سیدہ فاطمہ کی بہنوں کا تذکرہ
(اہلسنت اور اہلتشیع کی کتابیں)
قرآن اللہ کریم کا فرمان اور احادیث حضور ﷺ کے فرمان ہیں جن پر قرآن نازل ہوا۔ حضور ﷺ نے قرآن پر عمل کیا اور صحابہ کرام و اہلبیت کو سکھایا۔ حضور ﷺ کے بغیر ہمارا دین نامکمل ہے، اسلئے اہلتشیع حضرات سے ایک ہی سوال ہے کہ حضور ﷺ کو کونسی احادیث کی کتب سے مانتے ہو، مولا علی کی نماز روزے کی کونسی احادیث پر عمل کرتے ہو۔ قرآن کی تفسیراور احادیث کی کتب کا لنک بتائو تاکہ سب کو علم ہو کہ صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے والوں کا اہلبیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کا دین منگھڑت اور اہلسنت کی کتابوں سے چوری کیا گیا ہے۔
حضور ﷺ کی بیٹیوں کے متعلق یہ سب اہلسنت اور اہلتشیع کی کتابوں میں لکھا ہے۔ البتہ اگر اہلتشیع حضرات اپنی کتابوں کے مُنکر ہیں بلکہ دین اسلام کے مُنکر ہیں تو یہی بتا دیں کہ عُمروں کا تعیین اُس وقت کونسے کیلنڈر سے کیا جاتا تھا جیسے عام الحزن، عام الفیل تو اس سال میں کتنے مہینے اور مہینے میں کتنے ہفتے اور ایک ہفتے میں کتنے دن ہوتے تھے اور حج کے مہینے جو مشرکین بدل لیتے تھے تو کیلنڈر سے حساب کتاب کیسے کریں گے ورنہ کتابوں کے ساتھ ساتھ کیلنڈر کے بھی مُنکر ہو جائیں۔
پہلی بیٹی: حضرت زینب رضی اللہ عنھا
1۔ حضورﷺ کی عمر 30 سال تھی جب سیدہ خدیجہ کے بطن سے سیدہ زینب پیدا ہوئیں۔ البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 113 کے مطابق سیدہ زینب نے اپنی والدہ کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ سیدہ زینب کا نکاح سیدہ خدیجہ کی سگی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد کے شریف اور امانت داربیٹے سیدنا ابوالعاص سے ہوا، سیدنا ابوالعاص سیدنا علی کے ہم زلف بھی ہیں۔
2۔ ذخائر العقبی صفحہ 751 اور البدایہ والنہایہ کے مطابق حضورﷺ نے جب تبلیغ کی تو کافروں نے سیدنا ابوالعاص کو لالچ دیا کہ ہم تمہارا نکاح قبیلہ قریش کی عورت سے کر دیتے ہیں، تم حضرت محمد ﷺ کی بیٹی کو چھوڑ دو مگر جواب میں آپ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں اپنی بیوی سے ہر گز جدا نہیں ہو سکتا۔ البدایہ کے مطابق حضورﷺ کے معاشرتی بائیکاٹ اور شعب ابی طالب میں محصوری کے دوران، آپ ﷺ کے داماد سیدنا ابوالعاص، اُس وقت ایمان نہ لانے کے باوجود حضورﷺ کے کھانے وغیرہ کا بندوبست کرتے، جس پرحضورﷺنے فرمایا کہ ہماری دامادی کی بہترین رعایت ابوالعاص نے کی۔
3۔ غزوہ بدر کے دوران کفار کی طرف سے سیدنا ابوالعاص اور حضورﷺ کے چچا سیدنا عباس بھی قید ہوئے تو سیدہ زینب نے اپنے خاوند کی رہائی کے لئے وہ ہار بھیجا جو سیدہ خدیجہ نے بیٹی کو تحفہ دیا تھا، جس کو دیکھ کر حضورﷺ پر رقت طاری ہوئی اور صحابہ کرام سے مشورہ کیا، اگر تم کہو تو یہ ہار میں اپنی بیٹی کو واپس کر دوں اور ابوالعاص کو چھوڑ دوں۔ صحابہ کرام کی حالت بھی دیکھنے والی تھی اور روتے ہوئے عرض کی حضورلب کشائی کی بھی ہمت نہیں۔ حضورﷺ نے ابوالعاص کو چھوڑ دیا اور وعدہ لیا کہ مکہ واپس جا کر میری بیٹی کو میرے پاس بھیج دینا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 2 صفحہ 324، مسند احمد، ابو داود جلد 2 صفحہ 367، مشکوۃ، البدایہ والنہایہ)
