ہماری فیملی
اس دور میں غلام اور لونڈی بنانے کا کوئی تصور نہیں ہے مگر دینِ اسلام میں قرآن و احادیث کے مطابق’’لونڈی اور غلام‘‘ بنانے کا تصور موجود ہے۔
مال غنیمت: دینِ اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی جب کوئی حکمران کسی دوسرے علاقے پر چڑھائی کرے تو فتح کے بعد جو بھی مال (مثلاً قیدی، اسل+حہ، دولت وغیرہ) اس کے ہاتھ آتا ہے اسے مال غنیمت کہتے ہیں۔ مال غنیمت میں تقسیم ہونے والے مرد کو غلام اور عورت کو لونڈی (slave) بنایا جاتا۔ آج کا بے وقوف مسلمان گھرمیں کام کرنے والی عورت کو لونڈی سمجھ کر ز نا کرنا ’’جائز‘‘ سمجھ رہا ہے۔
سلوک: کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ 1443 سال پہلے یہود و نصاری غلام اور لونڈی کا استعمال کیسے کرتے تھے؟ تاریخ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے:
دین اسلام کے آنے سے پہلے اورآنے کے بعد بھی تمام ’’ مذاہب‘‘ کے ماننے والوں نے ’’غلام اور لونڈی‘‘ سے وحشت ناک طریقے سے کام لیا، ظلم و ستم، سخت سزائیں اور کسی غلام اور کُتے کا مر جانا ایک برابر تھا۔ ایک لونڈی عورت کے ساتھ گندے، وحشیانہ، غلط طریقے کے ساتھ کئی کئی مرد ہوس پوری کرتے اور جوبچے پیدا ہوتے، وہ بیٹے نہیں بلکہ غلام ہی کہلاتے۔ غلاموں کو میلے ٹھیلے میں ہتھ یا ردے کرایک جنگلے میں قید کر کے ایک دوسرے کو مارنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا اورجو جیت جاتا اس پر تالیاں بجائی جاتیں لیکن آخر مرناتو اس کو بھی ہوتا تھا۔
فیملی سسٹم : دینِ اسلام نے 1443 سال پہلے غلام اور لونڈی کواپنی بیوی، بیٹی یا بہن کا درجہ دے کراُن کو اپنی فیملی کا حصہ بنایا جو کسی دین نے نہیں دیا۔ اس کی صرف چند مثالیں دیتے ہیں جیسے :
1۔ ابو داود 2998 سیدہ صفیہ اورابو داود 3931 سیدہ جویریہ کو غلامی سے آزاد کر کے حضور ﷺ نے دونوں کو اپنی بیوی بنایا اور وہ ہماری ’’مائیں‘‘ بن کر اہلِ بیت میں شامل ہو گئیں۔
2۔ مدینے میں تشریف لانے کے بعد حضورﷺنے عرب سرداروں کو آزاد کردہ غلاموں کا بھائی بنایا۔ سیدنا بلال کو خالد بن رویحہ، سیدنا زید کو سیدنا حمزہ اور سیدنا خارجہ بن زید کو سیدنا ابو بکر صدیق کا بھائی بنایا۔ تفصیل(1) ابن ہشام، السیرۃ النبویہ (بیروت) ج 2، ص 101 ۔ 103 (2) البلاذری، احمد بن یحی، انسا ب الاشراف (تحقیق محمد حمیداللہ (دارالمعارف مصر 1909)، ج1، ص 270، 271 (3) ابن حبیب، المحبر، ص 71 ۔ 70 (4) ابن سید الناس، عیون الاثر (دارالمعرفہ، بیروت)، ج1، ص 200 ۔ 202۔
3۔ حضورﷺ نے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب کا نکاح اپنے غلام سیدنا زید سے کیا۔ (سورہ احزاب 36 – 40)
4۔ صحیح بخاری 2517 غلام آزاد کرنے کا ثواب بیان ہوا۔ 2518 سب سے اچھا بہترین غلام آزاد کیا جائے۔ 2544 جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھی پرورش کرے اور اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔ 2545 تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں ان سے ایسا سلوک کرو جیسا اپنے بھائیوں سے کرتے ہو، وہ کھانا دوجیسا تم کھاتے ہو اورویسے کپڑے دو جیسے تم پہنتے ہو، ان کی غلطیاں معاف کر دیا کرو۔
5۔ غلام بکثرت آزاد کرنے کا حُکم جیسے بہت سے گناہوں اور قسم توڑنے کا کفارہ غلام آزاد کرنا، بیوی کو ماں بہن کہنے کا کفارہ غلام آزاد کرنا، مومن کو غلطی سے قتل کرنے کا کفارہ غلام آزاد کرنا، صحیح بخاری 2519 سورج اور چاند گرہن لگنے وغیرہ پر غلام آزاد کرنے کا حُکم ہوا۔
طریقہ کار: اسلام نے غلام کو آزاد کرنے کے دو طریقے (1) اَلعِتق (2) مکاتبت دئے:
العتق: اپنی مرضی سے غلام آزاد کرنا جیسے سیدنا ابو بکر، عثمان غنی، عبدالرحمان بن عوف اور بہت سے صحابہ کرام کثرت سے مومن ہوتا یا کا فر آزاد کرتے۔ صحابہ کرام نے کافروں کے پاس جو مسلمان غلام تھے ان کوآزاد کرایا لیکن اُن کو اپنا غلام نہیں بنایا۔ غلاموں کو اس طرح آزاد کرنے کا ’’قانون‘‘ اور مثالیں اگر کسی اور مذہب میں ہیں تو ضرور بتائیں۔
زکوۃ: اس سلسلے میں قرآن پاک نے زکوۃ کے پیسوں سے بھی ’’غلام‘‘ آزاد کرنے کا حُکم فرمایا کیونکہ دینِ اسلام کو انسانوں کی غلامی پسند نہیں تھی۔ (التوبة:60)
مکاتبت: اگر کوئی غلام مالک سے آزادی کا مطالبہ کرتا تو اس غلام کا’’ مالک‘‘ اس سے اس کی کمائی کے مطابق پیسوں کا مطالبہ کرتا اور وہ مقرر ہ رقم ادا کرنے پر آزاد ہو جاتا، اسطرح کی مثالیں تاریخ اسلام میں موجود ہیں۔ (صحیح بخاری 2560، 2561، 2562)
زبردستی: کوئی قوم ہار کر اسلام کو ’’دین‘‘ کی حیثیت سے قبول نہ کرتی تو اسلام ان سے جزیہ یعنی مخصوص ٹیکس لے کر ان کی حفاظت بھی کرتا اور ان کی عبادت میں دخل بھی نہ دیتا۔ (سورت التوبہ آیت 29)
حُکم: قرآن پاک نے غلام بنانے کا کہیں حُکم نہیں دیا لیکن غلام آزاد کرنے کاحُکم ضروردیا ہے۔ اسی طرح غزوۂ بدر، حُنین، بنی المصطلق، طائف اور فتح مکہ، نبی کریمﷺ نے غلام بنانے کے لئے نہیں بلکہ بنیادی طور پر اسلام کو سمجھانے کے لئے کئے۔
بہترین: غلاموں کے متعلق کسی مذہب میں کوئی قانون موجود نہیں ہے لیکن اگر ہے تو اُس کا موازنہ اسلام کے قانون سے کر لیں تودینِ اسلام کا قانون سب سے بہتر اور اعلی ہوگا۔
معاشرتی رسم و رواج: جب نبی کریمﷺ نے لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگایا تو اس وقت کے معاشرتی رسم و رواج میں شر ا ب، سود، ڈا کہ، ز نا، غلام اور لونڈی بنانے کی برائیاں موجود تھیں۔ نبی کریمﷺ نے اپنے ہی دور میں آہستہ آہستہ ان سب کرپشن کا بہت حد تک خاتمہ کیا۔ اِن برائیوں کو ختم کرنے کے لئے قرآن پاک نے جو سزائیں دینے کا حُکم دیا، اُس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی بھی چوری کرے گی تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حُکم دوں گا۔
سوال: کیا لونڈی کے ساتھ بغیر نکاح کے صحبت جائز تھی؟
جواب: مسلمان کیلئے اللہ کریم کے حُکم سے بڑھ کر کوئی حُکم نہیں ہے اس لئے قرآن فرماتا ہے:
