ضرورت (شادی شُدہ پڑھیں)
یہ بہت آسان انداز میں لکھی ہوئی باتیں ہیں کیونکہ پاکستان کی عوام کو زیادہ پڑھنا لکھنا نہیں آتا، مساجد و مدارس میں بھی یہ سب کچھ سکھایا نہیں جاتا۔ یہ پوسٹ پہلے بھی ایک لاکھ لوگوں نے پڑھی ہے اور انہوں نے اس پوسٹ کو سراہا بھی۔ کچھ عوام نے اس پر اختلاف بھی کیا
نیٹ پر اگر اس پوسٹ کے متعلق کوئی لنک موجود ہو تو کمنٹ سیکشن میں ضرور دیں۔ اس وقت ہماری اولادیں بالغ ہونے سے پہلے میڈیا پر گندی فلمیں، عورت اور مرد کا آپس میں پیار کرنے ، مُنہ چومنے، گلے لگانے کے جذباتی مناظردیکھ رہی ہیں جس سے اُن کے اندر جسمانی ہوس پیدا ہو رہی ہے اور یہ آگ مساجد و مدارس میں بھی بھڑک رہی ہے۔ اس کا واحد حل سادگی سے نکاح میں ہے۔
بچوں کی تربیت
* اپنی اولادوں کو چھوٹی سی عُمر میں اسکول ، مدرسہ یا کسی بھی کام پر ڈالنا ہوتواُن کو سمجھائیں کہ اے میرے بیٹے! یاد رکھنا کسی نوجوان لڑکے، اُستاد، مولوی، دوست کو اپنا منہ اور رخسار نہیں چومنے دینا۔ پڑھنے والے خود بھی احتیاط کریں اور دوسروں کو سمجھائیں۔
* اے میرے بیٹے و بیٹی ! لڑکے اور لڑکی کی اگلی اور پچھلی شرم گاہ اور لڑکی کیلئے اُس کے سینے کے اُبھار، یہ سب نازک مقام ہیں اورآپس میں بھی ان کا دیکھنا اور دِکھانا جائز نہیں ۔اسلئے تمہارے جسم کے مخصوص حصوں پرکوئی ہاتھ پھیرے تو اپنے والدین کو بتانے میں شرم نہیں کرنی اور کسی کو ایسا کرنے بھی نہیں دینا۔
* اس دور میں والدین کو غریبی کی وجہ سے اپنے بچے فیکٹری، کارخانے، دُکان پر’’ کام‘‘ سیکھنے کیلئے ڈالنے پڑتے ہیں تو خاص طور پر چھوٹے بچے جن کی داڑھی نہیں آئی ہوتی اور ان میں عورت کی طرح شہوانی کشش بھی ہوتی ہے، اُن کے ساتھ زیا دتی کے واقعات بہت زیادہ ہیں کیونکہ بچہ آسان ’’ شکار‘‘ ہوتا ہے اور اپنے والدین کو بتا بھی نہیں سکتا، یہ واقعات اکٹھے رہنے والے خاندانوں میں بہت زیادہ ہیں، اسلئے والدین کا اپنے بچوں کی تربیت کرنا اور اُن پر نگاہ رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔
* میاں بیوی کے راز و نیاز کے وقت میں، دس سال یا سمجھدار بچے کا، اُس کمرے میں ہونا منع ہے، چاہے وہ سویا ہی محسوس ہوتا ہو۔
نوجوان اولاد کوماحول کے مطابق نصیحت
1 ۔ اے میرے بیٹے و بیٹی! سکول و کالج و مدارس یا اجتماعی جگہ پر لڑکے اور لڑکیاں جس طرح کی بھی باتیں کرے وہ اپنے والدین کے ساتھ ضرور شئیر کریں تاکہ اگر غلط ہوں تو شرعی مشورہ دے سکیں۔ یہاں والدین کی بھی تربیت کی ضرورت ہے ورنہ جو ہو رہا ہے اُس میں والدین کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔
2 ۔ اے میرے بیٹے ! کبھی بھی اکیلے کمرے میں نہیں رہنا، کبھی گندی فلمیں نہیں دیکھنا، کبھی لڑکی کی طرف گندی نظر سے نہیں دیکھنا کیونکہ تمہاری اپنی بھی بہنیں اور والدہ گھر میں موجود ہیں۔ اگر تمہاری نظر پاک صاف رہی تو اللہ کریم تمہاری عبادت میں حلاوت، شوق اور جذبہ عطا فرمائے گا۔
3۔ اے میرے بیٹے ! کبھی بھی کسی لڑکی سے یارانہ یا دوستانہ نہیں کرنا حالانکہ آج کا میڈیا لڑکے اورلڑکی کو نکاح کے بغیر’’محبت‘‘ کرنے کا درس دے رہا ہے لیکن اگر زندگی میں کہیں کام یا مجبوری کے وقت میں اکٹھا ہونا بھی پڑ جائے تو صرف حد بندی میں رہ کر ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنا ہے۔ ساری زندگی اپنی توجہ صرف اللہ کریم کی طرف رکھنی ہے اور کسی لڑکی سے غلط کاری نہیں کرنی، اگر کوئی خوبصورت لڑکی تمہیں خود بھی گناہ کی دعوت دے توکہنا کہ مجھے اس کام کا شوق نہیں ۔ اس گناہ سے بچنے پر اللہ کریم تم کو حشر کے روز عرش کے سائے میں رکھے گا جب کوئی سایہ نصیب نہیں ہو گا۔
4۔ اے میرے بیٹے ! مجھے فکر ہے کہ میرا بیٹا کہیں غلط راستہ اختیار نہ کرے، اس لئے مشورہ دیتا ہوں کہ اپنی شرم گاہ سے تنہائی میں نہیں کھیلنا کیونکہ یہ پاک لوگوں کے لئے مکروہ اور غیر اخلاقی ’’عمل ‘‘ ہے۔
لڑکے اور لڑکی کی خواہش
شریعت کے مطابق 15 سال تک لڑکا پہلی باراحتلام ہونے پراور12 سال تک لڑکی حیض (ماہواری) ہونے پر ’’بالغ‘‘ ہو جاتے ہیں اور ان کا ’’نکاح‘‘ کیا جا سکتا ہے ۔ بالغ ہونے کے بعد ہماری اولاد کو”خواہش ‘‘ پوری کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
اگر ماحول گندہ ہو تو جلد اور اگر ماحول پاکیزہ ہو تو اس’’خواہش‘‘کی سمجھ جلد نہیں آتی۔ اس کے علاوہ کئی بیٹیوں کو لیکیوریا جیسے بعض مسائل پر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کا حل نکاح کے علاوہ کچھ نہیں ہے لیکن والدین معاشرتی مسائل کی وجہ سے جلد نکاح نہیں کر سکتے تو اس وقت لڑکی کو صبر کر کے اپنا ایمان بچانا چاہئے اور والدین کو ح نکالنا چاہئے۔
عورت اور مرد کے جنسی تعلقات
اے میرے بیٹے ! جب تمہارا نکاح کر دوں تو اُس کے بعد اپنی بیوی سے دن ہو یا رات، اُجالا ہو یا اندھیرا، جس وقت مرضی چاہو پیار کر سکتے ہو کیونکہ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے البتہ نماز قضا نہ ہو۔ وہ تمہارا لباس ہے اور تم اُس کا لباس ہو، اس لئے جسم پر کوئی لباس بھی نہ ہو تو کوئی گناہ نہیں۔
البتہ پیار کرنے سے پہلے نہا نا،خوشبو لگانا، دانت صاف کرنا تاکہ مُنہ سے بدبو نہ آئے ، یہ لڑکے اور لڑکی کے لئے بہتر ہے، اسلئے حدیث پاک کے مطابق صبح اُٹھ کر اپنی بیوی کا مُنہ نہیں چومنا چاہئے کیونکہ منہ سے بدبو آنے کی وجہ سے بیوی کو کراہت ہوتی ہے ، اسلئے چومنا، بوس و کنار وغیرہ کرنا اپنی بیوی کے ساتھ جائز ہے۔
اے میرے بیٹے ! دین کے مطابق لڑکے اور لڑکی کا نکاح کر کے ایک دوسرے سے’’ لذت‘‘ اور” سکون‘‘لینا جائز ہے ۔ البتہ یہ دو جسموں کی ایکسرسائز(exercise) ہے، اس لئے مرد کو اپنی اور اپنی عورت کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
اگر دونوں میاں بیوی صحتمند ہوں تو شریعت کے مطابق آپس میں ’’خواہش‘‘ روزانہ بھی پوری کر سکتے ہیں لیکن روزانہ پیار کرنے سے اگر میاں بیوی کی نماز، کام اور صحت میں فرق پڑ جائے تو پھر جنسی تعلقات میں کمی کرنی چاہئے۔
اے میرے بیٹے ! جب تمہارا نکاح ہو جائے تو یاد رکھنا کہ عورت سے پیار بھری باتیں کرنا، اکٹھے نہانا، ایک دوسرے کو کپڑے پہناناحتی کہ ایک دوسرے کا کوئی بھی جسمانی کام کرنے میں کوئی شرم نہیں ہے۔ اس لئے کہ میاں بیوی کا رشتہ خواہش پوری کرنے کا ہے، اسلئے کوئی بھی انداز ہو سکتا ہے۔
اے میری بیٹی! عورت کو چاہئے کہ اپنے مرد کا خیال رکھے، اس لئے احادیث میں آیا ہے کہ بہترین عورت وہ ہے کہ مرد گھر جائے تو عورت کی صُورت دیکھ کر اس کو سکون ملے اور عورت مرد کی ہر ضرورت پوری کرنے میں کبھی بھی ٹال مٹول سے کام نہ لے اور نہ ہی اُس کے پیار کرنے سے غلط فائدہ (emotional black mail) اُٹھائے۔
گندی فلمیں دیکھنے والوں کو نصیحت
اے میرے بیٹے ! دوسرے ممالک میں لڑکے اور لڑکیاں پیسہ کمانے کیلئے یہ پیشہ اختیار کرتے ہیں ، فلمیں بنائی اور بیچی جاتی ہیں اس میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ کسی بھی مذہب کے مطابق جائز نہیں ہے۔
یہ پیشہ ور لڑکے اور لڑکیاں جس انداز، طریقے، حالتوں (positions) کو اختیار کر کے ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اس کے لئے بڑی محنت اور مشق (exercise) کرتے ہیں، عام گھریلوعورت اس انداز کو اختیار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اورنہ ہی اپنی بیوی سے ایسی امید رکھنا ۔
پہلی بات: عورت کے ساتھ جس مرضی انداز(position) میں اگلی شرمگاہ یعنی بچہ پیدا ہونے والے مقام پر جماع کرنا جائز ہے لیکن عورت کی دُبر (پاخانے کے مقام) میں جماع کرنا حرام ہے۔ ایسا کرنے والے مرد اور خواہش کرنے والی عورت پر بھی لعنت ہے۔
دوسری بات: لڑکی کا لڑکی کو تسکین پہنچانا یا لڑکی کا خود کسی بھی کھلونے سے خودکوتسکین دینا بھی اچھا عمل نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔
تیسری بات: لڑکے کا لڑکے کے ساتھ بد فعلی کرنا حرام ہے اور اس طرح عمل کرنے والوں پر لعنت ہے بلکہ شریعت میں سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔
چوتھی بات: اے میرے بیٹے ! آج کل میڈیا دیکھنے سے نیا سوال پیدا ہواہے کہ کیا لڑکا لڑکی کی شرمگاہ کو زبان لگا سکتا ہے اور لڑکی لڑکےکا عضو مُنہ میں ڈال کر لڑکے کو سکون پہنچا سکتی ہے۔ اکثر مرد یہ چاہتے ہیں کہ عورت میرے ساتھ یہ کھیل کھیلے لیکن جب پوچھا جائے کہ کیا تم عورت کی اس طرح خواہش پورا کرنا پسند کرو گے تومرد کہتے ہیں ہرگزنہیں۔
اے میرے بیٹے ! پیشاب، پاخانہ، مذی، منی وغیرہ اگرکپڑے پر لگ جائے تو کپڑا ناپاک ہو جاتا ہے، اسی طرح اگر منہ پر لگ جائے یا منہ کے اندر یہ پانی جائے تو اچھا نہیں ہے ۔البتہ میاں بیوی ایک دوسرے کے پورے جسم کے ساتھ کھیلیں کوئی مسئلہ نہیں اور ایک دوسرے کی شرم گاہ پر ہاتھ پھیریں توکوئی گناہ نہیں۔
