Muhammadi Namaz

محمدی نماز

اہلحدیث حضرات کا یہ دعوی ہے کہ اہلحدیث محمدی نماز پڑھتے ہیں جو صحیح احادیث پر مبنی ہے حالانکہ حضور ﷺ نے صحیح و ضعیف احادیث سے نماز کسی کو نہیں سکھائی اور صحابہ کرام خصوصا چاروں خلفاء کرام کے دور کے بعد تک کسی ایک صحابی کی ایک جیسی نماز احادیث کی کتابوں میں نہیں ملے گی مگر سارے صحابہ کرام مجتہد تھےاور قرآن و سنت پر تھے۔

حضرت نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ پیدائش 80ھ) صحاح ستہ (بخاری مسلم ترمذی ابن ماجہ ابوداود وغیرہ) کے محدثین سے پہلے پیدا ہوئے اور اُن کا علمی سلسلہ حضرات حماد، علقمہ، فقہی صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہوا حضور ﷺ سے ملتا ہے۔ اسلئے حضرت نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی فقہ پر عمل کرتے ہیں۔ ہیں۔ پاکستان میں اہلسنت اپنے”فقہی امام“ کی قرآن و احادیث کے مطابق تقلید کے ذریعے اتباع رسول کرتے ہیں۔

سوال: اہلحدیث حضرات سے بحث نہیں بلکہ سوال ہے کہ نشاندہی کریں کہ اس ساری نماز میں امام ابو حنیفہ کا اپنا قول کونسا ہے؟ دوسرا کس مجتہد نے کہا تھا کہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی بننا بدعت، خلاف سنت، حرام اور شرک ہے، اب صحیح احادیث کے مطابق تم نے میری تقلید میں اتباع رسول کرنی ہے اور پراپیگنڈا کرنا ہے کہ صرف ہم محمدی نماز ادا کر رہے ہیں؟ پلیز بتا دیں کہ کس دور میں کس مجتہد نے کس قانون و اصول پر اہلحدیث جماعت کو یہ قانون دیا جیسے امام ابو حنفیہ کا اصول یہ ہے:

اصول: حضرت نعمان بن ثابت سب سے پہلے قرآن، پھر احادیث و سنت، آثار صحابہ، اُس کے بعد ضعیف احادیث کو بھی اپنے قول سے زیادہ اہمیت دیتے، حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق حضور ﷺ نے اسطرح نماز ادا کی ہے:

تکبیرِ تحریمہ: نبی کریم ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو قبلہ رُخ ہوکر ہاتھوں کو اٹھاتے اور”اَللّٰہ أکبر“ کہتے تھے۔ (ابن ماجہ: 803) نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں تک اتنا اٹھاتے تھے کہ آپ کے دونوں انگوٹھے آپ کے دونوں کانوں کی لَو کے برابر ہو جاتے۔(نسائی: 882) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی تکبیر کہے تو اُسے چاہیے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اور اُن کا اندرونی حصہ (یعنی ہتھیلیوں کا رُخ ) قبلہ کی طرف کرے۔ (طبرانی اوسط: 7801)

ہاتھ باندھنا: آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت، گٹے اور کلائی پر رکھا۔ (ابوداؤد: 727) آپ ﷺ اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے ہوئے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، باب وضع الیمین علی لشمال: 3/320 ،321، رقم:3959)
حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: نماز میں سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔ (سنن کبریٰ بیہقی: 2342) (و کذا فی ابی داؤد: 756)

ثناء پڑھنا: نبی کریم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو یہ دعاء پڑھتے :سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ (نسائی:899)

تعوّذ: اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد ہے: جب تم قرآ ن پڑھنے لگو تو فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔ (النحل: 98)۔ نبی کریم ﷺ تلاوت سے پہلے ’’أَعُوذُ بِا اللہِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق: 2589)

تسمیہ: نبی کریم ﷺ اپنی نماز کا افتتاح ’’بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‘‘ سے کیا کرتے تھے۔ (ترمذی: 245)

ثناء، تعوذ، تسمیہ اور آمین کا آہستہ کہنا: مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہیں گے: ثناء، تعوذ، تسمیہ، آمین اور تحمید (مصنف عبد الرزاق: 2597) حضرت ابراہیم نخعی سیدنا عمرکا اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ چار چیزیں امام آہستہ کہے گا: تعوّذ، تسمیہ، آمین اور اللّٰہم ربنا لک الحمد۔ (کنز العمال: 22893)

فاتحہ اور سورت کا ملانا: اُس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور اُس سے زائد نہ پڑھے۔ حدیث کے راوی حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ یہ حکم اُس شخص کے لئے ہے جواکیلے نماز پڑھ رہا ہو۔ (ابوداؤد: 822)

قرأت اور خاموش مقتدی: اِرشاد باری ہے:وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اُس کو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ( الأعراف: 204) حضرت ابوموسی اشعری فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے لئے سنّت کے اُمور کو واضح فرمایا اور ہمیں ہماری نماز (باجماعت) کا طریقہ بتلایا اور یہ فرمایا: جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفوں کو درست کرلو، پھر تم میں سے کوئی شخص تمہاری اِمامت کرے، اور جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو تم ”آمِينَ“ کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری دعاء قبول فرمائیں گے۔ حضرت سلیمان التیمی حضرت قتادہ سے (مذکورہ حدیث میں) یہ زیادتی نقل کرتے ہیں کہ :جب اِمام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔ (مسلم: 404)

وضاحت: جب اِمام ”اللہ أکبر“ کہے تو تم بھی ”اللہ أکبر“کہو، جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ فاتحہ ختم کرے تو تم ”آمین “ کہو۔ اگر سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا مقتدی کیلئے لازم ہوتا تو جیسے تکبیر میں کہا گیا ہے کہ اِمام کے تکبیر کہنے پر تم بھی تکبیر کہو اِسی طرح قراءت کے موقع پر بھی یہ کہا جاتا کہ جب اِمام قراءت کرے تو تم بھی قراءت کرو، لیکن اِس کے بالکل برعکس یہ کہا گیا ہے کہ:”وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا“ یعنی جب اِمام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔

نوٹ: واضح رہے کہ حضرت سلیمان التیمی بخاری اورمسلم کےمشہور راوی ہیں اور بالاتفاق ثقہ اور مُتقن ہیں لہٰذا مذکورہ بالا حدیث میں ان کی ذکر کردہ یہ زیادتی بالکل مقبول ہے، یہی وجہ ہے اِمام مُسلم نے اپنی صحیح میں یہ زیادتی ذکر کرکے اُسے صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازین یہ زیادتی نقل کرنے میں حضرت سلیمان التیمی متفرّد بھی نہیں کہ ان پر تفرّد کا اِلزام لگایا جا سکے بلکہ اور بھی کئی راویوں نے دوسری روایات میں اِسی زیادتی کو نقل کیا ہے، چنانچہ حضرت ابوعُبیدہ کی روایت کیلئے دیکھئے (مستخرج ابی عَوانہ: 1698) حضرت عمر ابن عامر اور حضرت سعید بن ابی عَروبہ کی روایت دیکھئے (دار قطنی: 1249)

حضرت ابونُعیم وہب بن کیسان فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے سنا، وہ یہ فرمارہے تھے: جس نے نماز پڑھی اور اُس میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی تو گویا اُس نے نماز ہی نہیں پڑھی، ہاں! مگر یہ کہ وہ اِمام کے پیچھے ہو(تو نماز ہوجائے گی)۔ یہ حدیث ”حسن صحیح“ ہے۔ (ترمذی: 313)

وضاحت: حدیثِ مذکور جس کو اِمام ترمذی نے صحیح بھی قرار دیا ہے اس میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ اِس حقیقت کو ذکر کیا گیا ہے کہ نماز سورۃ الفاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی شخص اِمام کے پیچھے جماعت میں شریک ہو تو اُس کی نماز ہوجائے گی، اِس لئے کہ حدیث کے مطابق اِمام کی قراءت کرنے سے مقتدی کی بھی قراءت ہوجاتی ہے، لہٰذا سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے کے باوجود بھی حکمی طور پر اُس کا پڑھنا معتبر ہوجاتا ہے۔

1۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: امام کو اس لئے مقرر کیا گیا ہے تاکہ اُ س کی اقتداء کی جائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ تلاوت کرے تو تم خاموش رہو۔ (ابن ماجہ: 846) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جو امام کے پیچھے نماز پڑھے تو پس امام کی قرأت ہی اُس کی قرأت ہے۔ (دار قطنی: 1502) حضرت ابن عمرسے جب امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے: جب تم میں سے کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اُس کے لئے امام کی قرأت ہی کافی ہے اور جب اکیلے نماز پڑھے تو اُسے قرأت کرنی چاہیے۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر اِمام کے پیچھے قرأت نہیں کیا کرتے تھے۔ (مؤطاء مالک: 251)

2۔ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھائی پھراپنے رخِ انور سے صحابہ کرام کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا امام کے پڑھتے ہوئے تم لوگ بھی قراءت کرتےہو؟ لوگ خاموش رہے، آپ ﷺ نے تین دفعہ یہی سوال کیا تو صحابہ کرام نے کہا: جی ہاں! ہم یہ کرتے ہیں، آپ ﷺ نے اِرشاد فرمایا: ایسا مت کیا کرو۔(طحاوی: 1302)

3۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ ہمیں نبی کریم ﷺ نے نماز سکھائی اور فرمایا: جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو تم میں سے کسی ایک کو تمہاری امامت کرنی چاہیئے اور جب امام تلاوت کرے تو تم خاموش رہو۔ (مسند احمد: 19723)

4۔ حضرت عبد اللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے عصر کی نماز میں اِمامت کی، ایک شخص نےآپ ﷺ کے پیچھے قراءت کی، اُس کےساتھ میں کھڑے شخص نے اُس کو (قراءت سے منع کرنے کیلئے) چٹکی نوچی، جب نماز ہوگئی تو اُس شخص نے (چٹکی نوچنے والے سے) کہا: تم نے مجھے چٹکی کیوں نوچی تھی؟ تو اُ س نے جواب دیا : نبی کریم ﷺ تمہارے آگے قراءت کررہے تھے، اِس لئے میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم حضورﷺ کے پیچھے قراءت کرو، نبی کریم ﷺ نے یہ گفتگو سنی تو فرمایا: جس شخص کا امام ہو تو اُس امام کی قراءت ہی مقتدی کی قراءت ہے۔ (مؤطاء امام محمد: 98)

5۔ حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں: تمہارے لئے امام کی قرأت ہی کافی ہے، خواہ امام ہلکی آواز میں پڑھے یا بلندآواز میں۔ (دار قطنی: 1252)

6۔ حضرت عطاء خراسانی فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان نے حضرت معاویہ کو لکھا کہ جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو اس کی طرف کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کیونکہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے: جو شخص خاموش رہے اور اُسے سنائی نہ دے اس کیلئے ایسا ہی اجر ہے جیساکہ اُس شخص کیلئے اجر ہے جو سنتے ہوئے خامو ش رہے۔ (القراءۃ خلف الامام للبیہقی: 137)

فائدہ: حضرت عثمان کی مذکورہ بات سے یہ اِشکال بھی دور ہوگیا جو بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب سری نمازوں میں اِمام کے پیچھے سنائی ہی نہ رے رہا ہو تو خاموش کھڑے رہنے کا کیا فائدہ؟ کیا یہ فائدہ کم ہے کہ اُس کو سننے والے کی طرح اجر مل رہا ہے۔

خلفاءِ راشدین اور دیگر صحابہ کرام کا عمل

1۔ حضرت عبد الرحمن بن زید اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نےامام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ راوی حضرت عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ ہمارے بہت سے مشائخ نے مجھے حضرت علی کا یہ اِرشاد سنایا ہے کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اُس کی نماز ہی نہیں ہوگی، اور حضرت موسیٰ بن عقبہ نے مجھے خبر دی ہے کہ نبی کریم ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت عثمان امام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق: 2810)

2۔ موطّاء امام محمد میں حضرت عمر کا یہ قول نقل کیا گیا ہے: کاش! کہ اُس شخص کے منہ میں پتھر ڈال دیے جائیں جو امام کے پیچھے قراءت کرتا ہے۔ (موطّاء امام محمد: 98) حضرت عُمر فرماتے ہیں: تمہارے لئے اِمام کی قراءت کافی ہے۔ (ابن ابی شیبہ: 3884) حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں: امام کے پیچھے قراءت نہیں کی جائے گی خواہ امام اونچی آواز سے تلاوت کرے یا نہ کرے۔ (القراءۃ خلف الامام للبیہقی: ص 209) حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: جس نے اِمام کے پیچھے قراءت کی اُس نے فطرت کو کھودیا۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 3781) حضرت مُحمّد بن عجلان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نے فرمایا: جس نے اِمام کے ساتھ قراءت کی وہ فطرت پر نہیں ہے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 2806)

3۔ حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن مسعود کی خدمت میں آیا اور یہ دریافت کیا کہ کیا میں اِمام کے پیچھےقراءت کروں؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اُس سے فرمایا: بیشک نماز میں مشغولیت ہوتی ہے اور تمہارے لئے وہی اِمام کافی ہے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 3780) حضرت علقمہ بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود امام کے پیچھے جہری اور سرّی کسی بھی نماز میں قراءت نہیں کیا کرتے تھے، نہ پہلی رکعتوں میں نہ آخری رکعتوں میں۔ (مؤطاء امام محمد: 96)

4۔ مصنّف عبد الرزاق میں اِمام کے پیچھے قراءت کرنے والے کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا یہ اِرشاد نقل کیا گیا ہے: ”مُلِئَ فُوهُ تُرَابًا“ اُس کا منہ مٹی سے بھردیا جائے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 2806) حضرت ابواِسحاق فرماتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن مسعود کے اَصحاب اِمام کے پیچھے قراءت نہیں کرتے تھے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 2806)

5۔ حضرت عطاء بن یَسارسے مَروی ہے کہ اُنہوں نے حضرت زید بن ثابت سے اِمام کے ساتھ قراءت کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو اُنہوں نے فرمایا: اِمام کے ساتھ کسی بھی قسم کی قراءت نہیں۔ (مسلم: 577) حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں: ”لَا قِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ“ اِمام کے پیچھے قراءت نہیں کی جائے گی۔ (ابن ابی شیبہ: 3783)

6۔ حضرت موسیٰ بن سعید حضرت زید بن ثابت کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: جو اِمام کے ساتھ قراءت کرے اُس کی نماز (کامل) نہی ہوتی۔ (مصنّف عبد الرزاق: 2802) حضرت ابن ذکوان فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن عمر دونوں اِمام کے پیچھے قراءت نہیں کیا کرتے تھے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 2815) حضرت عُبید اللہ بن مِقسم فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن عُمر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت جابر بن عبد اللہ سے (اِمام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں) دریافت کیا، تو اِن سب نے یہی فرمایا: اِمام کے پیچھےکسی بھی نماز میں مت پڑھو۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی: 1312)

7۔ حضرت ابوحمزہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے دریافت کیا کہ کیا میں قراءت کرسکتا ہوں جبکہ اِمام میرے سامنے ہو؟ حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا: نہیں۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی: 1316) حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا ہر نماز میں قراءت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! (ہر نماز میں قراءت ضروری ہے)۔ اَنصار میں سے ایک شخص نے کہا: یہ (قراءت) تو واجب ہوگئی۔ حدیث کے راوی حضرت کثیر بن مُرّہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابودرداء (اِس حدیث کو سنانے کے بعد) میری جانب متوجّہ ہوئے اور میں لوگوں میں اُن کے سب سے زیادہ قریب تھا، پس اُنہوں نے فرمایا: اے کثیر !میں تو صرف یہی سمجھتا ہوں کہ اِمام جب کسی قوم کی اِمامت کرے تو وہ (قراءت کرنے میں) سب کی طرف سے کافی ہے۔ (دار قطنی: 1505) حضرت عبد اللہ بن عُمرسے مَروی ہے، وہ اِمام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تمہارے لئے اِمام کی قراءت ہی کافی ہے۔ (دار قطنی:1503)

8۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرسے جب امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے :جب تم میں سے کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اُس کے لئے امام کی قرأت ہی کافی ہے، اور جب اکیلے نماز پڑھے تو اُسے قرأ ت کرنی چاہیے۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر اِمام کے پیچھے قرأت نہیں کیا کرتے تھے۔ (مؤطاء مالک: 251) حضرت زید بن اَسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عُمر اِمام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 2814) حضرت ابونُعیم فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے سنا ،وہ یہ فرمارہے تھے: جس نے نماز پڑھی اور اُس میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی تو گویا اُس نے نماز ہی نہیں پڑھی، ہاں !مگر یہ کہ وہ اِمام کے پیچھے ہو(تو نماز ہوجائے گی)۔ (هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔ ترمذی:313)

9۔ حضرت عُبید اللہ بن مِقسم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ ظہر اور عصرکی نماز (یعنی سری نمازوں) میں اِمام کے پیچھے قراءت کرتے ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا: نہیں۔ (مصنّف عبد الرزاق: 2819) حضرت علقمہ بن قیس فرماتے ہیں: میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ شخص جو اِمام کے پیچھے قراءت کرتا ہےاُس کا مٹی یا اَنگارہ سے بھرجائے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 2808)

اِمام شعبی فرماتے ہیں :میں نے 70 بدری صحابہ کرام کو پایا ہے کہ وہ سب مقتدی کو اِمام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (تفسیر روح المَعانی: 5/142)۔ حضرت سعد فرماتے ہیں کہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ وہ شخص جو اِمام کے پیچھے پڑھتا ہے اُس کے منہ میں انگارہ ہو۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ : 3782)

آہستہ آمین کیوں: اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد ہے:اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ترجمہ:تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الأعراف: 55)
مذکورہ آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آہستہ دُعاء کرنے کا حکم دیا ہے اور آمین کہنا بھی ایک دُعاء ہے،چنانچہ:

1۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں: آمین کہنا دُعاء ہے۔ (بخاری:1/156)
2۔ حضرت ہارون علیہ السلام نےحضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعاء پر جو آمین کہا تھا اُس کو بھی قرآن کریم میں ”دُعاء“ قرار دیا گیا ہے۔ (یونس: 89)(تفسیر بغوی)
3۔ آمین دُعاء ہے جس کے معنی ”اِسْمَعْ وَاسْتَجِبْ“ ترجمہ: اے اللہ سن لیجئے اور قبول فرما لیجئے۔
4۔ لفظِ آمین اللہ کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے جیسے :”آمِينَ:اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ“ یعنی آمین اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ:7971)
5۔ علّامہ فخر الدّین رازی جوکہ شافعی المسلک ہیں، اُنہوں نے آمین کے بارے میں فرمایا: آمین کے بارے میں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ یہ دُعاء ہے اور دوسرا یہ کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، پس اگر یہ دُعاء ہے تو اس کو ہلکی آواز میں پڑھنا واجب ہےاِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: ”تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو“ اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہےتب بھی اس کو ہلکی آواز میں پڑھنا واجب ہے، اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”اوراپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی کرتا ہوا اور ڈرتاہوا یاد کرتا رہ“۔ پس اگر (آمین کو آہستہ کہنے کا) وجوب ثابت نہ بھی ہو تب بھی یہ مستحب ہونے سے کم تو نہیں ہوگا، اور ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ (تفسیر کبیر للرازی:14/282)

6۔ حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور جب سورہ فاتحہ ختم کی تو آہستہ آواز میں آمین کہی۔ (مسند احمد: 18854)
7۔ حضرت عمر اور علی تسمیہ، تعوذ اور آمین بلند آواز میں نہیں کہا کرتے تھے۔ (شرح معانی الآثار:1208)
8۔ مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں :پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہیں گے: ثناء، تعوذ، تسمیہ، آمین اور تحمید۔ (مصنف عبد الرزاق: 2597)

9۔ حضرت شُعبہ سے مَروی ہے کہ سلمہ بن کُہیل فرماتے ہیں کہ میں نے حُجر ابو العنبَس سے سنا ہے وہ فرمارہے تھے کہ میں نے علقمہ بن وائل سے سنا، وہ (اپنے والد) حضرت وائل بن حُجر سے نقل کرتے ہیں جبکہ (حضرت حُجر ابو العنبَس کے قول کے مطابق) میں نے خود بھی حضرت وائل بن حُجر سے سنا ہے کہ اُنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ ﷺ نے (سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھا توآہستہ آواز میں آمین کہا۔ (مسند ابوداؤد الطیالسی:1117)

سفیان ثوری اورشُعبہ کی روایت کا تعارض (ٹکراؤ) کا حل :
حضرت وائل بن حُجرکی مذکورہ بالا روایت حدیث کی کئی معتبرکتابوں میں موجود ہے، اِس کو حضرت سُفیان ثوری اوراِمام شُعبہ دونوں ہی نے نقل کیا ہے، حضرت شُعبہ کی روایت میں آمین آہستہ کہنے کا تذکرہ ہے جبکہ حضرت سُفیان ثوری زور سے آمین کہنا نقل کرتے ہیں، اور دونوں ہی کی روایت کردہ حدیث صحیح ہے، اس میں صحت و ضعف کا کوئی فرق نہیں، لہٰذاروایات کے اِس تعارض کو دور کرنے کیلئے ترجیح کے طریقے پر عمل کیا گیا ہے، آمین بالجہر کے قائلین نے حضرت سفیان ثوری کی روایت کو ترجیح دی ہے جبکہ آمین بالسّر کے مسلَک کو اختیار کرنے والے اِمام شُعبہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔

آہستہ آمین کہنے کے وزن دار دلائل
1۔ آمین کے آہستہ کہنے کی روایت اَوفَق بالقرآن یعنی قرآن کریم کے زیادہ مطابق ہے، اِس لئے کہ ”آمین“ بالاتفاق ایک دُعائیہ کلمہ ہے اور دُعاء کے بارے میں قرآن کریم کا حکم یہ ہے کہ اُسے آہستہ مانگنا چاہئے، پس اِسی لئے آمین کا کلمہ بھی آہستہ ہی کہنا چاہئے۔

2۔ آمین کےآہستہ کہنے پربہت سے صحابہ کرام حتی کہ خلفاء راشدین اور حضرت عبد اللہ بن مسعود اور تابعین کا بھی عمل ہے جو خود ایک بہت بڑی وجہ ترجیح ہے جس سے حضرت شُعبہ کی آمین بالسّر کی روایت کا راجح ہونا معلوم ہوتا ہے۔

3۔ نبی کریم ﷺ کا زورسے آمین کہنا تعلیم و تلقین کیلئے یعنی سکھانے کیلئے تھا ،مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی چنانچہ خود صحابی رسول حضرت ابووائل بن حجر نےاس کی صراحت کی ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ”فَقَالَ:«آمِينَ» يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ مَا أَرَاهُ إِلَّا يُعَلِّمُنَا“ یعنی آپ ﷺ نے (سورۃ الفاتحہ کے بعد) بلند آواز سے آمین کہا، جس کے بارے میں میرا خیال یہی ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیں سکھانے کیلئے زور سے آمین کہا تھا۔ ( الکنیٰ و الاسماء للدولابی: 1090)
اِسی طرح حضرت وائل بن حُجرہی کی ایک روایت میں ہے: فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ: «آمِينَ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ“ یعنی جب آپ ﷺ سورۃ الفاتحہ سے فارغ ہوئے تو تین مرتبہ آمین کہا۔ (طبرانی کبیر: 22/22)

وضاحت: مذکورہ روایت کا اِس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں کہ یہ تین مرتبہ آمین کہنا لوگوں کو تعلیم دینے اوراُنہیں سکھانے کیلئے تھا، پس جس طرح آپ ﷺ کا خلافِ معمول ایک سے زائد مرتبہ آمین کہنا لوگوں کو سکھانے کیلئے تھا اِسی طرح خلافِ معمول آواز سے آمین کہنا بھی تعلیم و تلقین کیلئے تھا، کوئی مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی، ورنہ ان روایاتِ جہریہ کے ہوتے ہوئے حضرت عُمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعودجیسے جلیل القدر صحابہ کرام کے سراً آمین کہنے کا کیا مطلب ہوگا۔

4۔ آمین کے زور سے کہنے کا مطلب بہت زیادہ اونچی آواز کے ساتھ آمین کہنا نہیں بلکہ اس سے ”جہرِ خفیف“ یعنی ہلکی آواز سے آمین کہنا مراد ہےجو سراً آمین کہنے کے خلاف نہیں اور اس کی تائید کئی روایات سے ہوتی ہے، چنانچہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت ہے جس میں نبی کریم ﷺ کے آمین کہنے کی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے: ”حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ“ یعنی آپ ﷺ نے سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر اتنی آواز سے آمین کہا یہاں تک کہ آپ ﷺ سے متصل پہلی صف کے کچھ لوگوں نے سنا۔ (ابو داؤد: 934)