4۔ مکہ واپس جا کر سارے حالات بتا کر سیدہ زینب کو اپنے بھائی کنانہ کے ساتھ مدینہ پاک کی طرف روانہ کیا، کفار کو علم ہوا تو وادی ذطوی میں حملہ کر کے سیدہ زینب کو نیزہ مارا جس سے آپ کا حمل ساقط ہو گیا، اونٹ پر رکھے کجاوے سے نیچے گر گئیں۔ کفار نے تیر چلاتے ہوئے کہا کہ ہمارے دشمن کی بیٹی کو سر عام لے کر جائے گا، اگر لے جانا ہے تو رات کے وقت لے جانا، اسپر چند دنوں بعد کنانہ نے مدینہ سے آئے سیدنا زید بن حارثہ کے ساتھ رات کے وقت نکل کر حضورﷺ کے پاس ان کی بیٹی کو پہنچایا۔ (البدایہ والنہایہ، زرقانی جلد 3 صفحہ 223)
5۔ سیدنا ابوالعاص شام کے علاقے میں کفار کے تجارتی قافلے کے ساتھ تھے، حضورﷺ نے سیدنا زید بن حارثہ کو قافلے کے پیچھے بھیجا، مقام عیص میں قافلہ ملا، کچھ لوگ پکڑے گئے، سیدنا ابوالعاص نے بھاگ کر سیدہ زینب کے پاس مدینہ میں پناہ لی جس پر حضرت ابوالعاص کا تجارتی مال بھی ان کو واپس کر دیا گیا۔ آپ واپس مکہ گئے اور سب کا سامان واپس کر کے مدینہ آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ اسطرح حضورﷺ نے میاں بیوی کو اکٹھا کردیا۔
6۔ مجمع الزوائد للہیثمی جلد 9 صفحہ 12، دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 2، صفحہ 436 میں لکھا ہے کہ حضورﷺ کے پاس جب بھی سیدہ زینب عنھا آتیں تو آپ ﷺ فرماتے کہ یہ میری بیٹی بہترین ہے جس کو میری وجہ سے ستایا گیا، یہ افضل بیٹی ہے جس کو میری وجہ سے روکا گیا ہے۔
7۔ سیدہ زینب کی اولاد میں ایک صاحبزادہ علی تھے جو حضورﷺ کے پاس پرورش پاتے رہے، فتح مکہ کے روزحضورﷺ نے ان کو اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ (اسد الغابہ لابن کثیر جلد 4 صفحہ 41، الاصابہ لابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 503)۔ ایک صاحبزادی جن کا نام اُمامہ بنت ابی العاص تھا جو حضورﷺ کی نماز کے دوران آپ ﷺ کے کاندھے پر سوار ہو گئیں اور آپ ﷺ نے ان کو سنبھالتے سنبھالتے نماز ادا کی۔ (صحیح بخاری 516، مسلم، ابو داود)
8۔ نبی کریمﷺ کے پاس ایک ہار آیا تو آپ ﷺ نے گھروالوں سے پوچھا یہ ہار کیسا ہے، سب نے کہا بہت خوبصورت ہے، آپﷺ نے فرمایا یہ اس کو دوں گا جو اہلبیت میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور پھر وہ ہار سیدہ امامہ کو دیا (اسدالغابہ، مجمع الزوائد للہیثمی، الاصابہ) سیدہ فاطمہ کے وصال کے بعد، ان کی وصیت کے مطابق سیدہ امامہ سے سیدنا علی نے نکاح کیا۔ یہ اہلسنت اور اہلتشیع دونوں کی کتابوں میں متفقہ طور پر بھی لکھا ہے۔ (الاصابہ جلد 3، صفحہ 433، انوارالنعمانیہ جلد 1، صفحہ 367)
9۔ سیدہ زینب مدینہ پاک آتے ہوئے حجرت ہبار بن اسود کے نیزہ سے زخمی ہوئی تھیں، وہ زخم تازہ ہو گیا جو ان کی وفات کا سبب بنا، اسلئے وہ شہیدہ بھی ہیں۔ ان کی وفات نے حضورﷺ کے ساتھ سب کو رُلایا، سیدنا عمر نے عورتوں کے رونے پر کچھ سختی کرنے کی کوشش کی تو حضورﷺ نے فرمایا: اے عمر سختی نہ کر اور عورتوں کو فرمایا کہ شیطانی آوازیں نکالنے سے پرہیز کرو پھر فرمایا: جو آنسو آنکھوں سے بہتے ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے تو یہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کی رحمت ہے۔ (مشکوۃ شریف صفحہ 152)
10۔ سیدتنا ام ایمن، سودہ اور ام سلمی رضی اللہ عنھم نے حضورﷺ کے فرمان کے مطابق بیری کے پتے ڈال کر، پانی اُبال کر، غسل کے بعد کافور کی خوشبو لگائی اور پھر حضورﷺ نے اپنا تہنبد دیا اور فرمایا یہ بھی حضرت زینب رضی اللہ عنھا کے کفن کے ساتھ رکھ دو (صحیح بخاری 1254 و مسلم 2173)۔ انساب الاشراف جلد 1 صفحہ 400 کے مطابق جنازہ حضورﷺ نے پڑھایا۔ قبر کے پاس بیٹھے رہے، قبر تیار ہوئی تو خود حضورﷺ قبر میں اُترے، واپس ہوئے تو چہرے سے غم کے آثارکم تھے۔ پوچھنے پر ارشاد فرمایا کہ میں اپنی بیٹی کے لئے قبر کی تنگی سے ڈر رہا تھا، قبر میں دعا کی تو اللہ کریم نے اسکے لئے آسانی فرما دی ہے (مجمع الزوائد للہیثمی جلد 3، صفحہ 47، کنزالعمال جلد 8، صفحہ120)۔
دوسری بیٹی: سیدہ رقیہ رضی اللہ عنھا
1۔ حضورﷺ کی عمر 33 سال جب سیدہ خدیجہ کے گھر سیدہ رقیہ پیدا ہوئیں۔ طبقات ابن سعد جلد 8، صفحہ 24 اور الاصابہ لابن حجر کے مطابق ”اعلان نبوت” پر ماں کے ساتھ ہی انہوں نے سات سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا۔ حضورﷺ نے سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتبہ اور عتیبہ سے کیا ہوا تھا، ابھی رُخصتی ہونی باقی تھی کہ تبلیغ کے دوران، ابولہب کی بکواس پر، سورت ابولہب نازل ہونے پر، ابولہب نے اپنے بیٹوں کو دھمکی دی کہ حضورﷺ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دو ورنہ تمہارا میرے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا حرام ہے اور دونوں بیٹوں نے دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دی۔ اللہ اکبر
2۔ اس کے بعد حضورﷺ نے مکہ مکرمہ میں اپنی بیٹی سیدہ رقیہ کا نکاح سیدنا عثمان غنی سے یہ فرما کر کیا کہ اللہ کریم نے مجھے وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح عثمان بن عفان سے کر دوں۔ (کنزالعمال جلد 6 صفحہ 375)۔ البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 66 کے مطابق اسی جوڑے نے حبشہ کی طرف جو پہلا قافلہ گیا اس کے ساتھ ہجرت کی۔ حبشہ سے ایک عورت آئی تو حضور ﷺ نے اُس سے ہجرت کرنے والوں کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ اے محمد ﷺ میں نے عثمان کو اپنی بیوی کے ساتھ سواری پر سوار جاتے ہوئے دیکھا تو حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی ان دونوں کا ساتھی ہو، سیدنا عثمان، ان لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے لوط علیہ السلام کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی۔
3۔ الاصابہ لابن حجر جلد 4 صفحہ 298 پر ہے کہ جب سیدنا عثمان کو علم ہوا کہ حضورﷺ مدینہ پاک ہجرت کرنے لگے ہیں تو پہلے اپنی بیوی کے ساتھ مکہ اور پھر بعد میں مدینہ ہجرت فرمائی۔ اسی طرح الغابہ جلد 5 صفحہ 456 میں ہے کہ حبشہ میں سیدنا عثمان کے گھر بیٹا عبداللہ پیدا ہوا، جو 6 سال کا ہو کر مدینہ منورہ میں انتقال کر گیا جس کی نماز جنازہ حضور ﷺ نے خود پڑھائی اورسیدنا عثمان نے قبر میں اتارا۔
4۔ صحیح بخاری 3130 سیدنا عثمان بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ ان کے نکاح میں حضور ﷺ کی ایک صاحبزادی تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ ان سے حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا بدر میں شریک ہونے والے کسی شخص کو ‘ اور اتنا ہی حصہ بھی ملے گا۔ البتہ حضور بدر میں ہی تھے کہ سیدہ رقیہ کا انتقال ہو گیا۔ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 25 کے مطابق حضور ﷺ جب غزوہ سے مدینہ واپس آئے تو جنت البقیع میں جا کر سیدہ رقیہ کی قبر پر دعا فرمائی۔ ایک روایت میں ایسا بھی آتا ہے کہ حضورﷺ پرسیدہ رقیہ کی تعزیت پیش کی گئی تو آپﷺ نے فرمایا: الحمد للہ شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے۔
تیسری بیٹی:سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنھا
1۔ حضورﷺ کی تیسری بیٹی سیدہ خدیجہ کے بطن سے جو سیدہ رقیہ سے چھوٹی تھیں اور اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 216، طبقات ابن سعد صفحہ 52 کے مطابق سیدہ ام کلثوم نے بھی اپنی والدہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا جیسا اوپر بیان کیا گیا۔
2۔ طبقات ابن سعد جلد 8، صفحہ 811 اور البدایہ لابن کثیر جلد 3 صفحہ 202 کے مطابق حضورﷺ نے ہجرت کی تو بعد میں آپﷺ نے سیدنا ابو رافع اور زید بن حارثہ جن کو سیدنا ابوبکر نے 500 درہم دئے تاکہ مکہ پاک سے ام المومنین سیدہ سودہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ کو مدینہ پاک لے کر آئیں پھر ان تینوں کی تشریف آوری مدینہ پاک ہوئی۔
3۔ المستدرک للحاکم جلد 4 صفحہ 94 پر ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں اپنی بیٹیوں کی اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کے نکاحوں کے فیصلے ہوتے ہیں“۔ سیدہ رقیہ کے وصال کے بعد سیدنا عثمان بڑے اداس تھے، نبی کریم ﷺ کے پوچھنے پر عرض کی کہ غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور جو قریبی رشتہ آپ سے تھا وہ بھی نہیں رہا۔ اس پر حضورﷺ نے تسلی دے کر فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ اللہ کریم نے حکم دیا ہے کہ جیسا حق مہر سیدہ رقیہ کا تھا اُسی پر ام کلثوم کا نکاح تجھ سے کر دوں۔ (ابن ماجہ 110، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 316، کنزالعمال جلد 6 صفحہ 573)
4۔ سیدہ ام کلثوم سے سیدنا عثمان کے گھر کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ سیرت حلبیہ جلد 4 صفحہ 44 پر ہے کہ ایک دن حضورﷺ سیدنا عثمان کے گھر گئے، وہ گھر نہیں تھے، بیٹی سے پوچھا کہ تم نے عثمان کو کیسا پایا تو انہوں نے عرض کی کہ ابا جان وہ بہت اچھے اور بلند رتبہ شوہر ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کیوں نہ ہوں وہ دنیا میں تمہارے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمہارے باپ سے بہت مشابہ ہیں۔ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 52 کے مطابق 9 ہجری کو سیدہ ام کلثوم بھی انتقال فرما گئیں جس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو ایک ایک کر کے اے عثمان تیرے نکاح میں دے دیتا۔ (مجمع الزوائد للھیثمی جلد 9 صفحہ 712) بعض روایات میں اس سے بھی زیادہ تعداد لکھی ہے۔
5۔ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 62، شرح مواھب اللدنیہ للزرقانی جلد 2 کے مطابق سیدہ ام کلثوم کا غسل اور کفن ہو چکا تو حضور ﷺ نے جنازہ پڑھایا۔ حضورﷺ جہاں سوگوار تھے تو سارا جہاں ہی اداس تھا۔
چوتھی بیٹی: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا
1۔ حضورﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی جن پر زہرا، بتول، زاکیہ، راضیہ، طاہرہ، بضعتہ الرسول کے لقب سجتے ہیں۔ مسلم جلد 2 صفحہ 29، الاستیعاب جلد 4 صفحہ 343 وغیرہ میں لکھا ہے کہ سیدہ فاطمہ حضور ﷺ کے ہرہر انداز سے مشابہت رکھتی تھیں۔
2۔ ذخائر العبقی المحب الطبری کے مطابق سیدنا علی سے نکاح جس کے گواہ سیدنا ابوبکر و عمر ہیں۔ تفسیر قرطبی کے مطابق اُس وقت سیدہ فاطمہ کی عمر 15 یا 18 برس تھی۔ سیدنا علی کی عمر 21 یا 24 سال تھی۔ نکاح کی تیاری سیدہ عائشہ نے کی، جہیز کے لئے سیدنا علی نے زرہ سیدنا عثمان غنی کو بیچی اور پھر جب واپس جانے لگے تو سیدنا عثمان نے زرہ بھی تحفے میں واپس کر دی، انہی پیسوں سے جہیز کا سامان لیا گیا۔
3۔ صحیح بخاری 3624 سیدہ فاطمہ مومنہ عورتوں کی جنت کی سردار ہیں۔ اورسیدہ فاطمہ کے فضائل میں کثیر احادیث میں سے چند ایک صحیح احادیث کی کتب صحیح مسلم 6261، 6307، 6312، ترمذی 3205، 3868، 3874، 3206، صحیح بخاری 3714، ابو داود 4213 میں موجود ہیں۔
4۔ اللہ کریم نے سیدہ فاطمہ کو تین بیٹے حضرت حسن و حسین، محسن اوردو بیٹیاں ام کلثوم، زینب رضی اللہ عنھم عطا فرمائے۔ صحیح بخاری 2881، 4071 سیدہ ام کلثوم کا نکاح سیدنا عمر فاروق جس پر اہلتشیع کے کتابیں بھی گواہ ہیں۔ سیدہ زینب کا نکاح سیدنا عبداللہ بن جعفر طیارسے ہوا۔ (نسب قریش صفحہ 52)
5۔ سیدہ فاطمہ شب بیدار، سخی، سب کے لئے دعائیں کرنے والی عظیم ہستی تھیں۔ سیدہ فاطمہ حضورﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد فوت ہو گئیں۔ بیماری سے پہلے آپ کی سیدنا ابوبکرکی بیوی سیدہ اسما بنت عمیس انجام دے رہی تھیں۔ البدایہ والنہایہ جلد 6 صفحہ 433 کے مطابق 28 یا 29 برس کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔
6۔ سیدہ اسماء نے دوسری عورتوں کے ساتھ آپ کو غسل دیا اور سیدنا علی بھی غسل کے دوران معاون تھے۔ (اسد الغابہ جلد 5، صفحہ 874، البدایہ و النہایہ جلد 6، صفحہ 333) سیدہ فاطمہ کا جنازہ سیدنا ابوبکرنے پڑھایا اور جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا۔ صل اللہ تعالی علی محمد و علی آلہ و ازواجہ و بناتہ و اصحابہ اجمعین۔
اہلتشیع اور حضورﷺ کی چار بیٹیاں
اکثر بے بنیاد مذہب والے رافضی کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی ایک بیٹی تھی، جب ان کی کتابوں کے حوالے دئے جائیں تو اپنی کتابوں سے مکر جاتے ہیں۔ اہلسنت کی صحاح ستہ کی طرح شیعہ مذہب کی بنیادی چار کتابیں ہیں جنہیں ”صحاح اربعہ “کہا جاتا ہے: (1) اصول کافی (2) من لا یحضر الفقیة (3) تهذيب الاحکام (4) الاستبصار، البتہ اصول کافی کا حوالہ ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم “ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی” ہیں جو 329ھ میں فوت ہوا۔ فارسی نہیں لکھی تاکہ بات لمبی نہ ہو۔
1۔ محمد بن یعقوب کلینی نے اس کتاب کی ” کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ ” میں ذکر کیا ہے کہ ” نبی اکرم ﷺ نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے جناب کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ يہ ہے قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد آپ ﷺ کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔” (اصول کافی ص 439 طبع بازار سلطانی تہران۔ ایران)
اس کے بعد اصول کافی کے تمام تر شارحین نے اس کی تشریح اور توضیح عمدہ طریقے پر کر دی ہے مثلاً مرآة العقول شرح اصول جو باقر مجلسی نے لکھی ہے اور ” الصافی شرح کافی “ ملا خلیل قزوینی نے لکھی ہے انہوں نے اس روایت کو بالکل درست کہا ہے۔ آج چودہویں صدی کے شیعہ علماءاپنی عوام کو ”بدھو بنانے کی غرض سے يہ کہہ کرجان چھڑا لیتےہیں کہ يہ روایت ضعیف ہے مگر آج تک شیعہ برادری ضعيف روایت کی معقول وجہ پیش نہیں کر سکی اور نہ قیامت تک کر سکتی ہے۔
2۔ مشہور شیعہ عالم ابو العباس عبدﷲ بن جعفری الحمیری اپنی کتاب ” قرب الاسناد” لکھتے ہیں ” حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنھا سے جناب رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ ذيل اولاد پیدا ہوئی ۔القاسم، الطاہر ،ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب رضی اللہ عنھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی علی رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور نبو امیہ سے ابو العاص بن ربیع نے زینب کے ساتھ شادی کی اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا فوت ہوگئیں پھر رسول ﷲ ﷺ نے اس کی جگہ رقیہ کا نکاح عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ ” (قرب الاسناد لابی العباس)
يہ اس کتاب کا حوالہ ہے جس کے مصنف کا دعوی ہے کہ میں جواب طلب مسئلہ ايک چٹھی پر لکھ کر درخت کی کھوہ میں رکھ دیتا تھا دو دن کے بعد جب جا کر ديکھتا تو اس پر امام غائب (شیعوں کے امام مہدی) کی مہر لگی ہوتی تھی چنانچہ حضرت شاہ عبد ﷲ العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس کتاب کا اصل نام ”قرب الاسناد الی صاحب الامر“ ہے (تحفہ اثناعشریہ ص245)
اسی کتاب کی اس روایت کو شیعہ مجتہدین نے اپنی اپنی تصا نیف میں بطور تائید نقل کیا ہے مثلاً باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد 2 ص 718 میں اور عباس القمی نے ”منتھی الآمال جلد 1 ص 108 میں اور عبدﷲ مامقانی نے ” تنقیح المقال“ کے آخر میں تائیداً ذکر کیا ہے۔
3۔ شیعہ مذہب کی نہایت قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی نے اپنی مايہ ناز کتاب ”کتاب الخصال“ کے اندر لکھتے ہیں۔” (رسولﷲ ﷺ نے فرمایا) ﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے کہ اس کے بطن سے میری اولاد ہوئی طاہر جس کو عبدﷲ کہتے ہیں اور وہی مطہر ہے اور خدیجہ سے ميرے ہاں قاسم ، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم او زینب پیدا ہوئيں۔” (کتاب الخصال للصدوق ص 375)۔
4۔ گیارھویں صدی ہجری کے شیعوں کے جلیل القدر محدث سید نعمت ﷲ الجزائری اپنی معروف کتاب ” انوار النعمانیة“ میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ الکبری رضی ﷲ عنہا سے نبی اقدس ﷺ کے ہاں دو صاحبزداے اور چار صاحبزدایاں پیدا ہوئیں ايک زینب دوسری رقیہ تیسری ام کلثوم اور چوتھے نمبر پر فاطمہ رضیﷲ تعالی عنھم۔
5۔ شیخ عباس قمی چودہویں صدی کے مجتہد شیعہ ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ "حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ سے رسول خدا ﷺ کی يہ اولاد متولد ہوئی۔ طاہر، قاسم ، فاطمہ، ام کلثوم، رقیہ اور زینب۔ آگے لکھتے ہیں۔” فاطمہ رضی ﷲ عنہا کی شادی حضرت علی رضیﷲ عنہ کے ساتھ ہوئی، زینب رضیﷲ عنہا کا ابو العاص رضیﷲ عنہ کے ساتھ نکاح ہوا جو بنو امیہ میں سے تھے اور ام کلثوم کا عثمان ابن عفان رضیﷲ عنہ سے نکاح ہوا جب ان کی وفات ہوئی تو رقیہ کی تزویج بھی عثمان رضی ﷲ عنہ سے کر دی۔ ” (منتھی الآمال للشیخ عباس فارسی طبع تہران)
6۔ شیعہ مذہب کے ايک اور مجتہد ملا باقر مجلسی اصفہانی اپنی کتاب لکھتے ہیں: حضرت خدیجہ رضیﷲ عنہا سے جناب رسول ﷺ کے ہاں پہلے فرزند عبدﷲ پیدا ہوئے جس کو طیب اور طاہر کے ساتھ بھی ملقب کیا جاتا ہے اور اس کے بعد قاسم متولد ہوئے اوربعض علماء کہتے ہیں قاسم عبدﷲ سے بڑے تھے اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں زینب رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ رضی ﷲ تعالی عنہن۔ (حیات القلوب ج 2 ص 728 طبع لکھنو)
يہ باقرمجلسی وہ ہیں جن کے متعلق خود خمینی نے لکھا کہ “ کتابہائی فارسی راکہ مرحوم مجلسی برائی مردم پارسی زبان نوشتہ نجوائید۔(کشف الاسرار) ترجمہ:وہ فارسی کتب جو مرحوم باقر مجلسی نے اہل فارس کےلئے لکھی ہیں انہیں پڑھو۔
7۔ شیعہ مذہب کے قدیم مورخ یعقوبی جو تیسری صدی ہجری میں گذرے ہیں وہ ”تاریخ یعقوبی“ میں رقمطراز ہیں: "جس وقت حضور اکرم ﷺ نے خدیجہ الکبری سے رشتہ قائم فرمایا تو آپ کی عمر مبارک 25 یا بعض کے مطابق 30 سال تھی اور بعثت سے پہلے جو نبی اقدس ﷺ کی جو اولاد پیدا ہوئیں وہ قاسم رقیہ زینب اور ام کلثوم تھی آپ کی بعثت کے بعد عبدﷲ جو دور اسلام میں پیدا ہونے کی بناء پر طیب وطاہر کے نام سے مشہور تھے) اور فاطمہ رضی ﷲ عنہا متولد ہوئیں۔”۔(تاریخ یعقوبی ج 2 ص 20)
8۔ شیعہ مذہب کے نزدیک حضرت علی المرتضی رضی ﷲ عنہ کے کلام کا مشہور ومستند مجموعہ کتاب”نہج البلاغہ“ ہے۔ حضرت علی المرتضی رضی ﷲ عنہ حضرت عثمان بن عفان رضی ﷲ عنہ کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ اے عثمان رضی ﷲ عنہ آپ رسول ﷲ ﷺ کے طرف حضرات ابو بکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے قرابت اور رشتہ داری میں زیادہ قریب ہیں اور آپ نے نبی پاک ﷺ کے ساتھ دامادی کا شرف پایا ہے جس ابو بکرو عمر رضیﷲعنہما نہیں پاسکے۔’ ’نہج البلاغہ“ کی عبارت ملاحظہ ہو۔” وانت اقرب الی رسولﷲ ﷺ شیجته رحم منهما وقدنلت من صهره مالم ینا لا الخ ” (نہج البلاغہ ص 303 جلد 1مطبوعہ تہران) اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ بھی حضرت عثمان رضیﷲ عنہ کو رسول ﷲ ﷺ کا حقیقی داماد قرار ديتے تھے وہ دامادی مشہور و معروف ہے یعنی سرکار طیبہ ﷺ کی دو صاحبزادیاں يکے بعد دیگرے آپ رضی ﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں۔
9۔ شیعہ عالم علی بن عیسیٰ”ازبلی“ نے ساتوں ہجری میں ايک کتاب لکھی جس کو شیعہ مذيب میں بڑی مقبولیت ملی اس کا نام ”کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ“ اس میں لکھا ہے کہ ” خدیجہ الکبری رضیﷲ عنہا حضور اکرم ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ تھیں جن کے ساتھ آپ ﷺ نے شادی کی اور آنجناب کی تمام اولاد (صاحبزادے، صاحبزادیاں) خدیجہ الکبری رضیﷲ عنہا ہی سے متولد ہوئیں مگر ابراہیم ماریہ قبطیہ رضیﷲ عنہا سے متولد ہوئے۔ "(کشف الغمہ)
10۔ علماءشیعہ کے معروف عالم شیخ عبدﷲ مامقانی رقمطراز ہیں:خدیجہ رضیﷲ عنہا سے آنجناب کی چار صاحبزادیاں پیداہوئیں تمام نے دور اسلام پایا اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی اور وہ زینب، فاطمہ، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔(تنقیح المقال ج 3 ص 73طبع لنبان)
دین چور: اہلتشیع عوام کی برین واشنگ کی گئی ہے اور یہی کہتے ہیں کہ اہلبیت کے دُشمن پے ۔۔ بے شمار حالانکہ اہلبیت کی شان صرف اہلسنت نے بیان کی ہیں اور اہلتشیع کے پاس حضور ﷺ، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی احادیث نہیں ہیں بلکہ یہ اہلسنت کی کتابوں کے چور نہیں بلکہ پورا دین چوری کیا ہوا ہے۔
کتابیں: اہلتشیع کی معتبر کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230 سال بعد (3,4) تہذیب الاحکام اور استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی ہیں۔ یہ اہلسنت کے محدثین کی احادیث سند و راوی بدل کر امام جعفر صادق سے منسوب کی ہیں اسلئے یہ حضور ﷺ کی احادیث بھی نہیں ہیں۔
اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں، دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا مگر دونوں جماعتیں بریلوی یا دیوبندی اپنے آپ کو اہلسنت کہلانا پسند کرتی ہیں مگر یہ دونوں نہیں بتاتیں کہ اہلسنت کون تھے؟ خلافت عثمانیہ والے یا سعودی عرب کے وہابی پلس اہلحدیث تقیہ باز گروپ جن کا اپنا امام جس نے تقلید کو بدعت و شرک کہا "غائب” ہے۔ دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث، وہابی کو توبہ کرنا ہو گی یا عوام کو حقائق سمجھنے ہوں گے۔
تحقیق: جس مرضی جماعت میں رہیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن قیامت والے دن اپنا جواب دینے کے لئے اپنی جماعت کی تحقیق کر لیں اور وہاں یہ نہ کہنا کسی نے بتایا نہیں تھا۔ البتہ ہم نے قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے اسلئے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بننا۔