1۔ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل نہیں کر سکو گے تو ایک بیوی رکھو یا اپنی باندیوں پرگذارہ کرو (النساء3) 2۔ دوسروں کی بیویاں تم پر حرام ہیں البتہ تمہاری باندیاں تم پر حرام نہیں (النساء24) 3۔ اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اپنی بیویوں اور باندیوں سے مباشرت کرنے میں ان پر ملامت نہیں ہے(المؤمنون 5-6، المعارج29-30)
* اُس وقت دنیا بھر کے مذہبی لوگ لونڈیوں کے ساتھ بغیر نکاح کے ہی صحبت کرتے تھے اور اسلام نے کا فروں کا قانون کا فروں کے حق میں اسی طرح جائز رکھا جیسا وہ دوسروں کے ساتھ کرتے تھے تاکہ مسلمان بد دل نہ ہوں لیکن انسانیت کے لحاظ سے حد درجہ ’’غلاموں‘‘ کو عزت دی۔
* اسلام نے آزاد عورت کیلئے نکاح میں ایجاب و قبول، گواہ، حق مہر’’ضروری‘‘ مگر باندی کے ساتھ نہیں کیونکہ لونڈی کو ہبہ یا فروخت کیا جاتا ہے اورمالک کو لونڈی سے صحبت کرنے کیلئے اجازت کی ضرورت نہیں تھی بلکہ نکاح کا مطلب ہی صحبت کرنا ہوتا ہے۔
* کسی کی لونڈی سے نکاح کرنا ہوتا تو پھر حق مہر وغیرہ اس کے مالک کی مرضی سے دینا پڑتا تھا۔ البتہ حاملہ لونڈی سے بچہ پیدا ہونے تک صُحبت نہیں کی جاتی تھی۔
عزت: اسلام نے انسان ہونے کی وجہ سے لونڈی کو سکون میں رکھا۔ کسی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ انہیں سب کے سامنے بے آبرو کرے۔ کوئی دوسرا مرد لونڈی کی عزت کو داغدار نہیں کر سکتا تھا بلکہ ان کو صرف ان کے مالکوں کے ساتھ منسوب کر دیا، اسلئے مالک جیسے آزاد عورت کی خوراک، کپڑے اور رہائش کا ذمہ دارتھا اس طرح لونڈی کی ضروریات کا بھی ذمہ دارتھا۔
* اگر کوئی لونڈی اپنے مالک کے’’ بچے‘‘ کی ماں بن جاتی تو اُس کو آزاد کر دیا جاتا اور بچہ بھی لونڈی کا نہیں مالک کا کہلاتا اوراُس بچے کی پرورش باپ کی ذمہ داری ہوتی۔
سوال: پچھلے دورمیں یا اس دور میں کشمیر، فلسطین، روہنگیا برما، عراق، افغانستان وغیرہ میں اگر کوئی کا فر ہماری بیٹیوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنائے، دس دس بندے ایک عورت کی عزت کی دھجیاں بکھیریں، اگر حمل ٹھر جائے تو بچہ بھی باپ قبول نہ کرے، ان عورتوں کو روٹی کپڑا بھی نہ دیا جائے تو یہ کس قانون میں ٹھیک ہے۔ اس لئے قانون کا موازنہ قانون سے کر کے بتائیں کہ کونسا قانون بہتر ہے؟
مثال: مسلمان عورتیں ’’لونڈیاں‘‘ بنتیں اورکافراُن پر دینِ اسلام والا قانون نافذکرتے تو:
* ہماری عورتوں کو بھی آزاد کیا جاتا جیسے مسلمانوں نے غلام آزاد کئے۔ کیا ایسا کبھی کیا گیا؟
* مکاتبت کے ذریعے پیسے دے کر آزاد کئے جاتے جیسے مسلمانوں نے قانون بنایا۔
* ہماری عورتوں کو روٹی، کپڑااور رہائش دی جاتی اور اسلام پر چلنے کی اجازت بھی دی جاتی۔
* البتہ مسلمان سمجھدار عورتیں اپنے کردار سے اپنے کافر مالک کو مسلمان ضرور بنا لیتیں۔
* بچہ پیدا بھی ہوجاتا تو کافر کا ہی ہوتا اور مسلمان عورت کا اس سے کوئی تعلق نہ ہوتا۔
* ہماری عورتیں کافروں سے آزاد ہونے کے بعد واپس آتیں تو ہم ان کومسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنی بیوی، بیٹی، ماں اور بہن کا ہی درجہ دیتے اور اُن کو ناپاک نہ سمجھتے۔
