سیدنا ابوہریرہ
ہجرت: سیدنا ابوہریرہ خود بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ خیبر تشریف لے گئے اور میں ہجرت کرکے مدینہ پہنچا (سیراعلام النبلاء ج 3 ص 518)
قبول اسلام: سیدنا ابوہریرہ کے قبیلہ کے ایک آدمی طفیل بن عمرو دوسی نے ہجرت عظمی سے پہلے مکہ میں اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے وطن یمن واپس آکر اپنے قبیلہ دوس کو اسلام کی دعوت دی اور غزوہ خیبر کے زمانہ میں یمن سے 80 افراد کو لے کر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے، لیکن آپ تشریف لے گئے تھے۔ پھر یہ حضرات بھی خیبر پہنچے۔ اسی وفد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے،انہوں نے بھی نبی کریم ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ (سیرالصحابہ ج 2 ص 50)
علمی ذوق: سیدنا ابوہریرہ نے ایک سوال کیا ”من اسعدالناس بشفاعتک ”کہ قیامت کے دن کون خوش نصیب آپ کی شفاعت کا زیادہ مستحق ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری حرص حدیث دیکھ کر میرا پہلے سے خیال تھا کہ یہ سوال آپ سے پہلے کوئی نہیں کرے گا۔ (الاصابۃ ج 4 ص 2388)
مقام: سیدنا ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ابوہریرہ علم کا ظرف اور برتن ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ج 3 ص 521) سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (علم کے) دو برتن یاد کیے۔ (صحیح بخاری کتاب العلم، الاصابۃ ج 4 ص 2391، سیراعلام النبلاء ج 3 ص 521) سیدنا ابوہریرہ اس نعمت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں اصحاب محمد ﷺ میں سے کسی کو مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد نہیں سوائے سیدنا عبداللہ بن عمر کے کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ج 3 ص 522) سیدنا ابن عمر فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ مجھ سے بہتر ہیں اور جو بیان کرتے ہیں اس کو زیادہ جانتے ہیں۔ (الاصابۃ ج 4 ص 2391) ابو صالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اصحاب محمد ﷺ میں سب سے بڑے حافظ الحدیث تھے۔ (سیر اعلام النبلاء ج 3 ص 521، الاصابۃ ج 4 ص 2388) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے کسی کو میں نہیں جانتا جن کو مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد ہوں۔(سیر اعلام النبلاء ج 3 ص 522) حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے ہمعصروں میں سب سے زیادہ حدیث جاننے والے تھے اور حفاظ حدیث میں سب سے بڑے حافظ الحدیث تھے۔ (الاصابۃ ج 4 ص 2388)
کثرت روایت کا سبب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ احادیث کثرت سے بیان کرتے تھے تو بعض لوگوں نے کہا کہ ابوہریرہ تو کثرت سے حدیثیں بیان کرتا ہے (جبکہ مہاجر اور انصار ان حدیثوں کو بیان نہیں کرتے) تو آپ نے ان لوگوں کو یہ جواب دیا: میں مسکین آدمی تھا اور پیٹ بھرنے کے بعد رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتا تھا لیکن مہاجرین بازاروں میں اپنے کاروبار میں مشغول رہتے تھے اور انصار اپنے اموال کی دیکھ بھال میں۔ میں ایک دن نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میری بات ختم ہونے تک اپنی چادر کو پھیلالے پھر اپنے سے ملالے تو جو کچھ اس نے مجھ سے سنا اس کو کبھی نہیں بھولے گا۔میں نے اپنی چادر کو پھیلا لیا۔ اس ذات کی قسم جس نے آنحضرت ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے پھر کبھی میں آپ کی کوئی حدیث جو آپ سے سنی تھی نہیں بھولا۔ (صحیح بخاری 7354 )
حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ ہم مسجد میں اللہ کا ذکرکر رہے تھے ۔نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئےپھر فرمایا اپنا کام جاری رکھو۔ حضرت زید فرماتے ہیں کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے دعا کی تو رسول اللہ ﷺ نے ہماری دعا پر آمین کہی۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی:انی اسئلک مثل ما سال صاحباک واسالک علما لاینسی( اے اللہ میں اس چیز کا بھی سوال کرتا ہوں جس کا میرے ساتھیوں نے کیا اور مزید مجھے ایسا علم عطافرما جو کبھی نہ بھولے۔فقال رسول اللہ آمین فقلنا یارسول اللہ ونحن نسالک علما لاینسی فقال سبقکم بھا الغلام الدوسی” تو رسول اکرم ﷺ نے آمین فرمائی۔ ہم نے رسول اکرم ﷺ سے عرض کی کہ ہم بھی ایسے علم کا اللہ سے سوال کرتے ہیں جو کبھی نہ بھولے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دوسی[اشارہ ابو ہریرہ کی طرف] تم دونوں سے سبقت لے گیا۔(الاصابۃ ج 4 ص 2391، سیر اعلام النبلاء ج 3 ص 522)
امتحان: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کثرت روایت کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں کچھ شکوک وشبہات پیدا ہوگئے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ مروان نے امتحان کی غرض سے آپ کو بلوایا۔ مروان نے اپنے کاتب أبو الزعيزعةکو اپنے تخت کے پیچھے بیٹھا دیا۔ أبو الزعيزعةکہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں بیان کرتے رہے اور میں لکھتا رہا۔ مروان نے پھر سال کے شروع میں حضرت ابو ہریرہ کو دوبارہ بلوایا اور مجھے پردہ کے پیچھے بیٹھایا آپ رضی اللہ عنہ سے انہیں حدیثوں کے دوبارہ سنانے کی فرمائش کی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسی ترتیب سے سنائیں، کمی کی نہ زیادتی، مقدم کو موخر کیا نہ موخر کو مقدم تو میں نے حافظہ کی تصدیق کردی۔ (سیر اعلام النبلاء ج 3 ص 522)
حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:لا اشک ان اباہریرۃ سمع من رسول اللہ مالم نسمع (مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابوہریرہ نے جو رسول اکرم ﷺ سے وہ احادیث سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں۔) (الاصابۃ ج 4 ص 2391)
نکاح: آپ نے حضرت عتبہ بن غزوان کی بہن بسرہ بنت غزان سے نکاح کیا۔ پہلے آپ ان کے ہاں ملازم تھے بعد میں ان ہی سے نکاح ہو گیا۔ یہ شادی بھی صحیح قول کے مطابق عہد رسالت کے بعد کی تھی۔
اولاد: آپ کو اللہ نےتین بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی۔ بیٹوں کے نام یہ تھے۔ محرر، عبد الرحمن، بلال،اور بیٹی کا نام کسی راویت سے معلوم نہیں ہو سکا البتہ اتنا پتہ چلتا ہے کہ ان کا نکاح رئیس التابعین حضرت سعید بن مسیب سے ہوا تھا۔بعض علماء نے حضرت ابو ہریرہ کے ایک چوتھے بیٹے محرز کا بھی ذکر کیا ہے۔
سفر آخرت: آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو وہ رونے لگے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا:من قلۃ الزاد وشدۃ المفازۃ ( زادراہ کم ہے سفر طویل ہے)
تعداد مرویات: کل روایات 5374 ہیں،جن میں سے 326 متفق علیہ یعنی بخاری اور مسلم دونوں میں ہیں۔ جو روایات صرف بخاری میں ہیں ان کی تعداد 93 اور جوصرف مسلم میں ہیں وہ 98 ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ج 3 ص 534)
مرویات ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں سے چند روایات
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا مجھ پر درود بھیجو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود مجھ پر پہنچایا جاتا ہے۔ (سنن ابی داؤد ج 1 ص 295)
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں مرد کا اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھناسنت ہے۔
(الاوسط للامام المندر ج 3ص 94، سنن الدارقطنی ج 1 ص 288، مؤطا امام مالک ص ۶۹، موطا امام محمد ص ۹۵)
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ نے جہری نماز جس میں امام بلند آواز سے قرأت کرتاہے ،سے فارغ ہوئے تو مڑکرفرمایا تم میں سے کس نے میرے پیچھے قرآن مجید پڑھا ہے؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا میں نے یارسول اللہ! آپ نے فرمایا ’’ میں بھی کہوں کہ میرے ساتھ کیوں قرآن کا جھگڑاہورہا ہے؟ اس کے بعدلوگ رسول اللہ کے ساتھ نماز میں قرآن مجید پڑھنے سے رک گئے۔
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى اور دوسری رکعت میں قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور تیسری رکعت میں قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور معوذتین پڑھتے تھے۔(مجمع الزوائد ج 2 ص 506 ،505)
5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے فجر کی دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں تو وہ انہیں سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے۔(جامع الترمذی ج 1ص96 )
تعداد تلامذہ:احادیث نبوی ﷺ کے عظیم الشان ذخیرہ کی مناسبت سے آپ کے تلامذہ کا دائرہ وسیع تھا۔ صحابہ اور تابعین تلامذہ کی تعداد 800سے بڑھ جاتی ہے۔ (سیر اعلام النبلاء ج 3 ص517، الاسیتعاب ص 852، البدایہ والنہایہ ج 4 ص 498)
تاریخ وفات: آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں تین قول (1) 57 ہجری (2) 58 ہجری (3) 59 ہجری ہیں۔ 78 سال کی عمر پائی۔(الاستیعاب ص 852، سیراعلام النبلاء ج 3 ص 531)
نماز جنازہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ حضرت ولید بن عقبہ نے نماز عصر کے بعد پڑھائی ،جس میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ بھی شریک تھے۔ (سیراعلام النبلاء ج 3 ص 532، الاستیعاب ص 852، الاصابہ ج 4 ص 2393)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمات
(1 اصحاب صفہ میں سے شامل ہیں۔
(2) عمرة القضاء میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔
(3) اہل بحرین کے قبول اسلام کے بعد علاء بن الحضرمی کو عامل بنا کر بھیجا تو ان کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی بھیجا۔ اور حضرت علاء بن الحضرمی کو تاکید فرمائی کہ ابو ہریرہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
(4) 9 ہجری میں حضور اکرم ﷺ نے تین سو صحابہ کا قافلہ حج کے لئے روانہ فرمایا۔ اس میں حضور ﷺ کے حکم سے عام اعلان کروایا گیا کہ آئندہ کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کر سکے گا۔ صحابہ کی جو جماعت یہ اعلان کی خدمت سرانجام دے رہی تھی اس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے۔
(5) حجة الوداع میں حضور ﷺکے ساتھ آپ نے بھی حج ادا فرمایا۔
(6) غزوہ وادی القری محرم 7 ہجری میں آپ نے حضورﷺ کے ساتھ شرکت فرمائی۔
(7) غزوہ ذات الرقاع میں حضورﷺ کے ساتھ شامل رہے۔
( فتح مکہ میں شامل رہے۔ (9) غزوہ حنین میں شامل رہے۔ (10) غزوہ تبوک میں شامل رہے۔
(11) راویات سے حضرت ابو ہریرہ کا بعض سرایا میں بھی شرکت کاپتہ چلتا ہے۔ ( سریہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں حضور ﷺ خود تو شامل نہیں تھے لیکن آپ نے صحابہ کی ایک جماعت بھیجی ہو۔ اور غزوہ وہ کہلاتا ہے جس میں آپ ﷺ خود شامل ہوں)
(12) عہد صدیقی میں فتنہ ارتداد کو ختم کرنے میں پیش پیش رہے۔
(13) عہد فاروقی میں یرموک کے جہاد میں آذربائیجان اور آرمینیہ کے جہاد میں شرکت کی۔
(14) حضرت عمر نے قدامہ بن مظعون کی معزولی کے بعد حضرت ابو ہریرہ کو بحرین کا عامل مقرر کیا۔
(15) عہد عثمانی میں بھی آذر بائیجان اور آرمینیہ کے جہاد میں شامل رہے۔
(16) عہد عثمانی میں جب باغیوں نے ان کا محاصرہ کیا تو حضرت ابو ہریرہ حضرت عثمان کی حمایت اور نصرت میں پیش پیش رہے۔
(17) عہد مرتضی میں مسلمانوں میں پیش آنے والی جنگیں جمل اور صفین سے بالکل کنارہ کش رہے۔
(18) حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے جب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگئے تو حضرت ابو ہریرہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کر لی۔
(19) حضرت ابو ہریرہ نے کوہ طور کا سفر بھی کیا قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان غنی کے دور خلافت میں 32 ہجری سے پہلے کسی وقت وہاں گئے۔
الزام: اہلتشیع دھرم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جھوٹے الزام لگائے کہ اس کے باپ کا علم نہیں، اس نے سب سے زیادہ احادیث گھڑی ہیں۔
غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے حالانکہ ایسا کہنا وہابی پلس اہلحدیث کے نزدیک زیادتی ہے۔
وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