Imam Mahdi (امام مہدی رضی اللہ عنہ)

امام مہدی رضی اللہ عنہ

قرب قیامت میں عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی اولاد سے، "محمد” نامی شخصیت تشریف لائیں گے، جن کے والد کا نام بھی عبداللہ ہو گا اور اس دُنیا میں اُن کو امام مہدی کہا جاتا ہے۔

1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر دنیا کے ختم ہونے میں ایک دن بھی باقی ہوا (اور امام مہدی نہ آئے ) تو اللہ تعالیٰ اسی دن کو لمباکر دے گا حتی کہ میری نسل سے یا میرے اہل بیت سے ایک آدمی کو مبعوث کرے گا جس کا نام میرے نام پر اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا۔ (مسند الامام احمد: 430، 377/1، سنن ابي داود: 4282، سنن الترمذي : 2230)

2۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عنقریب فتنہ نمودار ہو گا۔ لوگ اس سے ایسے کندن بن کر نکلیں گے جیسے سونا بھٹی میں کندن بنتا ہے۔ تم اہل شام کو برا بھلا نہ کہو بلکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو برا بھلا کہو کیونکہ اہل شام میں ابدال ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر آسمان سے بارش نازل کرے گا اور ان کو غرق کر دے گا۔ اگر لومڑیوں جیسے مکار لوگ بھی ان سے لڑیں گے تو وہ ان پر غالب آ جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے خاندان میں سے ایک شخص کو کم از کم بارہ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار لوگوں میں بھیجے گا۔ ان کی علامت امت امت ہو گی۔ وہ تین جھنڈوں پر ہوں گے۔ ان سے سات جھنڈوں والے لڑائی کریں گے۔ ہر جھنڈے والا بادشاہت کا طمع کرتا ہو گا۔ وہ لڑیں گے اور شکست کھائیں گے، پھر ہاشمی غالب آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف ان کی الفت اور محبت و مودّ ت لوٹا دے گا۔ وہ دجال کے نکلنے تک یونہی رہیں گے۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم : 596/4، ح: 8658)

3۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر زمانے کا ایک دن بھی باقی رہ گیا (اور امام مہدی نہ آئے ) تو اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو ضرور بھیجے گا جو ظلم سے بھری ہوئی زمین کو عدل سے بھر دے گا۔ (مسند احمد: 90/1، سنن ابي داود 4283)

4۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام مہدی میرے خاندان سے، فاطمہ (رضی اللہ عنہا ) کی اولاد سے ہوں گے۔(سنن ابي داود: 4284، سنن ابن ماجه: 4086)

5۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک زمین ظلم و زیادتی کے ساتھ بھر نہ جائے۔ پھر میری نسل یا میرے اہل بیت میں سے ایک آدمی نکلے گا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف کے ساتھ بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و زیادتی کے ساتھ بھری ہوئی تھی۔ (مسند احمد : 36/3)

6۔ مسند احمد اور صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:امام مہدی سات سال حکومت کریں گے۔ (مسند الإامام أحمد: 17/3، صحيح ابن حبان: 6826)

اہلتشیع کا امام مہدی

ان تمام احادیث کے خلاف رافضیوں کے امام مہدی کا نام محمد بن حسن عسکری ہے۔ وہ اس کے نام کی پکار بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں : يا صاحب الزمان، الغوث الغوث الغوث، ادركني ادركني ادركني وغیرہ۔ البتہ ان کے نزدیک امام مہدی کا نام لیناجائز نہیں۔ ان کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے : امام مہدی کا نام لے کر اس کا ذکر کرنا جائز نہیں۔ “ [اصول الكافي : 333/1، الارشاد، ص: 394، اكمال الدين لابن بابويه، ص: 608]

جو شیعہ مہدی کا نام لے لے وہ کافر ہو جاتا ہے، کہتے ہیں :صاحب ہذا الامر، اس کا نام کافر ہی لیتا ہے۔ “ [اصول الكافي : 333/1]
اگر کہیں مہدی کا نام لکھنا پڑے تو شیعہ اس کا نام حروف مقطعات کے ساتھ لکھتے ہیں، مثلاً م ح م د۔ [اصول الكافي : 339/1]

غائب: شیعہ اپنے مہدی کے بارے میں کہتے ہیں کہ 255ھ میں اس کی ولادت ہوئی اور 260ھ میں وہ غائب ہو گیا، کہتے ہیں : مہدی حج کے لیے آتا ہے۔ وہ ان کو دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن وہ اسے نہیں دیکھ پاتے۔ “ [اصول الكافي : 337/1، 338، الغيبة للنعماني، ص:116]

ابن تیمیہ ان کے ’’ امام زمان“ کے بارے میں لکھتے ہیں : ان میں سے کوئی بھی اسے پہچانتا نہیں، نہ اسے کسی نے دیکھا ہے نہ اس کی کوئی صفت کسی کو معلوم ہے بلکہ کہتے ہیں کہ وہ ایسا شخص ہے جسے کسی نے دیکھا نہیں نہ اس کی کوئی خبر سنی ہے۔ وہ ان کا امام زمان ہے حالانکہ معلوم ہے کہ یہ امام کی پہچان نہیں ہے۔ (منهاج السنة النبوية لابن تيمية: 114/1)

مزید لکھتے ہیں : رافضی کہتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں کیونکہ ان میں امام معصوم موجود ہے۔ رافضی امامی اثنا عشری شیعوں کے نزدیک معصوم وہ ہے جو اپنے والد کی وفات کے بعد 260ھ میں سامراء کے مورچے میں داخل ہو گیا اور اب تک غائب ہے۔ اس کی کوئی خبر معلوم نہیں ہوئی نہ کسی کو اس کا کوئی نشان ملا ہے۔ “ [مجموع الفتاوي لابن تيمية: 452/27]

اس بارے میں حافظ ابن کثیر (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) فرماتے ہیں: اس سے مراد وہ مہدی ہیں جو آخر زمانے میں ہوں گے۔ وہ ایک خلیفہ راشد اور ہدایت یافتہ امام ہوں گے۔ ان سے مراد وہ مہدی منتظر نہیں جس کے بارے میں رافضی لوگ دعویٰ کرتے ہیں اور سامراء کے ایک مورچے سے اس کے ظہورکا انتظار کرتے ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں، نہ اس کے بارے میں کوئی روایت و اثر ہی موجود ہے۔ (النهاية في الفتن والملاحم لابن كثير:49/1)

بارہ امام کا جھوٹ

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بارہ عادل خلیفہ ضرور ہوں گے۔ ان سے مراد شیعوں کے بارہ امام نہیں۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کے پاس کوئی حکومت تھی ہی نہیں جبکہ جن بارہ خلفاء کا حدیث میں ذکر ہے، وہ قریش سے ہوں گے جو حاکم بن کر عدل کریں گے۔ ان کے بارے میں پہلی کتابوں میں بھی بشارت موجود ہے۔ پھر ان کا پے در پے آنا ضروری نہیں بلکہ امت میں ان کا وجود پے در پے بھی ہو گا اور وقفے وقفے سے بھی۔ ان میں سے چار پے در پے آئے۔ وہ سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم ہیں۔ ان کے بعد وقفہ ہوا اور پھر جتنے اللہ نے چاہے آئے، پھر ان میں سے جتنے باقی ہیں، وہ اللہ کے علم میں وقت مقررہ پر ضرور آئیں گے۔ انہی میں سے امام مہدی ہوں گے جن کا نام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اور کنیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت کے مطابق ہو گی۔ وہ ظلم وستم سے بھری ہوئی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ (تفسير ابن كثير :569، 568/4، تحت سورة النور : 55)

ایک مقام پر یوں فرماتے ہیں: بلاشبہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک ان بارہ خلیفوں کی حکومت قائم نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ انہی میں سے امام مہدی ہوں گے جن کے بارے میں احادیث میں یہ موجود ہے کہ ان کا نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے مطابق (محمد) اور ان کے والد کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نام کے مطابق (عبداللہ ) ہو گا۔ وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ امام مہدی سے مراد وہ امام منتظر نہیں جس کے بارے میں رافضی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اب موجود ہے اور سامراء کے مورچے سے اس کا ظہور ہو گا۔ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں نہ اس کا قطعاً کوئی وجود ہے بلکہ یہ گندی ذہنیت کی ہوس اور کمزور خیالات کا وہم ہے۔ ان بارہ خلفاء سے مراد وہ بارہ امام نہیں جن کا اثنا عشری رافضی اپنی جہالت اور کم علمی کی بنا پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ تورات میں اسماعیل علیہ السلام کی بشارت کے ساتھ یہ بات بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے بارہ عظیم لوگ پیدا کرے گا۔ یہ وہی بارہ خلفاء ہیں جن کا ذکر سیدنا ابن مسعود اور سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے۔ یہودیت سے توبہ کر کے اسلام لانے والے بعض جاہل لوگوں سے جب کوئی شیعہ ملتا ہے تو وہ ان کو دھوکا دیتا ہے کہ ان سے مراد بارہ امام ہیں۔ ان میں سے اکثر جہالت اور بے وقوفی کی بنا پر شیعہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت احادیث کے بارے میں کم علم ہوتے ہیں اور ان کو ایسی تلقین کرنے والے بھی کم علم ہوتے ہیں۔ (تفسير ابن كثير : 504/3، تحت سورة المائدہ : 12)

امامیہ شیعوں کے ’’ امام غائب “ کے بارے میں علامہ ابن القیم لکھتے ہیں ہیں: امامی رافضیوں کی ایک چوتھی بات یہ ہے کہ امام مہدی کا نام محمد بن حسن عسکری ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ وہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی نسل سے ہے، سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی نسل سے نہیں۔ وہ آبادیوں میں موجود ہے لیکن آنکھوں سے غائب ہے۔ وہ دنیا پر اپنی حکومت قائم کرے گا۔ وہ چھوٹا سا بچہ تھا جب وہ سامراء کے مورچے میں داخل ہوا تھا۔ یہ پانچ سو سال (اور اب سے کوئی بارہ سو سال ) پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے نہ اس کے بارے میں کوئی خبر ملی ہے نہ اس کا کوئی نشان ملا ہے۔ امامی شیعہ ہر روز مورچے کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرتے ہیں اور اسے آوازیں لگاتے ہیں کہ اے ہمارے مولیٰ تو نکل، اے ہمارے مولا تو نکل۔ پھر وہ ناکامی و نامرادی کے ساتھ واپس لوٹ جاتے ہیں۔ یہ ان کی اور ان کے امام منتظر کی روداد ہے۔ کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے :ابھی وقت نہیں آیا، ابھی وقت نہیں آیا کہ مورچے سے وہ شخص پیدا ہو جس سے تم اپنی جہالت کی بنا پر باتیں کرتے ہو۔ تمہاری عقلوں پر مٹی پڑ گئی ہے اور تم عنقاء اور غیلان (عربوں کے ہاں دو وہمی و خیالی چیزوں ) کو تین کر رہے ہو۔) یہ لوگ بنی آدم کے لیے باعث عار اور ایسے بن گئے ہیں کہ کوئی عقل مند شخص ان کی بیوقوفی پر ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔ “ [المنار المنيف لابن القيم : 153] دراصل عنقاء وہ پرندہ ہے جس کا نام لیا جاتا ہے، لیکن وجود نہیں ملتا۔ اسی طرح غیلان چڑیل کو کہتے ہیں جس کا نام تو ہے لیکن وجود کوئی نہیں، اسی طرح شیعوں کے مہدی اور امام غائب کا نام ہی ہے، وجود کوئی نہیں۔

کفریہ عقیدہ: مشہورشیعہ الفیض کاشانی (م : 1091ھ ) نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لکھا ہے: اگر ہمارا مہدی منتظر آ گیا تو وہ حمیراء عائشہ کو قبر سے واپس نکال کر اس پر حد قائم کرے گا۔ “ [التفسير الصافي للفيض الكاشاني: 359/3، نور اليقين للمجلسي: ص 347]

نعوذباللہ ! کتنے خبیث اور بدباطن ہیں یہ لوگ جو نبی طاہر و مطہر کی ازواج مطہرات پر بھی کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں آتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں بیان کر دی لیکن رافضی جھوٹے اور ظالم ان پر حد قائم کرنے کا سوچتے ہیں۔ انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :’’ جھوٹ وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔ (16-النحل:105)

غیر مسلم: اہلتشیع کو مسلمان نہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلتشیع حضور ﷺ کے مُنکر ہیں کیونکہ یہ بتاتے نہیں کہ حضور ﷺ کی کونسی احادیث کا علم حضرات علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نےاُس وقت کے صحابہ کرام کو دیا جن سے منتقل ہوتا ہوا کب اہلتشیع کی احادیث کی کتابوں میں پہنچا، البتہہ ان کی تین لاکھ کے قریب منگھڑت جن کو احادیث کہتے ہیں وہ سب حضرت جعفر صادق سے منسوب ہیں اور بحث کے وقت اُس سے کے بھی مُنکر ہو کر قرآن پر آ جاتے ہیں جیسے قرآن اہلتشیع پر نازل ہوا ہے۔

اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتح شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے اور سب مجبور ہیں سوائے ہمارے۔ بولیں ورنہ قیامت والے دن مسلمانوں کے ایمان کا جواب دینا ہو گا۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general