مذہب ہر مذہب میں ختم ہوگیا ہے ، اب ہر مذہبی انسان مذہب کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ مسلمان غور کریں:
اسلام نے مرد کو چارنکاح کرنے کی اجازت دی، عورت اور مرد کو طلاق دینے اور بار بار کسی دوسرے سے شادیاں کرنے کی اجازت دی حالانکہ طلاق کو پسند نہیں کیا مگرعورت اور مرد کوایک ساتھ مجبوراً رہنے کا حُکم نہیں دیا۔ اسلام کے قانون کے مطابق عورت کو مرد اور مرد کو عورت کی کمی نہیں تھی۔
گناہ کا راج: دینِ اسلام کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے مُلک پاکستان میں نکاح کو ذمہ داری کا نہیں بلکہ مزے کا کام سمجھا جاتا ہے، بیوہ عورتوں سے نکاح نہیں کیا جاتا، مطلقہ عورتوں کو داغی کہا جاتا ہے، باکرہ عورتوں کے نکاح نہیں ہو رہے ، جائیداد کیلئے لڑکیوں کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے، اگر لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر لے تو بے غیرتی کے نام پر قتل کر دی جاتی ہے، بیٹی پیدا ہونے پر مُنہ کالے پڑ جاتے ہیں، دوسرے نکاح کی عورت (بیوی) اجازت نہیں دیتی، ز نا کرنا آسان اور نکاح کرنا مشکل بن گیا ہے۔
مسلمان سے سوال ہے کہ لونڈی اور غلام کا مسئلہ تواسلام نے بہت حد تک ختم کرنے کیلئے قانون بنائے لیکن کیا ان معاشرتی برائیوں کوکرنے کا حُکم اسلام نے دیا؟ اپنی تاریخ اوراپنے دین سے بے خبر مسلمان دوسروں کی سوچ کے غلام ہوتے ہیں، اسلئے ہماری نسلیں اسلام کے متعلق غلط سوچ رہی ہیں ۔
سوال: تمام مذاہب اوراسلام کو بدنام کرنے والوں سے سوال ہے کہ اب لونڈی اور غلام کا مسئلہ نہیں ہے مگر لڑکے یا لڑکی کی دوستی، فاخشہ عورت، کلب میں ننگی ناچتی عورتیں کس مذہب کی پیداوار ہیں ؟ مردوں کی نظر میں ان کا مقام کیا ہے؟ کیا یہ عورتیں لونڈیوں سے بد تر نہیں، اسلام نے تو لونڈی کو بھی عزت دی مگر ان کو کیا عزت مل رہی ہے؟
مشورہ: اس پوسٹ کو شئیر نہ کریں بلکہ کاپی کر کے اپنی فیس بُک پر لگائیں اور سوشل میڈیا پر وائرل کریں۔
معاشی غلام: اب تو لونڈی کا مسئلہ نہیں بلکہ اب یہ رنڈی بازی پیشہ بن گیا ہے جس میں عورتیں خود کو بیچ کر پیسہ کما رہی ہیں۔ متعہ حلال اور نکاح حرام ہے۔ اسی طرح دینی جماعتوں نے ہمیں غلام بنا رکھا ہے حالانکہ مسلمان ایک ہیں جیسے
مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔
موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)
اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔
بے بنیاد: صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کا دین ایک ہے مگر اہلتشیع کی بنیاد پنجتن نہیں ہیں، بارہ امام نہیں ہیں، صحابہ کرام نہیں ہیں۔ کون ہیں یہ اہلتشیع؟؟ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔
البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟
تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت