور اگر موجود نہ ہو تو مفتیان عظام قرآن و سنت کو مد نظر رکھتے ہوئے اُس پر فتوی دیتے ہیں۔ اسلئے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے تو پہلے سمجھیں کہ جانور میں نقص یہ ہیں:
1۔ حضور ﷺ نے حاملہ جانور کی قربانی کو نقص میں شمار نہیں فرمایا بلکہ نقص سنن ابوداود 2802: چار ہیں واضح (1) کانا پن (2) لنگڑا پن (3) بیماری (4) کمزور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔سنن ابو داود 2805: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سینگ ٹوٹے (جڑ سے ٹوٹے) اور کان کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
2۔ حاملہ جانور کی قربانی کا ثبوت ابو داود 2827 اور ترمذی 1746کی یہ حدیث ہے: حضرت ابو سعید خدری نے رسول اللہ ﷺ سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر چاہو تو اسے کھالو۔ اور ایک روایت میں ہے کہ چاہو تو اسے کھا ؤ کیونکہ ماں کے ذبح کرنے سے وہ بھی ذبح ہو جاتا ہے۔
تجزیاتی رپورٹ
1۔ اگر قربانی کے وقت میں علم ہو جائے کہ جانور حاملہ ہے اور اس کے پیٹ میں بچہ ہے تو اس جانور کو رکھ لیں تاکہ وہ بچہ پیدا کر لے یا اُس کو فروخت کر دیں اور اتنی ہی قیمت یا اس سے زیادہ قیمت کا کوئی دوسرا جانور خرید لیں تو یہ بہتر ہے۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حاملہ جانور کی قربانی کر لیں۔ اگر ذبح کے بعد اُس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکل آیا تو اس کو بھی امام ابو حنیفہ کے نزدیک ذبح کر کے کھانا جائز ہے۔ اگرمردہ بچہ نکلا تو وہ مردار ہے اس کو پھینک دیں۔ اگر بچہ زندہ نکلا اور قربانی کے دنوں میں بچہ ذبح نہیں کیا تو قربانی کے دن گذار کر اس کو زندہ صدقہ کر دیں۔ ایسا بچہ دوسرے سال کی قربانی کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔
3۔اہلحدیث حضرات کا ابو داود 2827سے یہی موقف ہے کہ ماں کو ذبح کرنے کے بعد اگر مردہ حالت میں بچہ باہر آئے تو اسے کھایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے خود بھی ذبح ہو چکا ہے حالانکہ حدیث اپنی جگہ ٹھیک ہے تو کیا مردار کھانا پھر جائز ہوا اور امام ابوحنیفہ کا قول قرآن کی وجہ سے بہتر ہے کہ تم پر مردار حرام کیاگیا ہے۔
نتیجہ: اہلحدیث، دیوبندی اور بریلوی کے نزدیک حاملہ جانور کی قربانی ہو جائے گی، حاملہ جانور عید کی قربانی کے لئے عیب نہیں ہے۔ مادہ جانور کے پیٹ سے بچہ اگر زندہ نکلے تو اسے بھی ذبح کر کے کھایا جا سکتا ہے لیکن ذبح کئے بغیر یا مُردار کو نہیں کھانا چاہئے۔
اختلاف: اصل اختلاف سعودی عرب کا خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے ساتھ ہے جنہوں نے پیری مریدی، دم درود، تعویذ دحاگے، تقلید، میلاد، عرس، ایصال ثواب وغیرہ کو قانون شکل دی۔ سعودی عرب کے وہابی علماء (غیر مقلد، اہلحدیث سلفی توحیدی، محمدی یہ سب ایک ہیں) بلکہ دیوبندی بھی خلافت عثمانیہ والوں کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں یعنی اپنے اکابر کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں حالانکہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کف ریہ عبارتیں ہیں باقی اختلاف نہیں ہے۔
حل:اتحاد امت کے لئے ان پانچ سوالوں کے جواب دیوبندی اور بریلوی علماء ملکر عوام کو دیں (1) بریلوی اور دیوبندی بننا لازمی ہے یا اہلسنت بننا لازمی ہے اور اہلسنت کیا خلافت عثمانیہ والے نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا (2) دیوبندی اور وہابی میں کیا فرق ہے؟ (3)بریلوی اور دیوبندی کا اصولی اختلاف کیا ہے؟ (4) دیوبندی اور بریلوی کو اکٹھا کرنے کی تجاویز کیا ہیں؟ (5) دیوبندی اور بریلوی کے عقائد کونسے ہیں؟
اہلحدیث حضرات محمد بن عبدالوہاب کے مقلد ہیں جن کی تقلید کو رسول اللہ ﷺ کی اتباع قرار دیتے ہیں حالانکہ تقلید کو خلاف شرع، حرام، بدعت و شرک بھی قرار دیتے ہیں یہی اختلاف ہے۔
اہلتشیع ختم نبو ت کے منکر اسطرح ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے کا حُکم ہے اور اتباع اُس کی کی جاتی ہے جس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ باقی صحابہ کرام اور اہلبیت معصوم نہیں ہیں۔ حضور ﷺ کی تمام زندگی کا مطالعہ کرنے والے صحابہ کرام اور اہلبیت ہیں اور ان سب سے حضور ﷺ کی احادیث بیان ہوئیں مگر اہلتشیع 124000کو چھوڑ کر اہلبیت سے علم حاصل کرنے کے داعی ہیں۔
سوال:حضرات امام علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے کب آیت مباہلہ، حدیث کساء سُنا کر کہا کہ ہم معصوم ہیں اور حدیث غدیر خُم کا اعلان کرو کیونکہ امامت ہماری ہے حضرات ابوبکر، عمر و عثمان رضی اللہ عنھم غلط ہیں۔ اگر اعلان کیا ہے تو بتا دیں ورنہ جھوٹا کون؟ صرف بے دین اہلتشیع جھوٹا ہے جس کا تعلق رسول اللہ ﷺ کے دین سے نہیں ہے۔