12 خلفاء

‏‏‏‏ صحیح مسلم 485: حضور ﷺ نے فرمایا: کسی پیغمبر کو اتنے لوگوں نے نہیں مانا جتنے لوگوں نے مجھ کو مانا اور بعض پیغمبر تو ایسے بھی ہے کہ اس کا ماننے والا ایک ہی شخص ہے۔”
صحیح بخاری ”حکومت اور قضا کے باب“ میں امام بخاری محدث، حدیث نمبر 7222 لائے ہیں جس میں حضور ﷺ نے فرمایا: 12 "امیر” ہوں گے۔۔ اور وہ سب کے سب قریش کے خاندان سے ہوں گے“۔ اسی طرح صحیح مسلم 4708، ترمذی حدیث 2223، راوی حضرت جابرہی ہیں، 12 "خلفاء” ہوں گے، اور”باب ایام فتن کے احکام“ میں ہے۔
تجزیاتی رپورٹ
1۔ اس حدیث کے مطابق مسلمانوں کے خلفاء یا امیر مخلتف اوقات میں 12 ہوں گے جو حکومت کریں گے، ان احادیث میں لفظ "امام” نہیں ہے۔
2۔ تمام قریش سے ہوں گے۔ قبیلہ قریش کی بڑی بڑی شاخیں یہ ہیں:
(1) بنو ہاشم (2) بنو امیہ (3) بنو نوفل (4) بنو عبدالدار (5) بنو اسد (6) بنو تمیم (7) بنو مخزوم (😎 بنو عدی (9) بنو عبد مناف (10) بنو سہم ان کے علاوہ دیگر شاخیں بھی ہیں۔
خلفاء: اسلئے اہلسنت جن کو خلفاء مانتے ہیں وہ سب قریش قبیلے سے تھے: (1) سیدنا ابوبکر قبیلہ بنو تمیم (2) سیدنا عمر فاروق قبیلہ بن عدی (3) سیدنا عثمان بنو امیہ (4) سیدنا علی اور حسن بنو ہاشم (5) سیدنا حضرت معاویہ بھی بنو امیہ سے۔ اسلئے قریش قبیلے کے بنو امیہ کو برا بھلا کہنا حضور ﷺ کو برا کہنا ہے۔
3۔ قرآن و احادیث میں خلفاء کرام کے نام نہیں آتے اور نہ ہی قرآن و احادیث نے خلفاء کو مقرر کیا۔ اسلئے پہلے چار خلفاء کا انتخاب صحابہ کرام نے مختلف طریقوں سے کیا اور سیدنا حسن نے حضرت معاویہ کو خلیفہ بنایا، البتہ یزید پلید کو فاسق و فاجر کہا گیا اور حضرت معاویہ کا یہ اجتہاد قابل قبول نہیں تھا۔ باقی کون کون خلیفہ راشد آیا یا آئے گا اس پر ہر ایک کی ذاتی رائے ہے مگر نبی کریم ﷺ نے نہیں بتایا۔
4۔ خلافت ملوکیت میں کب تبدیل ہوئی اس پر مودودی صاحب نے جو کتاب لکھی اُس پر اعتراضات اسلئے بھی ہیں کہ 12 خلفاء ہوں گے، کون کون سے ہوں گے اور کس وقت ہوں گے یہ معلوم نہیں مگر مودودی صاحب نے خلافت و ملوکیت میں تاریخ کے حوالوں اور ابومخنف جیسے جھوٹوں کے حوالوں سے سیدنا عثمان، علی، معاویہ، عمرو بن العاص، ابو موسی اشعری، سیدہ عائشہ کی کردار کشی کی ہے۔
5۔ قرآن اور احادیث میں جن کے فضائل موجود ہوں ان کو تاریخ کے حوالوں سے بیان کرنا جُرم ہے۔ پاکستان میں وزیر اعظم، اسٹیبلشمنٹ، جیوری کے خلاف بولنا جُرم ہے تو انبیاء کرام اور صحابہ کرام کے خلاف بولنا بھی جُرم ہے۔
6۔ مودودی پرست یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر کوئی سوال کرے کہ خلافت ملوکیت میں کب تبدیل ہوئی تو اُس کا سادہ سا جواب ہے کہ 12 خلفاء میں سے جو خلیفہ راشد ہو گا اُس دور میں صرف خلافت ہو گی اور باقی کوئی بھی خلافت عباسیہ یا عثمانیہ نام رکھنے سے خلفاء نہیں ہوں گے۔
7۔ اہلتشیع حضرات کے 12 امام کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔ اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت جُرم ہے کیونکہ سیدنا علی نے خلافت کی ہے اور خلیفہ حکومت کرے گا جیسے احادیث سے ثابت ہے، اسلئے سیدنا علی حضرت معاویہ سے بھی حق پر رہ کر لڑے مگر سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان کی اطاعت کی۔ اسلئے باقی سیدنا حسن کے علاوہ کوئی بھی خلیفہ نہیں بنا۔
8۔ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا اور یہی لوگ تھے جن کو رسول اللہ ﷺ نے ایمان دے کر مسلمان کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد انہی صحابہ نے دین 58 لاکھ مربع میل تک پہنچایا۔ البتہ اہلتشیع نہ تو نبی کریم ﷺ کے دور میں تھے اور نہ ہی صحابہ کرام کے دور میں تھے۔ کسی صحابی کا عقیدہ 14 اور 12 معصوم کا نہیں تھا۔ سیدنا علی نے کسی اہلتشیع سے اپنی بیٹی سے نکاح نہیں کیا۔
9۔ سیدنا علی کی اولاد میں سے سیدنا حسین، علی المعروف زین العابدین، باقر، جعفر صادق، موسی کاظم، علی رضا، محمد تقی، علی نقی اور حسن عسکری رحمتہ اللہ علیھم میں سے کوئی بھی حکمران نہیں رہا بلکہ ان ناموں پر قبضہ کر کے نبی کریم ﷺ کا دین تبدیل کیا گیا۔ عقیدہ امامت یہی ہے کہ جو ان اماموں کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں۔

