Ya Allah Madad

یا اللہ مدد ۔۔۔ یا رسول اللہ مدد

1۔ 24 گھنٹوں میں ہر لمحہ اللہ کریم بن مانگے ہمارے نیک اعمال پر ہماری مدد ثواب، رحمت، برکت، اجر اور درجہ بلند کر کے فرماتا ہے۔ کسی بھی مشکل میں بھی اللہ کریم فرشتوں، جنوں، انبیاء و اولیاء کی ارواح، ابابیلوں وغیرہ (اسباب) سے مدد فرماتا ہے، چاہے ہم دعا کریں یا نہ کریں۔ اسلئے حقیقی مددگار ہر وقت اللہ کریم ہے اور جس سبب کو مدد کے لئے مقرر کرے وہ بھی مددگار ہے۔

2۔ اللہ کے سوا کسی کو الہ سمجھنا شرک ہے، اللہ کے سوا کسی کو الہ سمجھ کر پکارنا شرک ہے، اللہ کریم کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے مگر اللہ کریم کی عطا اور حُکم سے رسول اللہ، اللہ کے بندے، مقرب فرشتے وغیرہ سب مدد کرتے ہیں۔ اسی طرح ان احادیث پر عمل جائز ہے ، اگر حقیقی مددگار اللہ کریم کو سمجھیں:

حضور ﷺ نے فرمایا: جب تم میں کسی کی کوئی چیز گم جائے اورمدد مانگنی چاہے اور ایسی جگہ ہوجہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے "یا عبدالله اعینونی” اے الله کے بندو! میری مدد کرو۔ الله تعالٰی کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا، وہ اس کی مدد کرینگے۔ (اسے طبرانی نے عتبہ بن غزوان سے روایت کیا) (المعجم الکبیر حدیث 290)

حضور ﷺ نے فرمایا : جب جنگل میں جانور چھوٹ جائے تو یوں آواز لگائے "یا عبدالله احبسوا” اے الله کے بندو! روک دو توعباد الله اسے روک دیں گے۔ (اس حدیث کو ابن السنی نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے)

حضور ﷺ نے فرمایا : یوں ندا کرو "أَعِيْنُوْنَا، عِبَادَ ﷲِ، عباد اللہ” مدد کرو اے اللہ کے بندو۔ ( اسے ابن ابی شیبہ اور بزار نے ابن عباس سے روایت کیا) امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔ مکمل احادیث کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں

نوٹ: ان سب احادیث (1) امام محدث طبرانی نے "طبرانی کبیر” 217/10 حدیث نمبر 10518 (2) حافظ ابوبکر دینوی عمل الیوم و الیلہ حدیث نمبر 509 ص 170 (3) امام ابن ابی شیبہ، المصنف جلد 10 ص 390 حدیث 9770 (4) امام بزار نے کشف الاستار عن زوائد الزار ص 34، 34/4 حدیث 3128 (5) حافظ الہیثمی نے مجمع الزوائد ج 10 ص 132 (6) ابویعلی جلد 9 ص 177 حدیث 5269 (7) البیہقی فی شعب الایمان جلد اول حدیث 167 (1f60e قاضی محمد بن علی شوکارنی، تحفتہ الزاکرین ص 181 کے سیکن حوالہ جات کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔

اصول: یہ حدیث کئی طریق سے روایت کی گئی ہے اور کثرت طرق سے حدیث حسن ہوجاتی ہے. جرح و تعدیل کمنٹ سیکشن میں موجود ہے۔

فتاوی رضویہ: بریلوی عالم جناب احمد رضا خاں صاحب یہ حدیثیں کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے روایت فرمائیں، شروع سے اکابر علمائے دین رحمہم اللہ تعالٰی کی مقبول ومعمول ومجرب ہیں۔ (جلد 21، صفحہ 318، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

نشرالطیب: دیوبندی عالم اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں کہ مواہب الدنیہ،ابن النجار، ابن عساکر اور اب الجوزی نے محمد بن حرب ہلالی سے روایت کیا: ایک اعرابی آیا اور رسول اللہ کی قبر کی زیارت کر کے عرض کیا یا خیر الرسل اللہ تعالی نے آپ پر سچی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ارشاد ہے وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا: اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کے حضور آپ کے وسیلے سے شفاعت چاہتا ہوں نیز اسی طرح کا مفہوم رشید احمد گنگوہی نے بھی لکھاہے۔

جماعتیں: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتیں ایک عقائد اور ایک تعلیم (پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد یعنی ذکر ولادت، عُرس) والی ہیں اور یہ تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء + اپلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے۔

اختلاف: دلائل سے ہٹ کر اہلحدیث جماعت سے ایک سوال ہے کہ اہلسنت کے نزدیک ان احادیث پر عمل حضور کو حاضر ناظر سمجھ کر، عالم الغیب سمجھ کر، مستقل بالذات سمجھ کر کرنے کو کہاں لکھا ہے؟ یہ تو ایک وظیفہ ہے جس پر عمل صرف جائزہے، اگر کوئی ان احادیث پر عمل نہ کرے تو کوئی گناہ گار نہیں مگر اہلحدیث کی جماعت کے کس "مجتہد” کے نزدیک ضعیف یا حسن احادیث پر عمل بدعت و شرک ہے؟

رافضیت: مانا کہ رافضیت کعبہ شریف سے زیادہ قبور کی پوجا کرتی ہیں کیونکہ اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔

موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)

اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی مستند ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔

بے بنیاد: صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کا دین ایک ہے مگر اہلتشیع کی بنیاد پنجتن نہیں ہیں، بارہ امام نہیں ہیں، صحابہ کرام نہیں ہیں۔ کون ہیں یہ اہلتشیع؟؟ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general