روایتِ مذکورہ میں ”مِنْ“ تبعیضیہ یعنی بعضیت کو بیان کرنے کیلئے ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ ”پہلی صف کےکچھ لوگوں نے سنا“ پوری صف کے لوگوں کا سننا مراد نہیں، کیونکہ اگر یہ تبعیض کیلئے نہ ہو اور مطلب یہ لیا جائے کہ پہلی صف کے تمام لوگوں نے سن لیا تو یہ درست نہ ہوگا کیونکہ یہ کیسے مُمکن ہوسکتا ہے کہ پہلی صف میں دور تک دائیں بائیں جانب کےتمام لوگوں نے تو سن لیا ہو لیکن اِمام کے بالکل پیچھے قریب کے دوسری صف میں کھڑے ہوئےلوگوں تک بھی آواز نہ پہنچی ہو۔ اِسی طرح ایک روایت میں ہے:”حَتَّى يُسْمِعَ مَنْ يَلِيهِ“ یعنی آپ ﷺ اِتنی آواز سے آمین کہتے کہ اپنے سے متصل لوگوں کوسنا دیا کرتے تھے۔ (مصنّف عبد الرزاق:2632)

پس اِن روایات کی روشنی میں روایاتِ جہریہ کا مطلب بھی ”جہرِ خفیف“ ہی لیا جائے گا اوریہ نبی کریم ﷺ کا یہ عمل بھی لوگوں کو تعلیم دینے اور سکھانے کیلئےتھا۔ پس اِس طرح روایات کا باہمی تضاد بھی باقی نہ رہے گا، حضرات صحابہ کرام کے عمل کی اتباع بھی ہوجائے گی اور دُعاء کا جو اصل ادب ہے اُس کی رعایت بھی ہوسکے گی۔

دلائل: یہ دلائل اہلسنت کو سکھانے کے لئے ہیں جن کو اہلحدیث جماعت گمراہ کرتی ہے ورنہ تین ائمہ کرام کی نماز کے طریقے کے خلاف یہ دلائل ہر گز نہیں ہیں۔

سورت ملانا: حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں :نبی کریم ﷺ پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھتے تھے اور آخری دو رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ: 3741)

رکوع کرنا :وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ۔ ترجمہ: اور رُکوع کرنے والوں کے ساتھ رُکوع کرو۔ (البقرۃ: 43) ایک معروف حدیث جو ”حدیثِ اعرابی“ کے نام سے مشہور ہے اُس میں مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اُس اَعرابی کو جس نے جلدی جلدی نماز پڑھی تھی، آپ ﷺ نے اُسےنماز سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا “ یعنی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد پھر تم اِطمینان کے ساتھ رکوع کرو۔

رکوع میں کمر سیدھی ہونی چاہیئے: حضرت ابوحمیدساعدی نےنبی کریم ﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے رکوع کا طریقہ یہ اِرشاد فرمایا: پس جب آپ ﷺ نے رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو پکڑا پھر اپنی کمر کو ہموار اور برابر رکھا۔ (صحیح ابن خزیمہ: 643)

رکوع میں سر کو کمر کے برابر سیدھا رکھنا چاہیئے:جب آپ ﷺ رکوع کرتے تو نہ اپنے سر کو اونچا رکھتے تھے اور نہ نیچا ،بلکہ دونوں کے درمیان (یعنی برابر) رکھتے تھے۔ (مسلم: 498)

رکوع میں ہاتھوں کو پہلو سے الگ اور اُنگلیاں کشادہ رکھنی چاہیئے: نبی کریم ﷺ نے حضرت انس بن مالک سے ارشاد فرمایا : اے میرے بیٹے! جب تم رکوع کرو تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھو اور اپنی انگلیوں کو کشادہ رکھو اور اپنے ہاتھوں کو پہلووں سے الگ رکھو۔ (طبرانی اوسط: 5991)

رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں پر جماکر رکھنا چاہیئے: حضرت ابوحمید ساعدی نے نبی کریم ﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے رکوع کا طریقہ یہ اِرشاد فرمایا: پس جب آپ ﷺ نے رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو پکڑا۔ (صحیح ابن خزیمہ:643) ایک اور روایت میں ہے: پھر آپ ﷺ نےرکوع کیا اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر اس طرح رکھا گویا آپ انہیں پکڑے ہوئے ہوں۔ (ابوداؤد: 734)

رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں پر سیدھا رکھنا چاہیئے: حضرت ابو حمید الساعدی فرماتے ہیں: پھر آپ نے رکوع کیا اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر اس طرح رکھا گویا آپ انہیں پکڑے ہوئے ہوں اور اپنے ہاتھوں کو سیدھا رکھا اور انہیں پہلوؤں سے الگ رکھا۔ (ابوداؤد: 734)

رکوع کی تسبیحات اورتعداد: حضرت عبد اللہ بن مسعود نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں: جب تم میں سے کوئی رکوع کرے اور اپنے رکوع میں تین مرتبہ یہ کہے ”سُبْحَانَ رَبِّيَ العَظِيمِ “ تو اُس نے اپنا رکوع مکمل کرلیا، اور یہ کم سے کم مقدار ہے۔ (ترمذی:261)

قومہ میں اطمینان کے ساتھ کھڑے ہونا: حضرت ابو حمیدساعدی فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے رکوع سے سر اٹھایا اور سیدھے کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ جسم کاہرجوڑ اپنی جگہ لوٹ آیا۔ (بخاری تعلیقاً :1/159)

حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: آپ ﷺ رکوع سے اٹھ کر جب تک سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے سجدہ نہیں کرتے تھے اور سجدہ سے اُٹھ کر جب تک سیدھے بیٹھ نہ جاتے دوسرے سجدہ میں نہیں جاتے تھے۔ (مسلم: 498)

رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے سمع اللہ اور قومہ میں تحمید کہنا: نبی کریم ﷺ جب جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے پھر(قیام و قراءت سے فارغ ہوکر) جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے پھ رکوع سے اپنی کمر مبارک اٹھاتے تو ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“ کہتے پھر کھڑے ہو کر ”رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ “ کہتے۔ (بخاری: 789)

منفرد صرف تحمید پر اکتفا کرے گا: جب امام ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“کہے تو تم ”رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ کہو۔ (دارمی: 1349)

رفع یدین: نماز میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے ہوئے یا رکوع سے اُٹھتے ہوئے ہاتھوں کو کانوں تک نہیں اُٹھایا جاتا اور اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ نبی کریم ﷺ کے سفر و حضرکے ساتھی حضرت عبد اللہ بن مسعودایک دفعہ لوگوں سے فرمانے لگے: میں تمہیں نبی کریم ﷺ کی نماز کا طریقہ نہ بتاؤں؟ اُس کے بعد حضرت عبد اللہ بن مسعود نے نماز پڑھی اور صرف ایک مرتبہ تکبیر میں ہاتھوں کو اٹھایا۔ (ابوداؤد:748)

2۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودفرماتے ہیں : میں نے رسول اللہﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے سوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں بھی اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔(مسند ابویعلیٰ موصلی:5039)

3۔ حضرت براء بن عازب سے مَروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں قریب تک اُٹھاتے پھر اُس کے بعد (رکوع میں جاتے ہوئے یا رکوع سے اُٹھتے ہوئے) دوبارہ نہیں اُٹھاتے تھے۔ (ابوداؤد: 748)

4۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا، آپ نے نمازکے شروع میں اپنے ہاتھ اُٹھائے پھر فارغ ہونے تک دوبارہ نہیں اُٹھائے۔ (ابوداؤد: 752)

5۔ حضرت براء بن عازب اور عباد بن زبیر کی روایتوں میں بھی نبی کریم ﷺ کا یہی عمل منقول ہے کہ آپ ﷺ نے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو اٹھایا اور اُس کے بعد نماز سے فارغ ہونے تک دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھائے۔ حضرت عبا دبن زبیرسے مَروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو نماز کے شروع میں اپنے ہاتھ اُٹھاتے پھر (نماز سے) فارغ ہونے تک کسی بھی رکن میں ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔ (الدرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ: 1/152)

6۔ حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں ایک دفعہ نبی کریم ﷺ ہمارے پاس (حجرہ سے) نکل کر تشریف لائے اور فرمایا: مجھے کیا ہوا کہ میں تم لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ نماز میں اپنے ہاتھوں کو ایسے اُٹھارہے ہو جیسے بدکے ہوئے گھوڑے کی دُمیں ہیں (ایسا نہ کیا کرو) نماز میں سکون سے رہا کرو۔ (مسلم: 430)

7۔ حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: ہاتھوں کو صرف سات مقامات پر اُٹھایا جائے گا: نماز شروع کرتے ہوئے، جب مسجدِ حرام میں داخل ہوکر بیت اللہ پر نگاہ پڑے، جب صفاء کی پہاڑی پر چڑھے، جب مَروہ کی پہاڑی پر چڑھے، جب عرفہ کی شام لوگوں کے ساتھ وقوف کرےاور مزدلفہ میں (وقوفِ مزدلفہ کے وقت) دونوں مقام پر جبکہ جمرہ کی رمی کرے۔ (طبرانی کبیر: 12072)

ترکِ رفعِ یدین میں خلفاءِ راشدین اور صحابہ کرام کا عمل:
1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق او ر حضرت عمر کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے سوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں بھی اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔ (مسند ابویعلیٰ موصلی:5039)

2۔ حضرت اسود فرماتے ہیں: میں نےسیدنا حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ نماز پڑھی،اُنہوں نےنماز کے شروع میں تکبیر کے علاوہ کسی اور جگہ ہاتھ نہیں اُٹھایا۔ (مُصنّف ابن ابی شیبہ: 2454)

3۔ حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں:حضرت علی جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر (آخر تک) دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ: 2442)

4۔ اِمام مالک فرماتے ہیں کہ مجھےحضرت نُعیم مُجمر اور ابو جعفر قاری نے خبر دی ہے: حضرت ابوہریرہ اُنہیں نماز پڑھاتے تھےتو ہر اُٹھتے اور جھکتے ہوئے تکبیر(یعنی اللہ اکبر) کہتے تھے۔ حضرت ابوجعفرقاری فرماتے ہیں: حضرت ابوہریرہ صرف نماز کے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے۔ (مؤطا امام محمد: 88)

5۔ میں نے رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق او ر حضرت عمر کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے سوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں بھی اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔(مسند ابویعلیٰ موصلی: 5039)

6۔ حضرت اسودفرماتے ہیں: میں نےسیدنا حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ نماز پڑھی، اُنہوں نےنماز کے شروع میں تکبیر کے علاوہ کسی اور جگہ ہاتھ نہیں اُٹھایا۔(مُصنّف ابن ابی شیبہ: 2454)

7۔ حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں: حضرت علی جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر (آخر تک) دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ: 2442)

8۔ اِمام مالک فرماتے ہیں کہ مجھےحضرت نُعیم مُجمر اور ابو جعفر قاری نے خبر دی ہے: حضرت ابوہریرہ اُنہیں نماز پڑھاتے تھےتو ہر اُٹھتے اور جھکتے ہوئے تکبیر(یعنی اللہ اکبر) کہتے تھے۔حضرت ابوجعفرقاری فرماتے ہیں: حضرت ابوہریرہ صرف نماز کے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے۔ (مؤطا امام محمد:88)

9۔ حضرت ابراہیم نخعی حضرت عبد اللہ بن مسعود کے بارے میں فرماتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن مسعود نماز کے شروع میں (تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے) ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر(آخر تک) نہیں اُٹھاتے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2443)

10۔ حضرت مُجاہد فرماتے ہیں: میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر کو صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔ (مصنّف ابن ابی شیبۃ: 2452)

11۔ حضرت مُجاہد فرماتے ہیں:میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمرکے پیچھے نماز پڑھی، اُنہوں نے نماز کی صرف تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اُٹھایا۔ (طحاوی: 1357)

ترکِ رفعِ یدین کے مسئلہ میں کبار تابعین کا عمل :
1۔ حضرت اسودفرماتے ہیں: میں نے حضرت عمرکو دیکھا کہ وہ پہلی تکبیر (تکبیرِ تحریمہ) میں اپنے ہاتھ اُٹھاتے پھر دوبارہ (آخر تک) نہیں اُٹھاتے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم نخعی اور حضرت شعبی کو بھی دیکھا کہ وہ بھی اِسی طرح کرتے تھے۔ (طحاوی: 1364)

2۔ حضرت شعبی کے بارے میں منقول ہے: وہ صرف پہلی تکبیر (یعنی تکبیرِ تحریمہ) میں ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر (آخر تک) نہیں اُٹھاتے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2444)

3۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: نمازکے شروع میں (تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے) ہاتھ اُٹھاؤ اور اس کے علاوہ نماز کے کسی بھی رکن میں مت اُٹھایا کرو۔(مصنّف ابن ابی شیبہ: 2447)

4۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: جب تم نماز کے شروع میں تکبیر کہو تو اپنے ہاتھوں کو اُٹھاؤ پھر بقیہ پوری نماز میں ہاتھوں کو نہ اُٹھاؤ۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ:2445)

5۔ حضرت اسود اور حضرت علقمہ کے بارے میں آتا ہے: وہ دونوں نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے پھر دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 2453)

6۔ حضرت ابواسحاق فرماتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت علی کے شاگرد صرف نماز کے شروع میں (تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے) ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے۔ حضرت وکیع فرماتے ہیں کہ پھر وہ دوبارہ نماز کے آخر تک دوبارہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2446)

7۔ علم و عمل کا عظیم مَرکز جسے دنیا ”کوفہ“ کے نام سے جانتی ہے ، اور جہاں حضرات صحابہ کرام وتابعین کی ایک بڑی جماعت رہی ہے، وہاں کے رہنے والوں کا بھی مسلَک ”ترکِ رفعِ یدین “ ہی کا تھا، چنانچہ اِمام ترمذی فرماتے ہیں: بےشمار اہلِ علم اور صحابہ کرام اور تابعین اسی کے قائل ہیں اور یہی حضرت سفیان ثوری اور اہلِ کوفہ کا قول ہے۔ (یعنی نماز میں صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت رفعِ یدین کیا جائے گا )۔ (ترمذی: 257)

8۔ فقہِ حنفی کے سب سے بڑے ناقل حضرت اِمام محمّد اپنی شہرہ آفاق کتاب ”مؤطاء اِمام محمد“ میں لکھتے ہیں: اور بہرحال نماز میں رفعِ یدین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک مرتبہ نماز کی اِبتداء میں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھائے، پھر اس کے بعد نماز میں کسی بھی جگہ ہاتھ نہ اُٹھائے۔ اور یہ سب حضرت اِمام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ (مؤطا اِمام محمّد:90 ،91، میزان)

رفعِ یدین کی روایات قابلِ عمل کیوں نہیں

1۔ ائمّہ اربعہ میں دو بڑے اور مشہور اِمام یعنی اِمام اعظم ابوحنیفہ اور اِمام مالک رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے رفعِ یدین کے قائل نہیں، اور اُنہوں نے رفعِ یدین کی روایات کو اِس لئے ترجیح نہیں دی کیونکہ وہ احادیث متن کے اعتبار سےمضطرب (مختلف) ہونے کی وجہ سے قابلِ اِستدلال نہیں، چنانچہ رفعِ یدین کی ”أصح مافی الباب “ یعنی سب سے زیادہ صحیح روایت جس کو رفعِ یدین کے بارےمیں سب سے مضبوط اور ٹھوس دلیل قرار دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُسے ”حجۃ اللہ علی الخلق“ کا درجہ دیا گیا ہے، وہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی ایک روایت ہے، جسے اِمام بخاری نے نقل کیا ہے، ملاحظہ فرمائیے:

1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نبی کریمﷺ کی نماز کا یہ طریقہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نماز کے شروع میں تکبیر کہتے ہوئے، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اُٹھا کر رفعِ یدین کیا کرتے تھے۔ (بخاری: 735) لیکن یہ حدیث متن کے اعتبار سےمضطرب (یعنی مختلف) ہے یعنی اِس کے الفاظ کے اندر بڑی کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ حدیث قابلِ اِستدلال نہیں، اور اِس کے اضطراب کی تفصیل یہ ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت میں بکثرت یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ نماز میں رفعِ یدین یعنی ہاتھوں کے اُٹھانے کا عمل کتنی مرتبہ اور کہاں کہاں کیا جائے گا، چنانچہ:

٭ ایک روایت میں صرف رکوع سے اُٹھ کر رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(مؤطا مالک: 210)
٭ ایک روایت میں دو رکعتوں کے بعد تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہونے کے بعد بھی رفعِ یدین کاذکر ہے۔ (بخاری: 739)
٭ صرف سجدہ میں جاتے ہوئے بھی رفعِ یدین کا ذکر ہے۔ (طبرانی اوسط: 16)
ایک اور روایت میں ہر خفض و رفع یعنی نماز میں ہر اونچ نیچ کے وقت رفعِ یدین کا ذکر ہے۔ (شرح مشکل الآثار: 5831)
٭ایک روایت میں صرف نماز کے شروع میں تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے رفعِ یدین کا ذکر ہے۔ (نصب الرّایۃ: 1/404) (مستخرج ابی عوانہ: 1572)

مذکورہ بالا تمام احادیث حضرت عبد اللہ بن عمرسے ہی مَروی ہیں، اور ان سب میں دیکھ لیجئے کہ کس قدر شدید متن کا اختلاف و اضطراب پایا جاتا ہے، نیز خود حضرت عبد اللہ بن عمرجوکہ اِس ”أصح مافی الباب“ روایت کے راوی ہیں، خود اُن کا عمل بھی رفعِ یدین کا نہیں تھا، چنانچہ مشہور اور جلیل القدر تابعی حضرت مُجاہد جنہوں نے ایک طویل زمانہ حضرت عبد اللہ بن عمر کے ساتھ گزارا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر کو صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔ (مصنّف ابن ابی شیبۃ: 2452)(طحاوی:1357)

جبکہ ترکِ رفعِ یدین کی روایات غیر مضطرب ہیں جن میں سند اور متن کا کوئی اختلاف اور اضطراب بھی نہیں پایا جاتا، اور نہ ہی اُن کے راوی کا عمل اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے پس ایسے میں اُنہیں کیوں اختیار نہ کیا جائے اور وہ کیوں قابلِ ترجیح نہ ہوں اور پھر اُس پر مزید یہ کہ وہ روایات قرآن کریم کے مُوافق اور تعاملِ صحابہ کے مطابق بھی ہیں، چنانچہ قرآن کریم کی آیات: ﴿قُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾ اور ﴿الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُون﴾ سے اِسی کی تائید ہوتی ہے، نیز خلفاء راشدین سمیت کئی صحابہ کرام اور تابعین کا عمل بھی اِسی کے مطابق رہا ہے اور اِسی وجہ سے اہلِ علم کے دو بڑے مرکز مدینہ منوّرہ اور کوفہ کے فقہاء کرام نے اِسی کو اختیار کیا تھا۔

حضور ﷺ کا سجدہ کا طریقہ کار
1۔ حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے سجدہ میں جاتے ہوئے اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھا اور سجدے سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اُٹھایا۔ (ابن ماجہ:882)

2۔ حضرت ابن عباس سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے:مجھے سات اعضاء پر سجدہ کا حکم دیا گیا ہے: چہرہ پر اور یہ کہتے ہوئے آپ نےاپنے ہاتھ سے ناک کی جانب اِشارہ کیا، اور دونوں ہاتھ، گھٹنے اور پاؤں کے کناروں پر۔ (نسائی: 1097) (مسلم: 491)

3۔ حضرت ابو حمید ساعدی فرماتے ہیں: آپ ﷺ نے سجدہ میں اپنی انگلیوں کو قبلہ رُخ رکھا۔ (صحیح ابن خزیمہ: 643)

4۔ آپ ﷺ نے سجدہ میں اپنے پاؤں کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف کیا۔ (صحیح ابن حبان: 1869)

5۔ حضرت براء بن عازب آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں: جب تم سجدہ کرو تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر اور کہنیوں کو اٹھا کر رکھو۔ (صحیح ابن خزیمہ: 656)

6۔ حضرت ابوحمید ساعدی نبی کریم ﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پھر نبی کریم ﷺ نے (سجدہ میں جانے کیلئے) اللہ اکبر کہا اور زمین پر سجدہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلووں سے الگ رکھا۔ (ابوداؤد: 730)

7۔ حضرت ابو حمید ساعدی فرماتے ہیں: آپ ﷺ نے جب سجدہ کیا تو اپنے ہاتھوں کو زمین پراِس طرح سے رکھاکہ ہاتھوں کو نہ بہت پھیلایا نہ بہت زیادہ سمیٹا۔ (صحیح ابن خزیمہ: 643)

8۔ حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ ہم سےحضرت براء بن عازب نے سجدہ کا طریقہ بیان کیا، پس آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھا اور اپنی سُرین اٹھائی، پھر فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ایسا ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ: 646)

9۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: ایک دفعہ رات کو (میری آنکھ کھلی تو) میں نے نبی کریم ﷺ کو( بستر پر) نہ پایا، میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو ٹٹولا تو میرا ہاتھ آپ ﷺ کے قدموں میں لگا، آپ سجدے میں تھے اور آپ کے دونوں پاؤں سیدھے کھڑے ہوئے تھے۔ (نسائی: 169)

10۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں: جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے اور اپنے سجدہ میں تین مرتبہ یہ کہے: ”سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى“ تو اُس نے اپنا سجدہ مکمل کرلیا، اور یہ کم سے کم مقدار ہے۔ (ترمذی: 261)

11۔ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو نماز سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر اطمینان کے ساتھ بیٹھو، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کر۔ (بخاری: 793)

دوسرا سجدہ: حدیثِ اعرابی میں نبی کریم ﷺ نے اعرابی کو نماز سکھاتے ہوئے فرمایا: پھر تم اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان کے ساتھ سیدھے بیٹھ جاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ دوسرا سجدہ کرو، پھر اُٹھ جاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ۔ (بخاری: 6667)

سجدہ سے قیام میں جانے کا طریقہ: حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نے سجدہ کیا تو اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھے اور جب آپ سجدہ سے اٹھے تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھایا۔ (ابن ماجہ: 882)

دو سجدوں کے بعد بیٹھنا نہیں(جلسہ استراحت): حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں :نبی کریم ﷺ نماز میں اپنے دونوں پاؤں کی انگلیوں پر زور دے کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ (ترمذی: 288) حضرت ابو مالک اشعری نبی کریم ﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں: آپ ﷺ نے تکبیر کہہ کر دوسرا سجدہ فرمایا پھر تکبیر کہی اور سیدھے کھڑے ہو گئے۔ (مسند احمد: 22906) نبی کریم ﷺ نے ایک اعرابی کو نماز سکھاتے ہوئے فرمایا: پھر تم اطمینان کے ساتھ دوسرا سجدہ کرو، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر یہی کام اپنی ساری نماز میں کرو۔ (بخاری: 6667) حضرت نعمان بن عیاش فرماتے ہیں: میں نے کئی صحابہ کرام کو پایا ہے، اُن کی حالت یہ تھی کہ جب پہلی اورتیسری رکعت میں سجدہ سے سر اٹھاتے تو سیدھا کھڑے ہوجاتے اور بیٹھتے نہ تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 3989) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں: میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود کو نمازمیں بڑے غور سے دیکھا، میں نے دیکھا کہ وہ (سجدہ سے اٹھنے کے بعد سیدھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بیٹھتے نہیں ہیں۔ (مصنف عبد الرزاق: 2966)

تمام رکعات کا طریقہ پہلی رکعت کی طرح ہے: حدیثِ اعرابی میں پہلی رکعت کا مکمل طریقہ سمجھانے کے بعد آپ ﷺ نے دوسری تمام رکعات کے لئے اسی طریقے کو متعین کیا، چنانچہ فرمایا: پھر یہی کام اپنی ساری نماز میں کرو۔ (بخاری: 6667)

دوسری رکعت میں ثناء، تعوذ نہیں ہے: نبی کریم ﷺ جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو اَلْحَمْدُ لِلہِ سے شروع فرماتے اور (ثناء کے لئے ) خاموشی نہ فرماتے۔ (مسلم: 599)

ہر دو رکعت میں قعدہ کیاجائے گا: حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: نبی کریم ﷺ ہر دو رکعت میں التحیات پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم: 498) حضرت فضل بن عباس نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں: نماز دو دو کرکے پڑھنا چاہیئے اور نماز کی ہر دو رکعت میں تشہد پڑھا جائے گا۔ (ترمذی: 385)

جلسہ اور قعدہ میں بیٹھنے کا طریقہ: نماز میں بیٹھنا خواہ دو سجدوں کے درمیان ہو یا قعدہ میں، اِسی طرح پہلا قعدہ ہو یا آخری سب کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بایاں پاؤں بچھا کر اُس پر بیٹھا جائے اور دایاں پاؤں اِس طرح سے کھڑا رکھا جائے کہ اُس کی اُنگلیاں قبلہ رُخ ہوں اور دونوں ہاتھ سامنے کی جانب دائیں بائیں ران پر ہوں۔ احادیثِ ذیل میں اِس کی تصریح ملاحظہ فرمائیں:

قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا ہوا اور دایاں کھڑا ہوا ہونا چاہیئے: حضرت عمرفرماتے ہیں: نماز کی سنت میں سے یہ ہے کہ تم اپنے بائیں پاؤں کوبچھاؤاور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھو۔ پھر فرمایا: نبی کریم ﷺ جب بھی نماز میں بیٹھتے تو اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرتے۔ (صحیح ابن خزیمہ: 679)

حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: نبی کریم ﷺ نماز میں جب بیٹھتے تو اپنے بائیں پاؤں کو بچھا لیتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے۔ (ابوداؤد: 783) حضرت ابوحمید ساعدی نبی کریم ﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں: پھر نبی کریم ﷺ نے اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ سے سر اُٹھایا اور اپنے بائیں پاؤں کو موڑ کر (بچھایا اور) اُس پر بیٹھ گئے (ابوداؤد: 963)

قعدہ میں دائیں پاؤں کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف ہونا چاہیئے: حضرت ابوحمید ساعدی نبی کریم ﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں: پھر آپ ﷺ بیٹھے اور اپنے بائیں پاؤں کو بچھایا اور دائیں پاؤں کے اگلے حصے (یعنی انگلیوں) کا رُخ قبلہ کی طرف کیا۔ (ابوداؤد: 963)

قعدہ میں دونوں ہاتھ دائیں بائیں ران پر ہونے چاہیئے: حضر ت عبد اللہ بن زبیر فرماتے ہیں: آپ ﷺ جب تشہد پڑھنے کے لئے بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے۔ (مسلم: 579)

تشہد کے کلمات: حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نےمجھے تشہد کے کلمات اس طرح سکھائے جیسے قرآن کریم کی سورت سکھاتے ہیں، اور اُس وقت میرا ہاتھ آپ کے ہاتھوں میں تھا، اور وہ تشہد کے کلمات یہ ہیں: اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ، اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ۔ (بخاری: 6265)

قعدہ اولی میں صرف تشہد پڑھا جائے گا: حضرت عبد اللہ بن مسعود کے بارے میں آتا ہے کہ وہ نماز کے درمیان (یعنی قعدہ اولی میں) ہوتے تو تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہو جاتے اور جب نماز کے آخر (یعنی قعدہ اخیرہ میں ) ہوتے تو تشہد کے بعد جتنا اللہ چاہتے، آپ دعاء کرتے، پھر سلام پھیر لیتے۔ ( ابن خزیمہ: 708) حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں :تشہد کا آہستہ پڑھنا سنت ہے۔ (ابوداؤد: 986)

تشہد میں انگشت شہادت سے اشارہ کرنا : تشہد میں ”اَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ کہتے ہوئے شہادت کی انگلی کو ” لَا“ پراُٹھایا جاتا ہے اور ” اِلَّا“ پر چھوڑ دیا جاتا ہے، بہت سی احادیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے، اِس کی تفصیل احادیثِ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :

تشہد میں انگلی سے اشارہ کا طریقہ: حضرت وائل بن حجرفرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے دو انگلیوں (یعنی چھوٹی اور اُس سے متصل انگلی) کو بند کیا اور( درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے ) حلقہ بنایا، اور میں نے اُن کو اس طرح اشارہ کرتے ہوئے دیکھا ہے پھر بشر نے انگوٹھے اور درمیانی انگلی سے حلقہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا ۔(ابوداؤد: 726)

اشارہ میں انگلی کا نہ ہلانا: حضرت عبد اللہ بن زبیر فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ جب تشہد پڑھتے تو انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اُسے حرکت دیتے نہیں رہتے تھے۔ (ابوداؤد: 989)

شہادت کی انگلی کو آخر تک بچھائے رکھنا: حضرت عاصم بن کلیب اپنے دادا (حضرت شہاب بن مجنون) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے پاس داخل ہوا، آپ نماز پڑھ رہے تھے، آپ کا بایاں ہاتھ بائیں ران پر اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھا ہوا تھا، آ پ نے انگلیوں کو بند اور انگشت شہادت کو پھیلا رکھا تھا اور آپ یہ دعاء پڑھ رہے تھے: يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِيْنِكَ۔ اے دلوں کو پلٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطاء فرما۔ (ترمذی: 3587)

درود شریف: حضرت کعب بن حجرہ فرماتے ہیں: ہم نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ پر سلام کا طریقہ تو سیکھ لیا ہے، درود کس طرح بھیجیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔(بخاری: 3370)

حضرت عبد اللہ بن مسعود کا یہ ارشاد مروی ہے: ”يَتَشَهَّدُ الرَّجُلُ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَدْعُو لِنَفْسِهِ“۔ آدمی کو چاہیے کہ تشہد پڑھے، پھر نبی کریم ﷺ پر درود پڑھے، پھر اپنے لئے دعاء کرے ۔(مستدرکِ حاکم: 990)

تشہد کے بعد کوئی بھی دعاء کی جا سکتی ہے: نبی کریم ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود کو تشہد کے کلمات سکھانے کے بعد فرمایا: ”ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ، فَيَدْعُو“ پھر تشہد کے بعد کوئی بھی پسندیدہ دعاء اختیار کر کے مانگے۔ (بخاری: 835)

ایک خاص دعاء: حضرت ابو بکر صدیق نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی: یا رسول اللہ! مجھے ایسی دعاء بتلائیے جو میں اپنی نماز میں مانگا کروں۔ آپ ﷺ نے یہ دعاء تلقین فرمائی: اَللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْلِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ۔ (بخاری: 6326)

سلام پھیرنا: حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: نبی کریم ﷺ نماز کو سلام پر ختم فرمایا کرتے تھے۔ (مسلم: 498) حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مَروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ‘‘ کہہ کر سلام پھیرا کرتے تھے۔ (ترمذی: 295) حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف (اچھی طرح) سلام پھیرا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے رخسارِ انور کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔ (ابوداؤد: 996) حضرت عتبان بن مالک فرماتے ہیں: ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے اور آپ کے سلام کے ساتھ سلام پھیرا کرتے تھے۔ (بخاری: 838)

نماز کے بعد دعاء: حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سی دعاء زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: رات کے آخری پہراور فرض نمازوں کے بعد۔ (ترمذی: 3499) حضرت عبد اللہ بن زبیرنے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز ختم ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعاء کررہا ہے، آپ نے اُسے دیکھا تو فرمایا: نبی کریم ﷺ نماز سے فارغ ہونے تک اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے۔ (طبرانی کبیر: 324) حضرت سلمان نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں: جب بھی کچھ لوگ اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالی کے حضور دعاء کرتے ہیں تو اللہ تعالی اُن کے ہاتھ میں اُن کی مانگی ہوئی چیز ڈال دیتے ہیں۔ (طبرانی کبیر: 6142) نبی کریم ﷺ کا یہ اِرشاد مروی ہے کہ کوئی جماعت جو جمع ہو اور اُن میں سے بعض دعاء کریں اور دوسرے لوگ اُس دعاء پر آمین کہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی دعاء کو قبول کرلیتے ہیں۔(مستدرکِ حاکم: 5478)

حضرت انس سے مَروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو سر پر پھیرتے اور فرماتے: ”بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ، اللَّهُمَّ أَذْهِبْ عَنِّي الْهَمَّ وَالْحَزَنَ “ اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اے اللہ! مجھ سے فکروں اور غموں کو دور کردے۔ (طبرانی اوسط: 3178)

مرد و عورت کی نماز کا فرق

1۔ صحابیِ رسول حضرت ابوسعید خدری سے مَروی ہے کہ آپ ﷺ نے اِرشاد فرمایا: مردوں کی سب سے بہترین صف پہلی اور عورتوں کی سب سے بہترین آخری ہے، آپ ﷺ مردوں کوکھل کر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور عورتوں کواس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں، اور آپ ﷺ مردوں کو اِس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ تشہد کی حالت میں اپنے بائیں پاؤں کو بچھا کر دایاں پاؤں کھڑا کریں، اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر(یعنی تورّک کےساتھ زمین پر سرین رکھ کر) بیٹھیں، اور فرماتے: اے عورتو! تم لوگ نماز میں اپنی آنکھوں کو اٹھایا مت کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نگاہ مردوں کے ستر پر پڑجائے۔ (سنن کبریٰ بیہقی: 3198)

2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے ایک مرتبہ عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا : ” تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ“ خوب اچھی طرح اکٹھے ہوکر اور سمٹ کر نما زپڑھے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2778)

3۔ حضرت ابن جریج حضرت عطاءسے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا: عورت رکوع کرتے ہوئے سمٹ کر رکوع کرے گی چنانچہ اپنے ہاتھوں کواُٹھاکر اپنے پیٹ کے ساتھ ملالے گی، جتنا ہوسکے سمٹ کررکوع کرے گی، پھر جب سجدہ کرے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے (جسم کے) ساتھ ملالے گی، اور اپنے پیٹ اور سینہ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملالے گی اور اور جتنا ہوسکے سمٹ کر سجدہ کرے گی۔(عبد الرزاق: 5069)

فائدہ: اِس حدیث سے عورت کی نماز کا اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی پوری نماز میں شروع شروع سے آخر تک اِس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ وہ نماز میں زیادہ سے زیادہ سمٹ کر ارکان کی ادائیگی کرے، چنانچہ حدیثِ مذکور میں بار بار ” وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ “ کے الفاظ اِسی ضابطہ کو بیان کررہے ہیں۔

4۔ حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نےمجھ سے ارشاد فرمایا:اے وائل! جب تم نماز پڑھنے لگو تو دونوں ہاتھ کانوں کے برابر اٹھاؤ، اورعورتیں اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتیوں تک اٹھائیں۔ (طبرانی کبیر: 22/19)

5۔ حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ کیا عورت تکبیر کہتے وقت اپنے ہاتھوں کو مردوں کی طرح اٹھائے گی؟ تو حضرت عطاء نے فرمایا: نہیں، عورت اپنے ہاتھوں کو مردوں کی طرح نہیں اٹھائے گی۔ اس کے بعد انہوں نے (سکھلانے کے لئے ) بہت پست انداز میں اپنے ہاتھوں سے (تکبیر کا) اشارہ کیا اور ہاتھوں کو اپنی طرف سمیٹ کررکھا، اور فرمایا : عورت کی حالت (نماز کے بہت سے افعال میں ) مرد کی طرح نہیں ہے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 5066)

6۔ حضرت امِّ درداء کے بارے میں آتا ہے کہ وہ نماز کو شروع کرتے ہوئے (یعنی تکبیر تحریمہ کہتے وقت) اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اُٹھایا کرتی تھیں۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ:2470)

7۔ حضرت عطاء سے عورت کے بارے میں دریافت کیاگیا کہ وہ نماز میں کہاں تک اپنے ہاتھ اُٹھائے گی؟ آپ نے اِرشاد فرمایا: اپنی چھاتیوں تک۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2471)

8۔ اِمام اوزاعی حضرت ابن شہاب زھری کا بھی یہی قول نقل فرماتے ہیں: عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اُٹھائے گی۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2471) حضرت حمّاد بھی یہی فرماتے ہیں کہ عورت نماز کو شروع کرتے ہوئےاپنے ہاتھ اپنی چھاتی تک اُٹھائے گی۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2473)

9۔ حضرت عاصم احول فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حفصہ بنتِ سیرین کو دیکھا کہ اُنہوں نماز کی تکبیر کہتے ہوئے اپنے ہاتھ چھاتی تک اُٹھائے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2475)

10۔ حضرت ابن جریج حضرت عطاء کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ عورت بحالت قیام اپنے ہاتھوں کو جتنا سمیٹ سکتی ہے سمیٹے گی۔ (مصنّف عبد الرزاق: 5067)

11۔ حضرت ابن جریج حضرت عطاء سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا: عورت رکوع کرتے ہوئے سمٹ کر رکوع کرے گی چنانچہ اپنے ہاتھوں کواُٹھا کر اپنے پیٹ کے ساتھ ملالے گی، اور جتنا ہوسکے سمٹ کررکوع کرے گی۔ (مصنّف عبد الرزاق: 5069)

12۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی (دائیں) ران کو دوسری (بائیں) ران پر رکھے یعنی سمٹ جائے اور سجدہ میں جائے تواپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے اس طرح ملائے کہ پردہ کا لحاظ زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔ اللہ تعالی اس عورت کی طرف دیکھتے ہیں اور فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ: اے فرشتو! تم گواہ بن جاؤ، میں نے اس عورت کی مغفرت کردی۔ (سنن کبریٰ بیہقی: 3199)

13۔ حضرت یزید بن حبیب سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، آپ ﷺ نے ان کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو جسم کے بعض حصوں کو زمین سے چمٹادو، اس لئے کہ اس (سجدہ کرنے ) میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے۔ (سنن کبریٰ بیہقی: 3201)

14۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ مردوں کوکھل کر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور عورتوں کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں۔ (سنن کبریٰ بیہقی: 3198)

15۔ حضرت علی سے موقوفاً مروی ہے کہ عورت جب سجدہ کرے تو اسے چاہیے کہ سمٹ کر کرے اور اپنی رانوں کو پیٹ کے ساتھ ملا کر کر سجدہ کرے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 5072) 16۔ حضرت حسن فرماتے ہیں: عورت سجدے میں اپنے آپ کو سمیٹے گی۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2781)

17۔ حضرت معمر سےحضرت حسن اورحضرت قتادہ کا یہ قول منقول ہے کہ : جب عورت سجدہ کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے آپ کو سمیٹے، اور اپنے پیٹ کو رانوں سے جدا نہ کرے، کہیں اس کی سرین نہ اٹھ جائیں۔ (مصنّف عبد الرزاق: 5068)

18۔ حضرت علی سے مروی ہے: جب عورت سجدہ کرے توسرین کے بل بیٹھے اور اپنی دونوں رانوں کو ملاکر رکھے۔ ( ابن ابی شیبہ: 2777)

19۔ حضرت مُجاہد سے مَروی ہے کہ وہ اِس بات کو نا پسند کیا کرتے تھے کہ کوئی مرد سجدہ کرتے ہوئے عورت کی طرح اپنے پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2780)

20۔ حضرت ابراہیم نخعی سے مروی ہے: جب عورت سجدہ کرے تو اُسے چاہیئے کہ وہ اپنی رانوں کو ملالے اور اپنے پیٹ کو اُن دونوں رانوں پر رکھ دے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2779)

21۔ حضرت ابراہیم نخعی سے مروی ہے، فرماتے ہیں: جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ چپکا دے، اور اپنی سرین کو اُٹھاکر نہ رکھےاور مَردوں کی طرح کھل کر سجدہ نہ کرے (یعنی اپنے جسم کو الگ الگ کرکے نہ رکھے)۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ: 2782)

22۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: عورت کو حکم دیاجاتا تھا کہ وہ سجدہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں اور پیٹ کو اپنی ران پر رکھے اور مَردوں کی طرح کھل کر (الگ الگ ہوکر) سجدہ نہ کرے تاکہ اُس کی سُرین (مردوں کی طرح) نہ اُٹھ جائے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 5071)

23۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: عورت نماز میں (جلسہ اور قعدہ میں) ایک جانب ہوکر(یعنی بائیں سرین پر تورّک کے ساتھ) بیٹھے۔ (ابن ابی شیبہ: 2792)

24۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت صفیّہ بنت ابی عُبید جب نماز میں پہلے یا دوسرے قعدہ میں بیٹھتیں تو سمٹ کر (تورّک کے ساتھ) بیٹھا کرتی تھیں۔ (مصنّف عبد الرزاق: 5074)

25۔ حضرت ابن جریج حضرت عطاءسے نقل فرماتے ہیں کہ عورت کا دونوں سجدوں کے درمیان (جلسہ میں) بیٹھنا اُسی طرح ہوگا جیسے وہ قعدہ میں بیٹھتی ہے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 5076)

26۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: عورت کو حکم دیا جائے گا کہ وہ نماز میں دو رکعت پر(یعنی قعدہ میں) اِس طرح بیٹھے کہ وہ اپنی رانوں کو ایک جانب ملا لے (یعنی تورّک کے ساتھ بیٹھے)۔ (مصنّف عبد الرزاق: 5077)

27۔ حضرت ابن جریج حضرت عطاء کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: عورت قعدہ میں جس طرح چاہے بیٹھے بشرطیکہ وہ سمٹ کر بیٹھے۔ (مصنّف عبد الرزاق: 5078)

اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔

البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟

تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔

موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)

اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔

بے بنیاد: صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کا دین ایک ہے مگر اہلتشیع کی بنیاد پنجتن نہیں ہیں، بارہ امام نہیں ہیں، صحابہ کرام نہیں ہیں۔ کون ہیں یہ اہلتشیع؟؟ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general