دائرہ کار یا اختیار (jurisdiction )
ہم ایک ایماندار سرکاری آفیسر کے ساتھ ملکر کام کرتے تھے جس کو بہت سے کرپٹ آفیسرز اور ملازموں کی انکوائریز (inqueries) دی جاتیں جو اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھاکر مال کماتے اور گورنمنٹ کا نقصان کرتے تھے۔
جس کرپٹ ملازم کے خلاف انکوائری ہوتی، اُس کو بلایا جاتا، اُس سے مختلف سوال جواب کئے جاتے، جواب کاغذ پر لکھ کر سائن کروائے جاتے تاکہ بعد مُکر نہ جائے، پھر اُس کرپٹ کے ساتھ کام کرنے والوں کو بُلا کر سوال جواب کئے جاتے اور اسطرح بڑی محنت کے بعد سچ ہاتھ میں آتا جس سے علم ہوتا کہ قصور کس کا ہے اور کس وجہ سے ہے پھر اُس پر اپنی سفارشات دی جاتیں اور ہائی کمانڈ کورپورٹ بھیج دی جاتی۔
انکوائری رپورٹ بڑے آفیسرز کو جاتی مگر اُس کرپٹ کے خلاف کوئی کاروائی کر کے کوئی سزا نہ دی جاتی بلکہ ایک اور نئی انکوائری کسی اورکرپٹ کے خلاف مل جاتی۔ ہم نے اُس ایماندار آفیسر سے کہا کہ جناب آپ اتنی محنت کرتے ہو مگر اوپر والے آفیسرز خود رشوت لے کر کرپٹ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے بلکہ سزا اُس کو دی جاتی ہے جس کا قصور بھی نہیں ہوتا۔
اُس آفیسر نے بڑی اچھی بات کہی، اُس نے کہا کہ دوستو میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور میرے ذمے جو کام حکومت نے لگائے ہیں وہ میری حدیں ہیں اور میں اپنی حدود کی حفاظت ایمانداری سے کرتا ہوں۔ اسلئے ماپنے کام میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا اور کسی کے کام میں مداخلت نہیں کرتا کیونکہ وہ میری ذمہ داری میں نہیں آتے، البتہ ایمانداری کا بوجھ اُٹھانے میں آزمائشیں توآتی ہیں۔
اس کی ایک بات سے ہم سب کے ذہن کُھل گئے، ہم نے اپنا کام ایمانداری سے کرنے کی کوشش کی۔ سب کو معلوم ہے کہ بعض اوقات ہائی کمانڈ غلط کام کرنے کا بھی کہتی ہے لیکن ایمانداری کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں غلط کام نہیں کہے جاتے تھے بلکہ وہی کہے جاتے جو ان کو معلوم ہوتا کہ اس ایماندار نے یہی کرنے ہیں۔
ہر مُلک میں اچھے بُرے رواج، قانون، لوگ، لیڈر، فوج اور سربراہ ہوتے ہیں، ہمارے مُلک میں بھی ہیں جو اچھا اور بُرا کر کے جنت اور جہنم کما رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ان کے معاملات میں نہ بولیں بلکہ ان کی اصلاح کے لئے خود اپنی سیٹ اور عہدے کے کام قانون و اصول کے مطابق ایمانداری سے کریں۔جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی۔۔ اس دور میں یہ کمائی ہم نے ہے بچائی۔
دین: لاکھوں علماء اور مذہبی جماعتیں پاکستان میں سرکار ﷺ کے نام پر سرکاری کام کر رہی ہیں اور یہ سرکاری کام کرنے کی دُعا سب کریں کیونکہ گَل ساری سرکار دی اے۔ ہم نے بھی یہ دین کا کام کرنا ہے مگر نام، شہرت یا پیسہ کمانے کے لئے نہیں بلکہ بندے کا تعلق اللہ کریم اور سرکار ﷺ سے جوڑنے کے لئے کرنا ہے۔ہم کسی بھی عالم اور جماعت کا دفاع نہیں کریں گے بلکہ قرآن و سنت اور قرآن و سنت کی تشریح کے اصولوں کا دفاع کریں گے۔
ہم خیال: اسلئے اپنے حصے کے ہم خیال بنا رہے ہیں جو اپنی اوقات، عہدہ، صلاحیت کے مطابق دین کا کام قانون و اصول کے مطابق کریں اور اپنی نسلوں کو سمجھائیں۔ یہ نہ دیکھیں کہ چینلز پر کیا ہو رہا ہے بلکہ ایسا کریں کہ عوام سمجھ جائے کہ چینلز پر جھوٹ دکھایا جا رہا ہے اور بہت سے ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، پیر، مفتی و علماء سرکار ﷺ کے نام پر غیر سرکاری کام کر رہے ہیں۔
شہادت: میں گواہی دیتا ہوں کہ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے۔ قرآن کو تو مان لیں گے کہ اللہ کریم کی کتاب ہے لیکن حضور ﷺ اور مولا علی کے مُنکر ہیں کیونکہ کونسی صحیح اسناد اور راوی سے نماز روزے کی احادیث کی کتاب ہے ہیں کبھی نہیں بتائیں گے۔ اسلئے خود ہی نبی اور خود ہی علی، جو چاہیں قرآن کی تفسیر کر لیں اور جو چاہیں حدیث کہہ کر بغیر حوالے کے بیان کر دیں اور اہلسنت کی کسی بھی حدیث پر قانون و اصول سمجھے بغیرالزام لگا دیں۔ تحقیق یہ کہتی ہے کہ اہلتشیع کا دین کربلہ کے صدیوں بعد دین اسلام کے مقابلے میں نہروان کے باغیوں نے لانچ کیا ہے۔
اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے ۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت