مجبوری کی رشوت
قرآن و احادیث کا اثر اُس پر ہوتا ہے، جس نے اللہ کریم کا دیدار کرنے کے لئے اپنی زندگی کو ہر برائی سے بچانے کی قسم کھائی ہو، دوسرا ہمیشہ برائی سے بچنے کے لئے اللہ کریم کے تعاون کا منتظر ہو۔
واقعہ: ایک پولیس والے نے رکشے والے کا چالان کاٹنا تھا تو رکشے والے نے 100 کا نوٹ پولیس والے کو لگا دیا۔ رکشے والے کو پوچھا کہ تم نے رشوت کیوں دی، کہنے لگا کہ باو جی کیا کریں، کون کچہری اوربینک کی لائن میں لگ کر اپنا وقت برباد کرے اور دوسرا انہوں نے پھر بھی ہمیں نہیں چھوڑنا لیکن رشوت کے بعد کچھ دن کچھ نہیں کہتے۔ منہ کھائے آنکھ شرمائے۔
پولیس والے سے پوچھا کہ تم نے رشوت کیوں لی تو کہنے لگا کہ جناب گھر میں ماں بیمار ہے، بچے پڑھتے ہیں اور کمائی اتنی ہے نہیں کہ گذارہ ہو سکے، اسلئے روزانہ 5 یا 10 ہزار کما لیتے ہیں۔
فرق: ایک کو گورنمنٹ تنخواہ دیتی ہے وہ بھی مجبور ہو کر بچوں کو پالنے کی بات کرتا ہے اور ایک رشوت دے کر بھی اپنے بچوں کو پالنے کی بات کرتا ہے۔ کون عظیم ہے خود فیصلہ کریں۔
واقعہ: ایک دفعہ بائک کا لائسنس بنوانا تھا تو لائن میں لگے ہوئے تھے تو بہت سے ایجنٹوں نے کہا کہ کام نہیں بننا، کچھ پیسے دیں تو آپ کا کام جلدی کروا دیتے ہیں، اُس پر کہا کہ کام کی کوئی جلدی نہیں کیونکہ یہاں کھڑا ہونا قیامت والے دن کالے منہ سے کھڑے ہونے سے بہتر ہے۔ یہ وقت تو گذر جائے گا مگر کالے منہ سے وقت نہیں گذرے گا۔
رشوت کی تعریف : حق کو ناحق بنا دینے یا نا حق کو حق بنا دینے کے لئے جو مال یا کوئی چیز دی جائے وہ رشوت کہلاتی ہے۔
رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ ( سنن ابو داود 3580، ترمذی 1337، ابن ماجه 2313)
’’رشوت لینا مطلقًا حرام ہے، جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے (وہ) رشوت ہے یونہی جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے لیکن اپنے اوپر سے دفعِ ظلم (یعنی ظلم دور کرنے) کے لئے جو کچھ دیا جائے (وہ) دینے والے کے حق میں رشوت نہیں، یہ دے سکتا ہے، لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اسے لینا حرام۔ (فتاوی رضویہ، 23/ 597)
’’رشوت لینا مطلقاً گناہِ کبیرہ ہے، لینے والا حرام خوار ہے، مستحقِ سخت عذابِ نار ہے، دینا اگر مجبوری اپنے اوپر سے دفعِ ظلم کو ہو تو حرج نہیں اور اپنا آتا وصول کرنے کو ہو تو حرام ہے اور لینے دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور دوسرے کا حق دبانے یا اور کسی طرح ظلم کرنے کے لئے دے تو سخت تر حرام اور مستحق اَشَد غضب و اِنتقام ہے۔ (فتاوی رضویہ، 18 / 469)
حل: جس نے کوئی مال رشوت سے حاصل کیا ہو تو اس پر فرض ہے کہ جس جس سے وہ مال لیا انہیں واپس کر دے، اگر وہ لوگ زندہ نہ رہے ہوں توان کے وارثوں کو وہ مال دیدے، اگر دینے والوں کا یا ان کے وارثوں کا پتا نہ چلے تو وہ مال فقیروں پر صدقہ کر دے ۔ خرید و فروخت وغیرہ میں ا س مال کو لگانا حرامِ قطعی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ مالِ رشوت کے وبال سے سبکدوش ہونے کانہیں ہے۔ (فتاوی رضویہ، 23/ 551)
رشوت پر بہت سے آرٹیکل ہوں گے جس میں لکھا ہو گا کہ (1) کسی منصب، نوکری، کسی کا حق مار کر خود برا جمان ہونا، (2) جج، پولیس آفیسر سے فیصلہ اپنے حق میں کروانے کے لئے (3) اپنا کام جلدی نپٹانے کے لئے (4) اسکول کے بچوں کو استاد کا ٹیوشن کے بغیر پاس نہ کرنا (5) فتوی غلط دینے کےلئے جو کچھ لیا دیا جاتا ہے سب رشوت ہی کہلاتا ہے۔
حق: اللہ کریم سے دعا مانگیں کہ ہم حق دینے والے بنیں اور حق لینے والے نہ بنیں، مسلمانوں کو اکٹھا کرنے والے بنیں، ان میں شمار نہ ہو جو مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے والے ہیں۔
حوصلہ: اپنی اپنی سمجھ سے اچھا فیصلہ کریں، کسی کو اچھا مشورہ دیں، اپنی زندگی دین پر چل کر گذاریں، اس سے پہلے کہ ہمیں موت آ جائے اور مجاہدے کا وقت ختم ہو جائے اور مشاہدے کا وقت شروع ہو جائے۔