حدیث یا سنت
قرآن کی تفسیر پیغمبر ﷺ ہیں جن کی بات حدیث کہلاتی ہے، حضور ﷺ نے اپنی زبان سے جوکچھ بیان کیا (قول)، عمل کیا (فعل) اور آپ ﷺ کے سامنے کوئی کام کیا گیا مگر آپ ﷺ نے اس کام سے منع نہیں کیا (تقریر)، اسلئے حضور ﷺ کے (1) قول (2) فعل اور (3) تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔
زیارت: حضور ﷺ کو ایمان کی حالت میں دیکھ کر ایمان کی حالت میں وصال کر جانے والے کو”صحابی“ اور صحابی کو ایمان کی حالت میں دیکھ کر اور ایمان کی حالت میں مر جانے والے کو”تابعی“ کہتے ہیں اور تابعی کو ایمان کی حالت میں دیکھ کر اور ایمان کی حالت میں مرنے والے کو”تبع تابعی“ کہتے ہیں۔
عادل: ہمارا عقیدہ ہے کہ حضور ﷺ کے تمام صحابہ کرام (صحابہ اور اہلبیت دونوں ایک دین پرہیں) عادل اور جنتی ہیں، اسلئے حضور ﷺ کی حدیث کو صحابی نے تابعی کو سکھایا اور تابعی نے تبع تابعین کو سکھایا۔ حضور ﷺ کے وصال کے بعد قرآن کو کتابی شکل صحابہ کرام نے دی، قانون بنائے، حضور ﷺ کی ۸۱ احادیث کی چھوٹی بڑی کتابیں پہلی دوسری صدی ہجری میں ملتی ہیں اور اُس کے بعد صحاح ستہ لکھی گئیں۔
دوسرا سبق: اب یہ دیکھنا ہے کہ ”متن حدیث“ اور ”سند حدیث“ کس کو کہتے ہیں، اب یہ حدیث غور سے پڑھیں: حدثنا "ابو الیمان قال اخبرنا شعیب قال حدثنا ابو الزناد عن الاعرج عن ابی ھریرہ” ان رسول اللہ قال "والذی نفسی بیدہ لا یؤمن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ“
حضور ﷺ کے فرمان کو ”متن حدیث کہتے ہیں جیسے اس حدیث میں متن یہ ہے ”قسم ہے اُس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی بھی ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک مجھے اپنے والد اور اولاد سے زیادہ محبت نہ کرے“ اور راویوں کا وہ سلسلہ جومتن حدیث تک پہنچائے، اُسے ”سند حدیث“ کہتے ہیں جیسے "ابوالیمان، شعیب، ابوالزناد، الاعرج،ابی ھریرہ” اس حدیث کے راوی ہوئے۔
حدیث کی پہلی تعریف:رسول اللہ ﷺ سے متعلق راویوں کے ذریعے سے جو کچھ ہم تک پہنچا ہے، وہ حدیث کہلاتا ہے۔ حدیث کو بعض دفعہ سنت، خبر اور اثر بھی کہا جاتا ہے۔اب حدیث کی سند کے حوالے سے اقسام یہ ہیں:
۱) مرفوع: جس حدیث کی سند حضور ﷺ تک پہنچتی ہو اس کو مرفوع حدیث کہتے ہیں۔
مثال: عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال: قال رسول الله ﷺ بني الاسلام على خمس (حديث البخاري كتاب الايمان) سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔
۲) موقوف: جس حدیث کی انتہا صحابہ کرام تک ہو اس کو موقوف کہتے ہیں جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
مثال :حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعرِفُونَ اَتُحِبُّونَ اَن يُّكَذَّبَ اللهُ ورسولُه بخاري باب من خَصَّ بالعلم قوماً دون قوم ترجمہ: لوگوں کو وہ چیز بیان کرو جسے وہ سمجھ سکیں کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے۔
۳) مقطوع: وہ حدیث جو حضور ﷺ اور صحابی سے منسوب نہ ہو بلکہ تابعی نے بیان کیا ہو
مثال: قول حسن بصري ’’صَلِّ وعليه بِدعَتُه‘‘ (بخاری باب امامۃ المفتون و المبتدع) ترجمہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھ لو اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا۔
نتیجہ: اس لئے حضور ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین کے قول و فعل و تقریر کو بھی حدیث کہتے ہیں مگر مرفوع، موقوف اور مقطوع جس کو سمجھ آ جائے۔
اہلسنت علماء: صحابہ کرام کے بعد اورمسلم و بخاری سے پہلے ”چار علماء“ حضرات نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ 80 ۔150)، مالک بن انس (93۔ 179)، محمد بن ادریس (امام شافعی 150۔ 204)، احمد بن محمد حنبل (165۔ 241 ھ) نے قرآن و سنت کے مطابق اپنی فقہ کی بنیاد رکھی اورامام جعفرکا دور(80 – 147ھ ) بھی یہی ہے اور یہ پانچوں قرآن و سنت پر تھے مگر ان کی فقہ کوئی نہیں ہے۔
کتابیں: صحاح ستہ کے محدثین کی تاریخ پیدائش اور وفات یہ ہے : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی) اور
امام جعف رسے منسوب کتابیں (1) الکا فی ابو جعفر کلینی 330ھ نے (امام سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ امام سے تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً امام سے 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔
نتیجہ: حضور ﷺ، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی احادیث اہلتشیع حضرات کے پاس نہیں ہیں اور امام جعفر سے منسوب کتابیں بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے، راوی ، سند اور متن تبدیل کر کے بے بنیاد دین بنایا گیا ہے۔
لفظوں کی پہچان (اصطلاحاتِ حدیث)
حضور ﷺ کے فرمان کو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا بلکہ محدثین سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ان کو ان الفاظ کے معنی آتے ہیں جیسے چند ایک:
راوی: وہ شخص جو سند کے ساتھ حدیث کو نقل کرے۔
طالبُ الحدیث: وہ شخص جو روایت، درایت، شرح اور فقہ کے اعتبار سے حدیث پڑھنے میں مشغول ہو۔
مُحَدِّث: وہ شخص جو علم حدیث میں روایۃ درایۃ مشغول ہو اور کثیر روایات اور ان کے راویوں کے حالات پر مطلع ہو۔ اسی طرح حافظُ الحدیث، حُجَّت فی الحدیث، حاکِم فی الحدیث وغیرہ کے ناموں کا علم ہو۔
کتب احادیث کی اقسام
صحیح: حدیث کی وہ کتاب جس کے مصنف نے صرف احادیث صحیحہ کا التزام کیا ہوجیسے: صحیح بخاری ومسلم۔
سُنَن: حدیث کی وہ کتاب جس میں محض احکام سے متعلق احادیث ہوں جیسے سنن ابوداود و نسائی۔
۔
حدیث کی اقسام
حدیث کی دو اقسام خبر متواتر اور خبر واحد ہیں۔
خبر متواتر: تواتر کا لغوی معنی ہے کسی چیز کا یکے بعد دیگرے اور لگاتار آنا۔ اس کا اصطلاحی معنی ہے کہ کسی حدیث کو اس قدر زیادہ لوگ بیان کرنے والے ہوں کہ عقل کے نزدیک ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو۔
خبر متواتر کے لیے شرط ہے کہ اس کے روایت کرنے والے کثیر ہوں، یہ کثرت سند کے تمام طبقات میں پائی جائے یعنی ابتدا سے انتہا تک راوی کثیر ہوں، یہ کثرت اس درجہ کی ہو کہ ان کا عادۃً جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو، اس خبر کی سند کی انتہا احساس اور مشاہدہ پر ہو۔ خبر متواتر علم ضروری کا فائدہ دیتی ہے جس کی تصدیق سننے والا غیر اختیاری طور پر کرتا ہے، گویا کہ اس نے اس کا خود مشاہدہ کر لیا ہو۔ اسی طرح خبر متواتر لفظی، خبر متواتر معنوی، خبر واحد اور خبر واحدی کی تین قسمیں ہیں:(1) مشہور (2) عزیز(3) غریب
قوت اور ضعف کے اعتبار سے حدیث کی تقسیم
خبر الآحاد یعنی مشہور، عزیز اور غریب کی قوت اور ضعف کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں: مقبول اور اس کی اقسام صحیح لذاتہ، صحیح لغیرہ، حسن لذاتہ، حسن لغیرہ ہیں۔
اسی طرح مردود، حدیث ضعیف، حدیث معلق، حدیث مرسل، حدیث معضل،حدیث منقطع، حدیث مدلّس، حدیث مرسل خفی، حدیث معنعن، راوی میں طعن، حدیث موضوع، حدیث متروک، حدیث منکر، حدیث معروف،حدیث شاذ اور حدیث محفوظ، حدیث معلل،
حدیث مدرج، حدیث مقلوب،حدیث مضطرب،حدیث مصحف، مجہول راوی، مبہم راوی،
بدعتی راوی، حدیث مسند، حدیث متصل وغیرہ بھی احادیث کی قسمیں ہیں۔
حقیقت: اہلتشیع کا دین پنجتن والا نہیں ہے۔ اگر اہلتشیع سمجھتے ہیں تو اپنی کتابوں سے ثابت کریں مگر اہلسنت کی احادیث کی کتابوں سے نہیں کیونکہ ان کتابوں کی شرح اہلسنت کریں گے۔
جھوٹ: دیوبندی اور بریلوی کوئی دو مسلک نہیں ہیں بلکہ خلافت عثمانیہ والے ایک مکتبہ فکر کے ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دیوبندی و بریلوی دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث جماعت کے نزدیک بدعت و شرک ہے۔ حقیقتا اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء غلطی پر ہیں اور ان کی وجہ سے مسلمان رافضیت کی طرف جا رہے ہیں۔ آپس میں علماء بیٹھیں گے نہیں۔
تحقیق: اسلئے ہم عوام کو سمجھا رہے ہیں کہ جس مرضی جماعت میں رہیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن قیامت والے دن اپنا جواب دینے کے لئے اپنی جماعت کی تحقیق کر لیں اور وہاں یہ نہ کہنا کسی نے بتایا نہیں تھا۔ البتہ ہم نے قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے اسلئے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بننا۔