نمازِ عید اور ایام تشریق
عوام کوسال میں دو مرتبہ پانچ نمازوں کے علاوہ “نماز عید الفطر“ اور”نماز عیدالاضحی“بھی پڑھنی ہوتی ہے، جس میں اذان اور اقامت نہیں کہتے۔ عیدالفطر اگربارش، سیلاب، چاند دیکھنے میں شک ہونے کی وجہ سے نہ پڑھی جائے تو دوسرے دن تک پڑھ لیں اور عید الاضحی 12 ذی الحج تک ادا کر سکتے ہیں۔
نیت: دل میں کہیں کہ 2 رکعت نماز عید الفطریا عید الاضحی 6 واجب تکبیروں کے ساتھ اور امام کے ”اللہ اکبر“ کہنے کے بعد عوام اللہ اکبر کہے۔ عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز ادا کرنے کا ایک جیسا طریقہ ہے۔
طریقہ: امام اللہ اکبر کہتا ہے، ہاتھ باندھ کرسبحانک اللّھم پڑھتے ہیں، سبحانک اللّھم پڑھنے کے بعد امام تین دفعہ ہاتھ اُٹھا کر ”اللہ اکبر“ کہتا ہے جس میں ”رُکن“ (تین مرتبہ سبحان اللہ) کی مقدار کے برابر خاموش رہتا ہے۔ 2دفعہ اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ چھوڑنے ہیں اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لینے ہیں، امام اعوذ باللہ، بسم اللہ، الحمد شریف، سورۃ پڑھے گا اور عوام صرف سُنے گی، اس کے بعد رکوع، سجود کے بعد کھڑے ہو کر امام دوسری رکعت میں بسم اللہ، الحمد شریف اور سورۃ ملائے گا لیکن رکوع میں جانے سے پہلے پھر تین دفعہ اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ اُٹھا کر چھوڑے گا اور چوتھی تکبیر کے بعد اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے گا۔ اس کے بعد سجدے کر کے، التحیات، درود، دعا پڑھ کر سلام پھیرے گا۔
اصول: واجب تکبیرات کے درمیان کچھ نہیں پڑھتے تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار میں خاموش رہتے ہیں اور جن تکبیروں کے بعد کچھ نہیں پڑھتے جیسے عید کی نماز، اُس میں اللہ اکبر کہنے کے بعد ہاتھ باندھے نہیں جاتے اور جن تکبیروں کے بعد کچھ پڑھا جاتا ہے اس میں ہاتھ اٹھائے نہیں جاتے جیسے جنازے کی نماز۔
تکبیرات: اگر عید کی نماز میں امام پہلی رکعت میں الحمد شریف یا سورۃ پڑھ رہا تھا توعوام پہلے اپنی 3 تکبیریں ادا کرے۔ اگر امام رکوع میں گیا ہے تو پھر بھی جلدی سے تین دفعہ اللہ اکبر کہے اور رکوع میں شامل ہو جائے، اگر رکوع میں سے اُٹھنے والا ہے تو رکوع میں جا کر تین تکبیریں کہہ لے اور اگر امام اٹھ گیا تو اب عوام نہ کہے۔
بقیہ رکعتیں: اگر امام کے ساتھ ایک رکعت چُھوٹ گئی تو اپنی چُھوٹی ہوئی رکعت اکیلے ادا کرتے ہوئے بھی سبحانک اللّھم کے بعد تین تکبیریں کہے گا اور اگر امام کے ساتھ سلام سے پہلے ملا ہے تو التحیات پڑھ کر کھڑا ہو اور باقی نماز اسی طرح 6 تکبیروں کے ساتھ ادا کرے۔
نمازِعید کی زائد چھ تکبیروں پر دلائل
1۔ حضرت مکحول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک ہمنشین ابوعائشہ نے بتایا کہ میں نے حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں رسول اللہ ﷺ کس طرح تکبیر کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ (ہر رکعت میں) چار تکبیریں کہتے تھے جیسا کہ آپ نماز جنازہ میں کہتے تھے۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے (مزید) بتایا کہ جب میں بصرہ والوں پر حاکم (گورنر) بنایا گیا تو میں وہاں بھی اسی طرح تکبیریں کہا کرتا تھا۔ ابوعائشہ نے کہا کہ (اس سوال و جواب کے موقع پر) سعید بن العاص کے ساتھ موجود تھا۔[سنن ابوداؤد: جلد اول: حدیث نمبر1155، نماز کا بیان : عیدین کی تکبیرات کا بیان]
پہلی رکعت میں تین (٣) زائد تکبیرات چونکہ تکبیرِ تحریمہ کہکر ثنا کے ساتھ کہی جاتی ہیں اور دوسری رکعت میں یہ تکبیرات کہکر رکوع کی تکبیر کے ساتھ کہی جاتی ہے، اس لئے اس اتصال کی وجہ سے پہلی رکعت میں رکوع کی تکبیر سے مل کر چار۔ گویا ہر رکعت میں چار تکبیرات شمار ہوں گی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی رکعت میں مع تکبیر تحریمہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور دوسری رکعت میں مع تکبیر رکوع چارتکبیریں کہا کرتے تھے۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، المجلد الثالث، ص؛ 494)
2۔ ابو عبدالرحمٰن قاسم فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺنے عید کی نماز پڑھائی تو چار چار (4،4) تکبیریں کہیں، جب نماز سے فارغ ہوۓ تو ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا : بھول نہ جانا عید کی تکبیرات جنازہ کی طرح (چار) ہیں. آپ ﷺ نے ہاتھ کی انگلیوں کا اشارہ فرمایا اور انگوٹھا بند کرلیا.(شرح معاني الآثار للطحاوي كِتَابُ الزِّيَادَاتِ بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا …، رقم الحديث: 4820)
امام طحاوی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند حسن کا درجہ رکھتی ہےالخ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ پہلی رکعت میں چار اور دوسری رکعت میں بھی چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سے بھی اس طرح کا قول مروی ہے ہے۔ (مصنف ابن أبي شيبة” (2/78 – 81)
3۔ حضرت عبدالله بن حارث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ نے پہلے چار تکبیریں کہیں، پھر قرأت کی، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا، پھر جب آپ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوۓ تو پہلے قرأت کی پھر تین تکبیریں کہیں، پھر (چوتھی) تکبیر کہہ کر رکوع کیا۔(شرح معانی الآثار، رقم الحدیث، 4825)
4۔ علقمہ اور اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالله بنِ مسعود رضی الله عنہ بیٹھے ہوۓ تھے، ان کے پاس حضرت حذیفہ رضی الله عنہ اور حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ بھی بیٹھے ہوۓ تھے تو ان سے حضرت سعید بن العاص رضی الله عنہ نے عید الفطر اور عید الأضحى کے متعلق سوال کیا، حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ نے کہا: ان (حضرت حذیفہ) سے پوچھو، پھر حضرت حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: یہ مسئلہ حضرت عبدالله بنِ مسعود رضی الله عنہ سے پوچھو، چناچہ انہوں نے پوچھا تو حضرت ابنِ مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا : نمازی چار تکبیریں (ایک تکبیرِ تحریمہ اور تین تکبیراتِ زائد کہے، پھر قرأت کرے، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرے، دوسری رکعت میں تکبیر کہے، پھر قرأت کرے، پھر قرأت کے بعد چار تکبیریں کہے. (تین تکبیراتِ زائد اور ایک تکبیر رکوع کے لئے) (مصنف عبد الرزاق كتاب صلاة العيدين بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِرقم الحديث: 5528)
امام ہیثمی مجمع الزوائد، جلد ثانی، کتاب الصلاۃ، حدیث نمبر 3247 یعنی اسی حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ موثقون۔ امام طبرانی نے اس حدیث کو معجم الکبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ امام ابن حجر عسقلانی الدرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ میں اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں: رواہ عبدالرزاق عن ابن مسود باسناد صحیح۔ اس حدیث کو امام عبد الرزاق نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
ان احادیث نے بالکل واضح کردیا کہ رسول اللہ ﷺ ہر رکعت میں چار مرتبہ تکبیر کہتے تھے پہلی رکعت میں مع تکبیر تحریمہ چار تکبیر یں اور دوسری میں مع تکبیر رکوع چار تکبیریں کہا کرتے تھے تھے جیسا کہ محدثین نے اس کی وضاحت کی ہے ۔بعض احادیث میں جو مروی ہے کہ پہلی رکعت میں پانچ اور دوسری میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی رکعت میں تکبیرِ رکوع اور تکبیرِ تحریمہ کو ملاکر پانچ تکبیریں اور دوسری رکعت میں تکبیر رکوع کو ملاکر چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔لہذا کل ملاکر نو تکبیریں ہوئیں لیکن ہر رکعت میں زائد تکبیریں تین تین ہی رہی یعنی چھہ زائد تکبیریں)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نمازِ عید کی پہلی رکعت میں رکوع اور تحریمہ کی تکبیر کو ملاکر پانچ (5) تکبیریں ہوتی ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع والی تکبیر کو ملاکر چار (4) تکبیریں بنتی ہیں.(مصنف عبد الرزاق كتاب صلاة العيدين بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِ , رقم الحديث: 5526)۔ خلاصہ یہ کہ ہر رکعت میں زائد تکبیروں کی تعداد تین (3) ہے۔ دوسری حدیث کی تشریح میں جو ملا علی قاری کی توضیح گزری ہے اس سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
ان احادیث اور آثارِ صحابہ کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ (اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ) کی بھی یہی رائے ہے کہ عیدین میں چھ (6) تکبیریں سنت ہیں جیسا کہ امام محمدرضی اللہ عنہ نے بھی اس کی صراحت فرمائی ہے۔
تکبیراتِ عیدین کے متعلق بہت ساری احادیث مروی ہیں بعض میں تکبیرات کی تعداد نو ہے، بعض میں سات سات، اور بعض میں چھہ ہے۔ یہ ایسا اجتہادی مسئلہ ہے جس میں صحابہ کرام، تابعین عظام، اور ائمہ کرام کا دس سے زائد اقوال پر اختلاف ہے۔
احناف اور امام احمد کی ایک روایت کے مطابق نماز عیدین میں چھ تکبیرات زائد ہیں، تین پہلی رکعت میں اور تین ہی دوسری رکعت میں، یہ موقف ابن مسعود، ابو موسی اشعری، حذیفہ بن یمان، عقبہ بن عامر، ابن زبیر، ابو مسعود بدری، حسن بصری، محمد بن سیرین، ثوری، علمائے کوفہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم جمیعاً کا ہے۔
شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں: پہلی رکعت میں سات تکبیرات زائد ہیں اور دوسری میں پانچ تکبیرات زائد ہیں۔اس طرح مختلف مکاتبِ فکر کے علما نے تکبیراتِ عیدین کے متعلق مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔امام الائمہ فی الحدیث امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چھہ تکبیرات کو راجح کیوں قرار دیا؟ اس کی متعدد وجوہ ہیں:
ا) یہ سنت متوترہ سے ثابت ہے۔
۲) یہ بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا مذہب رہا ہے۔
۳) حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت ابو مسعود بدری، حضرت حسن بصری،امام محمد بن سیرین، امام سفیان ثوری اور بے شمار علمائے کوفہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔
یہ تمام قرائن و شواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ چھہ تکبیرات والے قول کو اختیار کرنے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر زیادہ سے زیادہ عمل ہوجائے گا۔
امام احمد کہتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کا عیدین کی زائد تکبیرات کے متعلق اختلاف ہے، اور سب پر عمل کرنا جائز ہے۔” ” الفروع ” (3/201) واضح رہے کہ یہ امام احمد کا اپنا طریقہ ہے کہ وہ جس مسئلہ میں صحابہ کرام کے درمیان کثیر اختلاف دیکھتے ہیں اس مسئلے میں تمام تر روایتوں پر عمل کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک سنت اور افضل یہی ہے کہ دونوں رکعتوں میں تین تین زائد تکبیرات کہی جائیں۔
ایام تشریق
پہلی بات: ایام “یوم“ کی جمع ہے اور یوم دن کو کہتے ہیں جیسے یوم پاکستان وغیرہ۔ عید الاضحی کے بعد کے تین دنوں (11,12,13 ذی الحج)کو ”ایام تشریق“ کہتے ہیں۔
دوسری بات: ایام تشریق کو "ایام تشریق” کہنے کے متلعق یہ قول ہیں:
1۔ تشریق کا معنی ہے گوشت کے پارچے (ٹکڑے) بنا کر ان کو دھوپ میں سکھانا اور عربوں میں گوشت خشک کرنے کو”تشریق“ کہتے ہیں۔
2۔ قربانی کے جانور کو اس وقت تک ذبح نہیں کیا جاتا جب تک سورج طلوع نہیں ہوتا اور عید کی نماز سورج کے طلوع ہونے(شروق الشمس)پر ادا کی جاتی ہے، لہذا پہلے روز کے بعد آنے والے ان تمام دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں۔
3۔ سورہ بقرہ کی آیت 203 (وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ) کے مطابق ایام تشریق کو ”ایام معدودات“ بھی کہا جاتا ہے۔
تیسری بات: حقیقی ایام تشریق 11,12,13 ذی الحج کے تین ایام کو کہتے ہیں۔ 9 تا 13 ذی الحج (5 دن) کو مجازاً ایام تشریق اسلئے کہتے ہیں کہ 9 ذوالحجہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصرتک (5 دن) تکبیر تشریق (الله اکبر الله اکبر لا الہ الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد) پڑھی جاتی ہیں (ہدایہ 420/4) حقیقی تین دن اور مجازی پانچ دن ایام تشریق کے ہیں۔
چوتھی بات: ان تین حقیقی ایام تشریق (11,12,13 ذی الحج) کے متعلق رسول کریمﷺ کا فرمان ہے کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ البتہ یومِ نحر(قربانی کا دن) بھی کھانے پینے کا ہے اور یہ تین دن اس کے تابع ہیں لہذا ان چار دنوں اور عید الفطر(کل پانچ دن پورے سال) میں روزہ کھنا حرام ہے۔
پانچویں بات: ایام تشریق میں روزے رکھنے کی ممانعت آئی ہے تو اس سے مراد ایام تشریق کے حقیقی معنی ہیں کیونکہ اگرتکبیر تشریق والے ایام بھی مراد لیں گے تو پھر روزے کے ممنوع ایام پانچ نہیں بلکہ چھ ہو جائیں گے جو کہ خلاف شریعت ہے۔
پانچ دن: ابوداود 2416 "حضورﷺ نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزے رکھنے سے منع فرمایا”۔ مسلم 2677 "ایام تشریق یعنی ذوالحجہ کے 11, 12, 13 تاریخ کے ایام کے بارے میں حضورﷺنے فرمایا : ایامِ تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔
چھٹی بات: یہ دن خوشی کے دن ہیں لیکن پھر بھی فرمایا گیا کہ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ (اور یاد کرو اللہ تعالی کو گنتی کے چند دنوں میں) اس آیت سے مراد ایام تشریق میں نمازوں کے بعد پڑھی جانے والی تکبیرات، قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت کی تکبیرات اور حج کرنے والوں کے لئے رمی جمار کی تکبیرات وغیرہ ہیں۔
تکبیرات تشریق: ہر مرد کے لئے اونچی آواز میں اور عورت کے لئے آہستہ آواز میں 9 ذوالحجہ کی فجر سے لے کر13ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات تشریق کا ایک مرتبہ کہنا واجب ہے۔ سلام کے فوری بعد یہ تکبیرات کہنی چاہئیں۔
اہم بات: یہ تکبیریں ہر نماز کے فورا بعد قبلہ رُخ رہتے ہوئے، کسی سے بات چیت کئے بغیر کہنی ہیں۔
اہمیت: چور کے ہاتھ کاٹ دینے کا حُکم ہے لیکن جو دین کا چور ہو اُس کے بارے میں کیا کہیں گے۔ اسلئے حضور ﷺ کی امت کو اکٹھا کرنے کے لئے دیوبندی اور بریلوی علماء اور عوام سے عرض ہے کہ ہم سب کو اجتماعی توبہ کرنی ہو گی ورنہ عالم اور عوام کل قیامت والے دن بُرے پھنسیں گے۔
بھائی بھائی: اختلاف اپنی جگہ رہا مگر دین اسلام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے سے بہتر ہے کہ خودداری کی موت مریں۔ دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس اور مقلد حنفی ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مشرک کہا۔ اگر یہ سب اعمال دیوبندی و بریلوی نہیں بھی کرتے تو کوئی گناہ نہیں سوائے تقلید کے کیونکہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی سب اہلسنت ہیں مگر اہلحدیث اپنے مجتہد کا نہیں بتاتے جس نے ان سب اعمال کو بدعت وشرک کہا اور نہ ہی سعودی عرب کے حنبلی مصلے پر اکٹھا ہوتے ہیں۔
اہلتشیع: اہلتشیع سے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ان کی بنیاد قرآن پر ہو سکتی ہے مگر حضور ﷺ کے 124000 صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے جو سُنا اس کے مطابق دین پھیلایا۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے سب کچھ علی کو دے دیالیکن یہ نہیں بتاتے کہ حضور ﷺ کے تو 124000صحابہ تو اہلتشیع کے (ڈپلیکیٹ) علی کے کون کونسے صحابی ہیں جن سے دین تابعین تک پہنچا۔