بھکاری اور بھیک
صحیح بخاری 1469: انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ ﷺ نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ ﷺ کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہو گیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال و دولت ہو تو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا۔ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بےنیاز بنا دیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بےپایاں خیر نہیں ملی۔ (صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے)۔
وظیفہ: حدیث کے ان الفاظ پر عمل کرنے سے ایک مسلمان متوکل، صابر اور اللہ الصمد کی تجلی میں پناہ حاصل کر سکتا ہے۔
صحیح بخاری 1470: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے (پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آ کر سوال کرے۔ پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔
صحیح بخاری 1471: نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اگر (ضرورت مند ہو تو) اپنی رسی لے کر آئے اور لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے۔ اور اسے بیچے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو محفوظ رکھ لے تو یہ اس سے اچھا ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے ‘ اسے وہ دیں یا نہ دیں۔
وظیفہ: کوئی دال چاول لگائے، سٹے لگائے، بھلیاں لگائے، ریڑھی لگائے یہ سب وہ لوگ ہیں جو ان احادیث پر عمل کر کے نبی کریم ﷺ کا فیضان پاتے ہیں۔
صحیح بخاری 1475: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آدمی ہمیشہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرا بھی گوشت نہ ہو گا۔
سزا: اللہ کریم کو چھوڑ کر غیر اللہ کے در پر پڑا رہنے والے کی سزا یہی ہے۔
صحیح بخاری 1429: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کہ آپ منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے صدقہ اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے کا اور دوسروں سے مانگنے کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والے کا ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے والے کا۔
طریقہ: اگر کسی نے کسی کو صدقہ دینا بھی ہو تو اپنا ہاتھ نیچا رکھا کرے تاکہ سوال کرنے والے کا ہاتھ اوپر آئے اور دینے والا ثواب پائے۔
صحیح مسلم 2389: رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے: ”میں تو فقط خزانچی ہوں پھر جس کو میں دل کی خوشی سے دوں (یعنی بغیر سوال اور لجاجت سائل کے) تو اس میں اس کو برکت ہوتی ہے اور جس کو میں مانگنے سے اور اس کے ستانے سے دوں اس کا حال ایسا ہے کہ گویا کھاتا ہے اور پیٹ نہیں بھرتا۔“
خوشی: بے شک اگر کسی کو بغیر سوال کے دیا جائے تو برکت بھی ہوتی ہے اور جس کو تنگ ہو کر دیا جائے تو مشکل بھی ہوتی ہے۔ اپنے اردگرد کا خیال رکھ کر خود فیصلہ کیا کریں کہ کس کی مدد کرنی ہے اس سے پہلے کہ وہ آپ سے مانگے۔
صحیح مسلم 2394: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں ہے جو ایک دو کھجور یا ایک دو لقمہ لے کر لوٹ جاتا ہے مسکین وہ ہے جو سوال نہیں کرتا تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا» ”وہ لوگوں سے مانگتے نہیں لپٹ کر۔“ (۲-البقرۃ:۲۷۳)
مسکین: مسکین کی نشانی وہ ہے کہ ضرورتمند بھی ہے مگر اپنے امیر دوست سے سوال نہیں کرتا کیونکہ اس کو لپٹ لکر مانگنا آتا ہی نہیں۔ اللہ کریم ہمیں بھی ایسا مسکین بنائے۔
نسائی 2591: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مجھے ایک بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کچھ نہ مانگے تو اس کے لیے جنت ہے۔
ضرورت: ضرورت بھی ترسے کہ کاش یہ مجھے ضروری سمجھ کر ہی کسی سے سوال کرے مگر بندہ جنت کے لئے ضرورت کو بھی ہرا دے۔
نسائِ 2599: دو شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، دونوں آپ سے صدقہ مانگ رہے تھے، تو آپ نے نگاہ الٹ پلٹ کر انہیں دیکھا (محمد کی روایت میں (نگاہ کے بجائے) اپنی نگاہ ہے تو دونوں کو ہٹا کٹا پایا، تو آپ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو لے لو، (لیکن یہ جان لو) کہ مالدار اور کما سکنے والے شخص کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں ہے“۔
زکوۃ: ہٹے کٹے اور جو محنت کر سکتے ہوں ان کو زکوۃ کا پیسہ نہ دیں کیونکہ اب لینے والے یہ خیال نہیں کر رہے کہ ہم کیا لے رہے ہیں۔
ابو داود 1639: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”سوال کرنا آدمی کا اپنے چہرے کو زخم لگانا ہے تو جس کا جی چاہے اپنے چہرے پر (نشان زخم) باقی رکھے اور جس کا جی چاہے اسے (مانگنا) ترک کر دے، سوائے اس کے کہ آدمی حاکم سے مانگے یا کسی ایسے مسئلہ میں مانگے جس میں کوئی اور چارہ کار نہ ہو“۔
حل: اس میں رسول اللہ ﷺ نے حل بھی بتا دیا اور سزا بھی بتا دی ہے باقی ہر ایک کی اپنی اپنی سمجھ ہے۔
ابو داود 1640: قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک قرضے کا ضامن ہو گیا، چنانچہ (مانگنے کے لے) میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: ”قبیصہ! رکے رہو یہاں تک کہ ہمارے پاس کہیں سے صدقے کا مال آ جائے تو ہم تمہیں اس میں سے دیں“، پھر فرمایا: ”قبیصہ! سوائے تین آدمیوں کے کسی کے لیے مانگنا درست نہیں: ایک اس شخص کے لیے جس پر ضمانت کا بوجھ پڑ گیا ہو، اس کے لیے مانگنا درست ہے اس وقت تک جب تک وہ اسے پا نہ لے، اس کے بعد اس سے باز رہے، دوسرے وہ شخص ہے جسے کوئی آفت پہنچی ہو، جس نے اس کا مال تباہ کر دیا ہو، اس کے لیے بھی مانگنا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا سرمایہ پا جائے کہ گزارہ کر سکے، تیسرے وہ شخص ہے جو فاقے سے ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند آدمی کہنے لگیں کہ فلاں کو فاقہ ہو رہا ہے، اس کے لیے بھی مانگنا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا مال پا جائے جس سے وہ گزارہ کر سکے، اس کے بعد اس سے باز آ جائے، اے قبیصہ! ان صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے، جو مانگ کر کھاتا ہے گویا وہ حرام کھا رہا ہے“۔
نتیجہ: کسی کی ضمانت دی، ضمانت دینے والا مکر گیا، فاقہ کرنے والے کی بھی گواہی لینی چاہئے کیونکہ خواہ مخواہ پیسہ ضائع نہیں کرنا۔
ابو داود 1641: ایک انصاری نبی اکرم ﷺ کے پاس مانگنے کے لیے آیا، آپ نے پوچھا: ”کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟“، بولا: کیوں نہیں، ایک کمبل ہے جس میں سے ہم کچھ اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالا ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ دونوں میرے پاس لے آؤ“، چنانچہ وہ انہیں آپ کے پاس لے آیا، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: ”یہ دونوں کون خریدے گا؟“، ایک آدمی بولا: انہیں میں ایک درہم میں خرید لیتا ہوں، آپ ﷺ نے پوچھا: ”ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے؟“، دو بار یا تین بار، تو ایک شخص بولا: میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپ ﷺ نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے درہم لے کر انصاری کو دے دئیے اور فرمایا: ”ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آؤ“، وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا: ”جاؤ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں“، چنانچہ وہ شخص گیا، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا، پھر آیا اور دس درہم کما چکا تھا، اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو، مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے درست ہے: ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو، خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کر سکتا ہو اور اس کے لیے وہ سوال کرے“۔
محنت مزدوری: اس سے ایک عام مسلمان کو بھی رسول اللہ ﷺ کی سمجھ آ جائے گی جو وہ ایک امتی سے چاہتے ہیں۔
ابو داود 1642: ہم سات، آٹھ یا نو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے، آپ نے فرمایا: ”کیا تم لوگ اللہ کے رسول ﷺ سے بیعت نہیں کرو گے؟“، جب کہ ہم ابھی بیعت کر چکے تھے، ہم نے کہا: ہم تو آپ سے بیعت کر چکے ہیں، آپ ﷺ نے یہی جملہ تین بار دہرایا چنانچہ ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دئیے اور آپ سے بیعت کی، ایک شخص بولا: اللہ کے رسول! ہم ابھی بیعت کر چکے ہیں؟ اب کس بات کی آپ سے بیعت کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس بات کی کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں پڑھو گے اور (حکم) سنو گے اور اطاعت کرو گے“، ایک بات آپ نے آہستہ سے فرمائی، فرمایا: ”لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو گے“، چنانچہ ان لوگوں میں سے بعض کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا کوڑا زمین پر گر جاتا تو وہ کسی سے اتنا بھی سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دیدے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ہشام کی حدیث سعید کے علاوہ کسی اور نے بیان نہیں کی۔
زبردست: نبی اور امتی کی محبت کی عمدہ مثال ہے۔
نتیجہ: گلیوں، چوراہوں، سگنلز وغیرہ پر کھڑے بھکاری، گداگر، میراثی، خسروں کو مت دیں کیونکہ اس سے مسکین آدمی کا نقصان ہوتا ہے۔
مسجد میں مانگنے والوں پر بھی غور کریں کہ وہ اس محلے کہ ہیں یا نہیں۔ اگر کسی اور محلے کے ہیں تو ان کو بھی نہ دیں چاہے ان کی آواز آپ کے دل کو تڑپا دے۔
نبی کریم ﷺ کی احادیث کے مقابلے میں کسی بھی دانشور کے قول کی کوئی اہمیت نہیں جو یہ کہے کہ میں قابل ہو یا ناقابل بس اللہ کے دئے سے دیتا ہوں، اپنے مال سے کب دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔
کام وہ کریں جو رسول اللہ ﷺ کو پسند ہوں اور وہ کام نہ کریں جو تم کو پسند ہوں۔
تحقیق: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے حالانکہ ایسا کہنا وہابی پلس اہلحدیث کے نزدیک زیادتی ہے۔
وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔
غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