پانچویں بات: اے میرے بیٹے ! اگر عورت حالتِ حیض و نفاس میں ہو تو پھر اُس کے ساتھ صحبت نہیں کرنی بلکہ ناف سے لے کر گُھٹنوں تک کپڑا ڈال لینا ہے لیکن اس کے علاوہ عورت کے سارے جسم سے پیار کیا جا سکتا ہے۔ اگرحیض کی حالت میں پیار کرتے ہوئے کوئی نہ رہ سکتا ہو تو اپنی بیوی کے جسم کے کسی بھی حصے پر اپنے’’ عضو‘‘ کو رگڑکر اپنی خواہش پوری کرلے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔
چھٹی بات: عورت کے چھاتی کے اُبھار کو پیار کرنا جائز ہے لیکن اگر بیوی تمہارے بچے کی ماں بن گئی ہے اوراللہ کریم کے حُکم سے اُس کے پستان میں اُس کے بچے کے لئے دودھ اُتر آیا ہے اور پیار کرتے ہوئے دودھ تمہارے منہ کے اندر چلا جائے تو اس صورت میں تمہارے نکاح کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی عورت کو طلاق ہوتی ہے لیکن اس کو پینا تیرے لئے جائز نہیں۔
ساتویں بات: شریعت کے مطابق اگر عورت حاملہ ہو تو بچہ پیدا ہونے تک اُس کے ساتھ صحبت کرنا منع نہیں مگر یہ دھیان رہے کہ وہ تکلیف میں ہے، اس لئے صحبت کرنے کی ضرورت ہو تو اس کے پیٹ پر بوجھ نہ پڑے اور نہ ہی کوئی ایسا انداز اختیار کیا جائے جس سے اُس کی تکلیف زیادہ ہو۔ یہ کہنا بے وقوفی اور جہالت ہے کہ اگر اس عورت کے پیٹ میں بچی ہوئی تو یہ اُس کے ساتھ ز نا ہو گا۔
آٹھویں بات : اے میرے بیٹے ! میاں بیوی کا آپس میں پیار کرنے کی باتیں کسی بھی دوست یا قریبی سے کرنا جائز نہیں۔اس لئے کوئی جنسی مسئلہ ہو تو کسی بھی سمجھدار سے مشورہ کرنا۔
مطالبہ: بچے لینا ہی ضروری نہیں بلکہ ان کو دین سکھانا بہت ضروری ہے، اس پیج پر کسی سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے بلکہ ہر ایک سے کہا جا رہا ہے کہ تم ہمارے سوالوں کے جواب دو تاکہ ہم تمہاری جماعت کو سمجھ سکیں البتہ ہم یہ سمجھ چُکے ہیں کہ اصل اہلسنت خلافت عثمانیہ والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی پلس اہلحدیث حضرات نے کیا اور اہلتشیع بے بنیاد ین ہے۔
امتحان: فیس بک نے ہمارا مین پیج فقیر محمد رضوان داودی بند کر دیا ہے۔ اسی نام سے ایک اور پیج بنا لیا ہے تاکہ ادھر ریکارڈ محفوظ کیا جائے اور اگر یہ پیج بھی بند ہو جائے تو اس کو استعمال کیا جائے۔
اہلتشیع: اہلتشیع کا دین حضور ﷺ، مولا علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم والا نہیں ہے کیونکہ اہلبیت کا دین وہی ہے جو صحابہ کرام کا تھا۔ اہلبیت نے صحابہ کرام کی کبھی شکایت نہیں کی، اگر کی ہے تو ثابت کریں کہ حضرت علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے حضرات ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کے متعلق کس حدیث میں کچھ فرمایا۔ البتہ اہلتشیع نے امام جعفر صادق سے منگھڑت تین لاکھ کو احادیث قرار دے کر ختم نب وت پر ڈاکہ ڈالا ہے اور امام صرف حضور ﷺ ہیں جن کی اتباع کا حُکم ہے۔
اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے اور سب مجبور ہیں سوائے ہمارے۔ بولیں ورنہ قیامت والے دن مسلمانوں کے ایمان کا جواب دینا ہو گا۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت