نماز تہجد
1۔ صحیح مسلم 656، ابو داود 555، ترمذی 221: جس نے عشاء جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا، اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گویا پوری رات قیام کیا۔
علماء اور اولیاء کرام سمجھاتے ہیں کہ ایک فرض نماز کی اہمیت ساری زندگی کی نفل نمازوں سے بہتر ہے جیسے لیلتہ القدر کی رات 84 سال کی عبادت سے بہتر ہے مگر ساری زندگی لیلتہ القدر کی رات عبادت نہ کی جائے تو کوئی گناہ نہیں مگر ایک فرض نماز کا چھوڑ دینا کُفر ہے۔ اس کے علاوہ نماز جماعت سے پڑھنا واجب ہے، اگر تہجد کی نماز پڑھکر بندہ سو جائے اور جماعت سے نماز نہ پڑھے تو لازم ہے کہ تہجد چھوڑ دے اور جماعت سے نماز پڑھے کیونکہ پوری رات قیام کا ثواب ملے گا۔
قرآن اور تہجد: سورہ بنی اسرائیل 79 نماز تہجد نبی کریم ﷺ پر فرض تھی, حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب کسی تکلیف وغیرہ کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز تہجد چھوٹ جاتی تو آپ دن کے وقت بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ (مسلم) نماز تہجد کے فضائل میں سورہ طور 49، سورہ مزمل 20، سورہ مزمل 4، سورہ طہ 130، الزمر 9، الفرقان 64، الذاریات 17 – 18، الم السجدہ 16 – 17، النور 37 کا مطالعہ کمنٹ سیکشن میں کر سکتے ہیں۔
احادیث اور تہجد: صحیح مسلم 1163، ابو داود 2429، ابن ماجہ 1742: فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز قیام اللیل (تہجد) ہے“۔ حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت ان کے اور حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: کیا تم دونوں نماز (تہجد) نہیں پڑھتے؟ (متفق علیہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عبداللہ اچھا آدمی ہے اگر وہ نماز تہجد پڑھتا۔ سالم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ اس کے بعد رات کو بہت کم سوتے تھے۔ (متفق علیہ)
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک رات میں ایک ایسی گھڑ ی ہے کہ جس مسلمان کو میسر۔ آ جائے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخر ت کے بارے میں کوئی چیز طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہی چیز عطا فرما دیتا ہے اور گھڑ ی ہر رات میں ہوتی ہے۔ مسلم (757) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو (تہجد کیلئے) بید ار ہوتے تو اپنی نماز کا آغاز دومختصر رکعتوں سے فرماتے تھے۔ مسلم (767)۔ (باقی کمنٹ سیکشن میں)
تہجد اور سونا: المجم الکبیر میں صحابی رسول حجاج بن عمر بن غزیہ فرماتے ہیں "تہجد یہ ہے کہ بندہ قدرے سونے کے بعد نماز ادا کرے۔” رد المختار علی الدر المختار میں امام قاضی حسین شافعی فرماتے ہیں کہ اصطلاح میں سونے کے بعد نوافل پڑھنے کو تہجد کہتے ہیں۔ نماز عشاء پڑھ کر سونے کے بعد جب اور جس وقت اُٹھے، تہجد کا وقت ہے جو طلوع فجر تک رہتا ہے۔ اگر سویا نہیں تو تہجد نہیں ، اگرچہ نفل ضرور پڑھےکیونکہ وہ صلوۃ اللیل کے نفل کہلائیں گے۔
حضور ﷺ رات کو سونے کے بعد آخری وقت میں بیدار ہوتے اور تہجد کے نفل اور ساتھ وتر کی نماز ادا کرتے کیونکہ صحیح بخاری 1145 و مسلم 758: ہر رات آخری تہائی حصے میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، تو اس کا مادی اعلان کرتا ہے: کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ کیا کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخشش دوں؟ تین بار فرماتا ہے۔“ اسلئے سب سے بہتر وقت فجر سے دو گھنٹے پہلے کا ہے۔
سنن دارمی 1635: عشاء کے فوراً بعد دو رکعتیں نفل ادا کرے کیونکہ اگر صبح اذان سے پہلے آنکھ کُھل گئی تو تہجد ادا کر لے ورنہ یہ دو رکعتیں کافی ہو جائیں گی۔” اسلئے سونے سے پہلے یا عشاء کے بعد دو چار رکعت تہجد کی نیت سے پڑھ لیں اور اگر بندہ ساری رات جاگتا ہو تو آخری وقت میں نفل پڑھنا بہتر ہے۔
نیت: تمام نوافل کھڑے ہو کر پڑھنے چاہئیں کیونکہ نبی کریم نے اشراق، چاشت، اوابین، تہجد کے نفل کھڑے ہو کر ادا کئے ہیں اور اس میں ثواب زیادہ ہے۔ نفل تہجد دو دو رکعت کر کے ادا کرنے چاہئیں کیونکہ چار اکٹھے نبی کریم نے نہیں ادا کئے۔ دو رکعت نفل تہجد کی دل میں نیت کرے اور اللہ اکبر کہہ کر شروع کر دے، یہ بہتر ہے کیونکہ نبی کریم نے کبھی زبان سے نیت نہیں کی، البتہ زبان سے نیت کرنا جائز ہے۔
رکعت: کم از کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ جتنی مرضی رکعتیں پڑھ سکتا ہے، چار، چھ، آٹھ، دس، بارہ تک۔ "حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبیﷺ رات کی نماز (تہجد) دو دو رکعت کر کے پڑھا کرتے تھے۔ (متفق علیہ)” البتہ ان سب رکعتوں میں کوئی مخصوص سورتیں نہیں پڑھتے بلکہ جو مرضی پڑھیں، جتنا زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھ سکتے ہیں ضرور پڑھیں۔ "حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سی نماز افضل ہے تو آپ نے فرمایا: لمبے قیام والی۔ (مسلم)”
2۔ قرب خداوندی کے لئے فرض کے بعد تہجد کے نفل آتے ہیں۔ اسی طرح امت محمدیہ ﷺ کو اکٹھا کرنے کے لئے فرض ہے کہ ہر کوئی اپنی پہچان کروائے، ایک دوسرے سے ہر گز نہ لڑے۔ ہمارے نزدیک حقیقت یہ ہے اور ہر ایک کو توبہ کر کے اصل حقائق امت کو بتانے ہو ں گے ورنہ قیامت کے دن بہت پریشانی ہو گی۔
اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔
البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟
تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت
مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔
موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)
اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہی