وسائل کا ضیاع اور قیامت
بخاری 5025: حضور ﷺ نے فرمایا کہ حسد (رشک) تو دو آدمیوں پر ہونا چاہئے، ایک جسے اللہ تعالی نے قرآن کا علم دیا ہو اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا ہو حتی کہ اس کا پڑوسی سن کر کہے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا۔ دوسرا وہ جسے اللہ کریم نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لئے لُٹا رہا ہے حتی کہ دوسرا شخص کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے کتنا مال ہوتا اور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا۔
قرآن میں حسد کرنے والوں سے اللہ کریم کی پناہ مانگی گئی ہے کیونکہ حسد کرنے والا دوسروں کی خوش حالی پر جلتا ہے اور چاہتا ہے کہ اللہ کریم نے جو نعمت اس کو دی ہے وہ اس سے چھن جائے، سورہ بقرہ 109، سورہ النساء 54، سورہ فتح 15 اور سورہ فلق میں حسد کا بیان ہے۔ البتہ بخاری 5025 میں لفظ”حسد“ نیگٹو بول کر رشک مراد لیا گیا ہے جیسے قرآن پاک میں حضور ﷺ کے لئے لفظ ”حریص“ لفظ نیگٹو ہے حریص علیکم بالمومنین مگر اس سے حضور ﷺ کی محبت امت کے ساتھ ظاہر کی گئی ہے۔
صحیح مسلم 4923: حضور ﷺ نے فرمایا کہ کل قیامت والے دن سب سے پہلے جس کا فیصلہ ہو گا وہ ایک مجاہد، سخی اور عالم ہوں گے جن کا دعوی ہو گا کہ انہوں نے ساری زندگی جہاد، سخاوت اور علم اللہ کریم کے لئے پھیلایا ہے مگر اللہ کریم ان کی ریاکاری ان پر واضح کر کے فرمائے گا تم نے سب کام لوگوں سے داد اور ساتھ (تالیاں اور چندوں) کیلئے کئے اور پھر ان کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالا جائے گا۔
تشریح: ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم، عقل اور پیسہ ہماری وہ وسائل و ذرائع ہیں جن کا ریاکاری کے طور پر استعمال ہمیں جہنم میں پھینکوا دے گا جیسے:
ہر امام کہے گا کہ یا اللہ میں نے تو مسجد میں امامت کروائی تو پوچھا جائے گا کہ اپنی مسجد میں کتنوں کو امامت کے قابل بنایا یا اپنے بچے کو ہی امامت و خطابت کے لئے تیار کیا؟ پیر حضرات سے پوچھا جائے گا کہ کتنوں کا تزکئیہ نفس اور تصفیہ قلب کر کے کامل بنایا یا تعویذ دھاگوں، دم درود سے دنیا کی کمائی کرتے رہے۔
خطیب سے پوچھا جائے گا کہ تو نے کیا سکھایا، اُس نے کہنا ہے میں نے اللہ اکبر، یا رسول اللہ، یا غوث اعظم، یا علی کے نعرے لگوائے تو کہا جائے گا کہ نعرے تو تُو نے تقریر کے دوران پانی پینے کے لئے لگوائے؟ کیا مساجد میں سُننے والوں کو قرآن و سنت کے مطابق عثمانیہ خلافت، اجماع امت کے ”عقائد اہلسنت“ سکھائے۔ اصول و فروع کا فرق بتایا، مستحب اعمال کو فرض بنانے والوں کو سمجھایا کہ مستحب اعمال جو نہ کرے اس سے لڑنا یہ ثابت کرتا ہے یہ مستحب اب فرض ہے اور بدعت ہے۔
مناظرے کرنے والوں سے پوچھا جائے گا کہ تو نے دین اسلام کو پروموٹ کرنے کے لئے کس سے مناظرہ کئے تو وہ لمبی چوڑی بتائے گا تو کہا جائے گا کیا کسی مناظر، مولوی یا عالم کو اپنے گھر میں دعوت دی یا اُس کے گھر میں جا کر اُس کو منانے کی کوشش کی یا میڈیا پر چھلانگیں مار کر وقت ضائع کیا۔
سعودی عرب کے امام کعبہ سے پوچھا جائے گا کہ دیوبندی اور اہلحدیث کی پاکستان میں امامت کروانے والے آپ نے اہلحدیث اور دیوبندی کو پیسہ لگا کر ایک عقائد پر اکٹھا کیوں نہیں کیا تاکہ سعودی، وہابی، اہلحدیث، سفلی، توحیدی، محمدی، دیوبندی ایک ہو جاتے،البتہ تمہارا پیسہ پاکستان میں مذہبی انتشار کا باعث بنا جس سے رافضیت، قا دیانیت، سیکولر،لبرلز سب پروموٹ ہوئے۔اسلئے دیوبندی، وہابی، اہلحدیث سب دجل و فریب کرنے کے مجرم ہوئے۔
اہلتشیع حضرات سے پوچھا جائے گا کہ حضرات فاطمہ، علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے حضور ﷺ کی کونسی احادیث پر حضرات ابوبکر، عمر، عثمان کے25سالہ دور میں عمل کیا۔ باغ فدک، حدیث قرطاس، حدیث ثقلین، حدیث غدیر خم کو ٹوسٹ کر کے غلط معنی پہنا کر عوام کو کیوں دھوکہ دیتے رہے؟
عوام سے بھی پوچھا جائے گا کہ دین کو سیکھنے کی کوشش کیوں نہیں کی اور وہ کہے گی کہ ہمیں کسی نے سچ بتایا نہیں تو اللہ کریم فرمائے گا فلاں بندے نے تم کو سچ بتایا مگر تم نے ہنسی میں اُڑایا حالانکہ تمہیں معلوم تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے مگر تمہیں شخصیت پرستی اور جماعت و ذات نے مارا اور تم نے اپنے بچوں کو بھی نہیں سکھایا جس سے تم اپنی نسلوں کو دین سے متنفر کروانے کے مجرم ہو۔
صدر، وزیر اعظم، پارلیمنٹ، سرکاری ادارے، جج، تھانیدار، وکیل سب سے پوچھا جائے گا کہ دین اسلام، مسلمانوں اور انسانوں کو کیا قانون بنا کر فائدے دئے؟
سوچ: ہمارے نزدیک اس وقت دین پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جماعتوں کو اکٹھا کر کے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ دیوبندی و بریلوی و اہلحدیث حضرات بتائیں کہ ان کا آپس میں اختلاف کس بات پر ختم ہو گا؟ سعودی عرب کو چاہئے کہ میٹنگ کال کرے اور پیسہ لگا کر تینوں جماعتوں کو ایک قانون پر اکٹھا کر دے۔ پاکستان میں ہر مسجد میں یہ کہا جائے کہ مدارس سے اکٹھا ہونے کی تجاویز لا کر دیں تاکہ مسلمان اکٹھے ہوں۔
روحانی بیماریاں حسد، کینہ، بغض، انا، عُجب، تعصب، شخصیت پرستی ہیں، یہ ختم نہیں ہو سکتیں البتہ ان کو مجاہدہ کر کے قرآن و سنت کے مطابق لے آئیں تو یہ سب صبر، شُکر، توکل، یقین، محبت رسول میں ڈھل جائیں گی مگر مکمل خاتمہ ناممکن ہے۔ اسلئے قرآن فرماتا ہے کہ مومنین کے کینے بھی جنت میں جانے سے پہلے صاف ہو جائیں گے (الحجر 45 – 47)۔ البتہ کسی کے شر سے بچنا بڑا مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ اپنے شر سے دوسروں کو بچانا ہے۔