حضور ﷺ کا دین صحابہ کرام اور اہلبیت والا دین ہے۔ اہلسنت محدثین نے بتایا کہ صحیح بخاری 7222 مسلم 4708 ترمذی 2223 میں حضور ﷺ نے فرمایا: 12 امیر یا خلفاء ہوں گے جو قریش کے خاندان سے ہوں گے۔ اس حدیث میں لفظ امیر یا خلیفہ ہے لیکن امام لفظ نہیں ہے۔ دوسرا حضور ﷺ نے ایک غیبی خبر دی کہ 12 قریشی حکمران مسلمانوں پر حکمرانی کریں گے۔

حضور ﷺ نے کسی خلیفہ کا نام نہیں بتایا، کسی کا معصوم ہونا نہیں بتایا، کس دور میں ہوں گے یہ بھی نہیں بتایا۔ البتہ اہلسنت کے نزدیک پانچ خلفاء تو سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن رضی اللہ عنھم تو کنفرم ہیں۔ اب بارہ امام کا کیس سٹڈی کرتے ہیں، اہلسنت محدثین نے حضور ﷺ کے جو فرمان اکٹھے کئے، ان میں صحابہ کرام نے سیدہ فاطمہ، مولا علی، سیدنا حسن و حسین کے یہ فضائل بیان کئے ہیں:

سیدہ فاطمہ کے فضائل میں کثیر احادیث جن میں چند ایک صحیح مسلم 6261، 6307، 6312، ترمذی 3205، 3868، 3874، 3206، صحیح بخاری 3714، ابو داود 4213 ہیں جن کے راوی سیدنا عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، عائشہ صدیقہ، عبداللہ بن مسعود، عمر بن خطاب، ام سلمی، انس بن مالک، سیدنا علی، ابو ایوب انصاری، ابوہریرہ، بریدہ، مسور بن مخزمہ، حذیفہ، عبداللہ بن عمر، ثوبان، عبداللہ بن زبیر، ابو سعید خدری، عمر بن ابی سلمہ، صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنھم ہیں۔

اسی طرح (1) سیدنا علی کی شان میں کثیر احادیث جن میں چند ایک ترمذی 3735، 3728۔ 3734، 3712، 3713، 3564، 3719، 3727 بخاری 2942، 3706، 3700،3713 مسلم 6222، 4678، 6217، 240، 6427 ابو داود 2790
(2) سیدنا حسن کی شان میں کثیر احادیث جن میں چند ایک صحیح مسلم 6220، 6261، ترمذی 3781، 3769، 3774 بخاری 3751، 2704، 3735، 3749، 2122، 3752، ابوداود 4131
(3) سیدنا حسین کی شان میں چند ایک احادیث مستدرک حاکم 7734، ابو داود 2841، 4213 ترمذی 3770، 3733، 3870، 3782، 3774، 3768 ،3779 مسلم 6620، 6261، طبرانی 2631 جن کے راوی صحابہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ سے اہلبیت کے متعلق سُنا۔ 

12 امام کی عمریں: سیدنا علی کی شہادت 40ھ تقریباً 63 سال، سیدنا حسن (3 – 49ھ) 46، سیدنا حُسین (4 – 61) 57، سیدنا زین العابدین (38 – 95) 57، سیدنا باقر (57 – 114) 46، سیدنا جعفر (82 – 148) 66، سیدنا موسی (128 – 183) 55، سیدنا علی (148 – 203) 55، محمد تقی (195 – 220) 25، سیدنا علی نقی (212 – 254) 42، سیدنا حسن عسکری (232 – 260ھ) 28سال۔

سوال: کیا سیدنا حسین، زین العابدین، باقر، جعفر، موسی کاطم، علی، محمد تقی، علی نقی اور حسن عسکری رضی اللہ عنھم نے خلافت یا امامت کی؟ اگر کی ہے تو امامت کس کو کہتے ہیں اور اس کی ذمہ داری کیسے پوری کی؟؟ بارہ امام کا چناؤ کیسے اور کس نے کیا؟؟

دین چور: یاد رکھیں اہلتشیع نے اہلسنت کا دین چوری کیا ہے، اُن کے پاس حضور ﷺ کی احادیث بالکل نہیں ہیں کیونکہ نماز، روزے، حج، طلاق، عدت، صحابہ کرام و اہلبیت کے فضائل کی سب احادیث صحابہ کرام اور اہلبیت کے پاس وہی تھیں جو رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہیں اور جن کو اہلسنت محدثین نے اکٹھا کیا۔

کتابیں: اہلتشیع کی معتبر کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230 سال بعد (3,4) تہذیب الاحکام اور استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی ہیں۔ یہ اہلسنت کے محدثین کی احادیث سند و راوی بدل کر امام جعفر صادق سے منسوب کی ہیں اسلئے یہ حضور ﷺ کی احادیث بھی نہیں ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے نہج البلاغہ کو سیدنا علی سے منسوب کیا ہواہے اور یہ دین کربلہ کے کافی بعد لانچ ہوا ہے۔

مذاق: یہ دین چور اہلسنت مسلمانوں سے اسطرح مذاق کرتے ہیں:

1۔ اہلبیت کے محبتی بن کر، اہلسنت کی احادیث سے، صحابہ کرام نے جو حضور ﷺ کے فرمان، اہلبیت کے فضائل میں فرمائے، وہی بیان کریں گئے کیونکہ ان کے پاس احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔

2۔ بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود وغیرہ کی احادیث اہلسنت "محدثین” نے اکٹھی کیں مگر احادیث کی شرح اہلسنت مجتہدین تمام احادیث کو پڑھکر قانون و اصول پر کرتے ہیں مگر یہ اہلتشیع اہلسنت کی کتابوں کی شرح اپنی مرضی کی کر کے صحابہ کرام کی عظمت پرتبرا کریں گئے۔

3۔ سب سے بڑا کھیل یہ کھیلتے ہیں کہ خود کو اہلسنت بھی کہتے ہیں۔ مرزا انجینئر، بابا اسحاق، مودودی، طارق جمیل، دو نمبر اہلسنت پیر، مفتی، عالم، نعت خوانوں کی ویڈیوز دکھا کر کہیں گئے کہ یہ دیکھو اہلسنت علماء کیا کہہ رہے ہیں حالانکہ ایک ویڈیو ان سب کی بنا کر پوچھ لیں کہ کیا اہلتشیع کی احادیث کی کتابیں مستند ہیں اور چودہ معصوم اور بارہ امام کا عقیدہ کیا ختم نبوت کے خلاف نہیں؟؟ مگر ایسی کوئی ویڈیو نہیں بنائیں گئے۔

چیلنج: اگر یہ جھوٹ ہے تو بتا دیں کہ حضور ﷺ کی کونسی مستند احادیث پر عمل کرتے ہیں جو مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین نے اہلتلشیع کو سکھا کر فرمایا کہ چودہ معصوم اور بارہ امام کا عقیدہ رکھنا ورنہ یہ ثابت ہوا کہ اہلتشیع محمد ﷺ اور آل محمد کے مُنکر ہیں۔

دُکھ: اہلتشیع عوام کی ایسی برین واشنگ کی گئی ہے وہ حقائق سُننا نہیں چاہتی، احادیث بتا نہیں سکتی، اُن کے دماغ میں ڈال دیا گیا ہے بس یہی کہنا ہے کہ لعنت بے شمار۔ دوسرا اہلتشیع اپنی کتابوں میں انبیاء کرام کی اجتہادی خطائیں بیان کریں گئے مگر بارہ امام کی نہیں۔ کیوں؟؟

نتیجہ: صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک ہے، دونوں میں سے کسی کا عقیدہ چودہ معصوم اور بارہ امام کا نہیں ہے۔ سیدنا علی و سیدنا حسن کے علاوہ کوئی امام یا خلیفہ نہیں بنا۔ اہلتشیع اتنے جھوٹے ہیں کہ اپنی مستند کتابوں کا تو بتاتے نہیں بلکہ خود ہی نبی، خود ہی علی اور خود ہی مفسر قرآن بن کر جو چاہے بکتے ہیں.

حل: اس کا واحد حل عوام اپنی نسلوں کو شعور دے کہ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ذکر اہلبیت جب مرضی کریں اور محرم و صفر میں سادگی سے نکاح کریں اور جس نے غم کرنا ہے وہ بھی گھر کرے۔ یہ گھوڑا دین ہمارا دین نہیں ہے جس کو سڑکوں پر نکالا جاتا ہے۔

مشورہ: اس پوسٹ کو شئیر نہ کریں بلکہ کاپی کر کے اپنی فیس بُک پر لگائیں اور سوشل میڈیا پر وائرل کریں۔ اگر ہم جھوٹے ہیں تو اہلتشیع سوالوں کے جواب دے دیں۔

اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں، دونوں جماعتوں میں کوئی لڑائی ہو تو دونوں مزے لیتے ہیں لیکن دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں سے پہلے دونوں جماعتیں یہ نہیں بتا سکتیں کہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اہلحدیث غیر مقلد یہ نہیں بتا سکتے کہ ان کے کس امام غائب نے کہا تھا کہ تقلید بدعت و شرک ہے بس اب میری اتباع رسول کی اتباع ہے۔

تحقیق: جس مرضی جماعت میں رہیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن قیامت والے دن اپنا جواب دینے کے لئے اپنی جماعت کی تحقیق کر لیں اور وہاں یہ نہ کہنا کسی نے بتایا نہیں تھا۔ البتہ ہم نے قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے اسلئے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بننا

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general