سیدنا علی اور سیدنا عمر
عرب میں عمروں کے تعین سے نکاح نہیں ہوتے تھے بلکہ بالغ چھوٹی بڑی مرد و عورت کا نکاح آپس میں ہو جاتا تھا، ریکارڈ میں حضور ﷺ نے کس کس عمر میں نکاح کئے سب موجود ہے۔ اسطرح ایک رشتہ سیدنا عمر کا، سیدنا علی کی بیٹی، سیدہ ام کلثوم سے ہوا۔ اسلئے سیدنا عمر فاروق سیدہ فاطمہ کی بیٹی سیدہ ام کلثوم کے شوہر ہیں، سیدنا علی کے داماد اورسیدنا حسن وحسین کے بہنوئی ہیں۔ سیدہ ام کلثوم سے سیدنا عمر فاروق کا ایک لڑکا زید اور ایک لڑکی فاطمہ ہوئی۔ اہلتشیع اور اہلسنت کی کتابوں سے دلائل:
کتابیں: شیعہ کے ثقہ الاسلام ابو جعفر بن یعقوب بن اسحاق کلینی الرازی المتوفی 328 تا 329ھ اپنی کتاب "فروع کافى” کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو امام غائب مہدی المنتظر پر پیش کیا تو انہوں نے فرمایا: ھذا کاف لشیعتنا ” یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے”۔ملا خلیل شارح کافی اپنی کتاب الصافی شرح اصول کافی میں لکھتے ہیں: ’’ ہمارے علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ آثار صحیح اس پر دلالت کرتے ہیں کہ جو حدیث بھی کافی (اصول و فروع ) میں مروی ہے بالکل صحیح ہے۔ ‘‘ (الصافی: ص 36) ان دونوں وضاحتوں سے ثابت ہوا کہ شیعہ دنیا میں کافی (اصول و فروع) کو صحیح اور مستند کتاب اور اس کی احادیث کا انکار گویا امام کو جھٹلاتے کے مترادف ہے۔ اب حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے :
1۔ امام جعفر صادق سے جب بى بى ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح کے متعلق پوچھا گیا ( کہ اس کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیسے ہو گیا؟ تو فرمانے لگے کہ یہ ایک رشتہ ہم سے چھین لیا گیا تھا۔ ( فروع کافى باب تزویج ام کلثوم کتاب النکاح ج 5 ص 346)
2۔ جناب جعفر صادق کا بیان ہے کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ کا رشتہ طلب فرمایا تو آپ نے جواب میں فرمایا: وہ ابھی جوان نہیں ہوئی تو اس جواب کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے ملاقات کی اور دریافت کیا کہ کیا میں بیمار ہوں؟ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیوں کیا بات ہے؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے آپ کے بھتیجے (علی رضی اللہ عنہ) سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا ہے، انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ یاد رکھئے! اگر اس نے میری فرمائش پوری نہ کی تو میں تم سے آب زمزم کی انتظامی سربراہی واپس لے لوں گا اور تمہاری بزرگی ایک ایک کر کے ختم کر دوں گا اور علی رضی اللہ عنہ پر چوری کے دو گواہ قائم کر کے چوری کی حد میں اس کا داہنا ہاتھ کاٹ دوں گا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جذبات کی اطلاع کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی دختر ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے نکاح کا معاملہ میرے سپرد کر دو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ معاملہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا۔ ( فروع کافی: 5/ 346 طبع دار الکتب الاسلامیہ تہران)
3۔ عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے روایت ہے کہ ہم نے امام جعفر صادق سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت وفات کہاں گزارے؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں چاہے گزارے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ کیونکہ جب داماد علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔
4۔ سلیمان بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر بن صادق سے پوچھا کہ بیوہ عورت عدت وفات کہاں پوری کرے؟ اپنے شوہر کے گھر عدت پوری کرے یا جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے؟ آپ نے میرے جواب میں کہا: جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اور اپنی اس رائے کو مدلل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی دختر ام کلثوم ( زوجہ عمر رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔ ( فروع کافی: کتاب الطلاق 6/ 116)
5۔ شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی متوفی 460ھ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تہذیب الاحکام ‘‘ : عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے روایت ہے کہ ہم نے امام جعفر صادق سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت وفات کہاں گزارے؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں چاہے گزارے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ کیونکہ جب داماد علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔ ( تہذیب الاحکام، کتاب النکاح)
6۔ سلیمان بن خالد کہتے کہ میں نے حضرت جعفر صادق سے پوچھا کہ بیوہ عورت عدت وفات کہاں پوری کرے؟ اپنے شوہر کے گھر عدت پوری کرے یا جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے؟ آپ نے میرے جواب میں کہا: جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اور اپنی اس رائے کو مدلل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی دختر ام کلثوم ( زوجہ عمر رضی اللہ عنہ ) کے پاس تشریف لائے۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔ (تہذیب الاحکام: حوالہ مذکورہ )
درجہ استناد: فروع کافی کی روایات نمبر 3 و نمبر 4 کو ہم سے شیعہ کی صحاح اربعہ میں شامل کتاب ’’تہذیب الاحکام ‘‘ سے دوبارہ اس لیے نقل کیا ہے تاکہ قارئین کو ان روایتوں کے پائے کا علم ہو جائے کہ شیعی محدثین نے ان روایات کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ ان سے مسائل فقہیہ کا استخراج بھی کیا ہے۔
7۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت باقر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب اور اس کا بیٹا زید بن عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب دونوں ماں بیٹا ایک ہی وقت فوت ہوئے اور یہ علم نہ ہو سکا کہ ان دونوں سے میں سے کون پہلے فوت ہوا اور ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کا وارث نہ بن سکا اور ان دونوں کی نماز جنازہ بھی اکٹھی پڑھی گئی۔ (تہذیب الاحکام 9/ 262۔ 263)
8۔ عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ بیوہ عورت اپنی عدت کہاں پوری کرے؟ کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر عدت پوری کرے؟ کہا: جہاں چاہے عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھر سے اپنے گھر لے آئے تھے۔ (کتاب الاستبصار: باب المتوفى عنہا زوجہا ان تبیت عن منزلہا ام لا -( ج 3 ص 302)
9۔ سلمان بن خالد کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ بیوہ عورت اپنی عدت کہاں پوری کرے؟ کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر عدت پوری کرے؟ کہا: جہاں چاہے عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھر سے اپنے گھر لے آئے تھے۔(کتاب الاستبصار: باب المتوفى عنہا زوجہا ان تبیت عن منزلہا ام لا -(ج 3 ص 302)
10۔ قاضی نور اللہ شوستری شہید ثالث جو کہ گیارہویں صدی کے مشہور شیعہ مجتہد ہیں اپنی مایہ ناز کتاب مجالس المؤمنین میں فروع کافی میں لکھتے ہیں: ’’کتاب استغاثہ وغیرہ میں منقول ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اپنی خلافت کو ترویج دینے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا تو آپ نے دوبارہ حجت قائم کرنے کے لیے اس سے انکار کر دیا۔ آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا اور قسم کھا کر کہا کہ اگر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجھے اپنا داماد بنانے پر تیار نہ کیا تو مجھ سے جو کچھ ہو سکا کروں گا اور سقایہ حج اور زمزم کا منصب تجھ سے واپس لے لوں گا۔ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ معلوم کر لیا کہ یہ سخت آدمی اس ناروا معاملہ کو اسی طرح کرے گا جیسا کہ وہ کہہ کر رہا ہے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چمٹ کر التماس کی کہ اس مطہرہ مظلومہ کے نکاح کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیں۔ جب حضرت اس بارے میں حد سے گزر گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بصورت اکراہ خاموش اختیار کر لی یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ پھر اپنے آپ اس نکاح کے مرتکب ہوئے اور بھڑکنے والے فتنہ کی آگ کو بجھانے کی خاطر اس منافق ظاہر اسلام (عمر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ عقد کیا۔ (مجالس المومنین ج 1 ص 182، کشف الاسرار ص 39)
11۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح بڑی خوشی سے خود کیا، مہر وصول کیا اور بیٹی کو اپنے شوہر عمر رضی اللہ عنہ فاروق کی اتباع کی وصیت فرمائی۔ ‘‘ (ناسخ التواریخ ج 2 ص 296) مزید برآں یہ کہ خود قاضی صاحب موصوف اپنی اس کتاب ’’مجالس المومنین ‘‘ میں ایک دوسرے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس مجبوری کا خود بھی ذکر نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں:نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی عثمان رضی اللہ عنہ کو دی اور علی رضی اللہ عنہ ولی نے اپنی بیٹی عمر رضی اللہ عنہ کو دی۔ (مجالس المومنین ج 1 ص 204)
لطیفہ: شیعہ حضرات حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق کی دشمنی میں اس رشتہ کا انکار کرتے ہوئے اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم بنت علی کا رشتہ طلب کیا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک جن عورت کو اپنی بیٹی ام کلثوم کی صورت میں ڈھال کر عمر رضی اللہ عنہ سے بیاہ دیا تھا۔
تاویل: ام کلثوم نامی عورت جس کانکاح حضرت عمرسے ہوا وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھی۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دختر کا نام بھی ام کلثوم تھا، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام ام کلثوم نہ تھا اور پھر ’’تہذیب الاحکام ‘‘ کی وہ روایت جو پیش نظر مقالہ کی دلیل نمبر 7 میں ہے۔ اس کی کیا تاویل کرو گے؟ (ملاحظہ فرمائیے تہذیب الاحکام، کتاب المیراث)
اہلسنت کے دلائل
صحیح بخاری 2881، 4071: سیدنا عمر نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں۔ ایک عمدہ چادر بچ رہی۔ ان کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ حضرت ! آپ یہ چادر رسول اللہﷺ کی نواسی سیدنا علی کی صاحبزادی سیدہ ام کلثوم کو عنایت فرما دیجئے جو آپ کی بیوی ہیں۔ الفاظ یہ ہیں: یا امیر المؤمنین اعط ہذا بیت رسول اللہﷺ التى عندک۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر نے فرمایا: میری بیوی ام کلثوم کے مقابلہ میں بی بی ام سلیط اس چادر کی زیادہ مستحق ہیں۔ وہ انصاری عورت تھیں انہوں نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی تھی۔ امیر المؤمنین کہنے لگے: یہ بی بی ام سلیط رضی اللہ عنہا جنگ احد میں پانی کی مشکیں اپنی کمر پر لاد لاد کر ہمارے لیے لاتی تھیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں: سیدہ ام کلثوم سیدنا عمر فاروق کی بیوی تھیں، ان کی والدہ محترمہ کا نام فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ ہے، اسی لیے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہ ﷺ کہا، بی بی کلثوم رسول اللہ ﷺ کی حیات ہی میں پیدا ہوئی تھیں اور یہ سیدہ فاطمہ الزہراء کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری، باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو ص59)
نواب وحید الزمان اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ چادر حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کو اس خیال سے نہ دی کہ ان کی بیوی تھیں اور غیر عورت کو جس کا حق زیادہ تھا مقدم رکھا۔ ( تیسیر الباری ج 3 ص 108)
علامہ کرمانی صحیح بخاری کی اس حدیث شرح میں لکھتے ہیں کہ ام کلثوم فاطمہ بنت رسول اللہﷺ کی بیٹی ہیں جو رسول اللہ کی حیات میں پیدا ہوئی تھیں۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس محترمہ کار شتہ طلب کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ کو میری بیٹی پسند ہے تو میں نے اس کا نکاح آپ سے کر دیا۔ (کرمانی شرح البخاری حاشیہ صحیح البخاری ص403)
وضاحت: اہلتشیع سے سوال ہے کہ باغ فدک، غدیر خم، قرطاس، ثقلین، حدیث عمار، جمل و صفین اور دیگر مسائل کا تعلق مسلمانوں سے ہےکیونکہ یہ سب احادیث اہلسنت کی کتابوں میں لکھی ہیں اور اہلتشیع کہتے بھی ہیں کہ تمہاری کتابوں سے ہی ثابت کریں گئے۔ کیوں؟؟
رشتہ: اہلتشیع کا اہلبیت سے کیا رشتہ ہے؟ کیا اہلبیت یعنی سیدہ فاطمہ، مولا علی، سیدنا حسن و حسین نے ان کو یہ مقدمہ لڑنے کے لئے کہا تھا تو ثبوت دیں؟ ہمارے نزدیک تواحادیث کی کتابیں اہلسنت کی ہیں اور ان کا حق بنتا ہے کہ اس کی تشریح کریں کیونکہ اہلتشیع تو اپنی نماز حضور، سیدہ فاطمہ، سیدنا علی، حسن و حسین کی احادیث سے ثابت کر دیں تو بڑی بات ہے۔
دین چور: اہلتشیع عوام کی برین واشنگ کی گئی ہے اور یہی کہتے ہیں کہ اہلبیت کے دُشمن پے ۔۔ بے شمار حالانکہ اہلبیت کی شان صرف اہلسنت نے بیان کی ہیں اور اہلتشیع کے پاس حضور ﷺ، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی احادیث نہیں ہیں بلکہ یہ اہلسنت کی کتابوں کے چور نہیں بلکہ پورا دین چوری کیا ہوا ہے۔
کتابیں: اہلتشیع کی معتبر کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230 سال بعد (3,4) تہذیب الاحکام اور استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی ہیں۔ یہ اہلسنت کے محدثین کی احادیث سند و راوی بدل کر امام جعفر صادق سے منسوب کی ہیں اسلئے یہ حضور ﷺ کی احادیث بھی نہیں ہیں۔
اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں، دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا مگر دونوں جماعتیں بریلوی یا دیوبندی اپنے آپ کو اہلسنت کہلانا پسند کرتی ہیں مگر یہ دونوں نہیں بتاتیں کہ اہلسنت کون تھے؟ خلافت عثمانیہ والے یا سعودی عرب کے وہابی پلس اہلحدیث تقیہ باز گروپ جن کا اپنا امام جس نے تقلید کو بدعت و شرک کہا "غائب” ہے۔ دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث، وہابی کو توبہ کرنا ہو گی یا عوام کو حقائق سمجھنے ہوں گے۔
تحقیق: جس مرضی جماعت میں رہیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن قیامت والے دن اپنا جواب دینے کے لئے اپنی جماعت کی تحقیق کر لیں اور وہاں یہ نہ کہنا کسی نے بتایا نہیں تھا۔ البتہ ہم نے قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے اسلئے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بننا