سَتْرِ عَورَت
ستر عورت کے معنی ہیں بدن کا وہ حصہ جس کا مرد و عورت کوچھپانا فرض ہے۔ ستر ہر حال میں فرض ہے خواہ نماز میں ہو یا نہیں ، تنہا ہو یا کسی کے سامنے بلا کسی صحیح غرض تنہائی میں بھی کھولناجائز نہیں۔
البتہ نماز میں ایسا لباس پہنیں جس سے رکوع وسجود کرنے میں آسانی ہو۔ پینٹ ہاف شرٹ یا فُل شرٹ کے ساتھ پہنی ہوتو شرٹ کو پینٹ کے اندر رکھیں تاکہ سجدے کے دوران جسم پیچھے سے ننگا نہ ہو کیونکہ نماز میں مرد کے کاندھے اور ناف (تُنّی) سے لے کر گھٹنوں (گوڈے) تک کپڑا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح دھوتی باندھنے والا دھیان رکھے کہ نماز کے دوران گُھٹنوں سے لے کر ران تک کا حصہ نظر نہ آئے۔
احادیث: اپنى ران ننگى مت كرو، اور نہ ہى تم كسى زندہ يا مردہ كى ران ديكھو۔ (ابو داود 3140، ابن ماجہ 1460) نبی کریم ﷺ نے معمر کی ننگی رانیں دیکھ کر فرمایا ” اے معمر اپنى رانيں ڈھانپ لو، كيونكہ رانيں ستر ميں شامل ہيں۔ (مسند احمد 21989) اسی طرح نبی کریم ﷺ نے جرھد کی ننگی ران دیکھ کر فرمایا: كيا تمہيں معلوم نہيں كہ ران ستر ميں شامل ہے ؟ (مسند احمد 15502، ابوداود 4014، ترمذی 2798)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایک ہی کپڑا ہو تو اس طرح نہیں اوڑھنا چاہیے کہ اُس کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو۔ (صحیح مسلم 1151)
2۔ عورت کا چہرہ، دونوں ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ سارا جسم پردے میں ہونا ضروری ہے۔ اسلئے نماز میں سر ڈھانپنے کے لئے ایساکپڑا لے، جس سے اس کے بال نہیں بلکہ بالوں کی چمک بھی نظر نہ آئے، فُل بازو پہنے گی اور شلوار بھی پیروں تک ہو تاکہ سجدے میں جاتے ہوئے ٹخنوں سے اوپرکپڑا نہ ہو۔
احادیث: سیدہ ام سلمہ سے پوچھا گیا کہ عورت كس لباس ميں نماز ادا كرے تو انہوں نے جواب ديا: ” عورت كو نماز دوپٹے اور ایسے لباس میں ادا كرنى چاہيے جس ميں اس كے پاؤں كا اوپر والا حصہ بھى چھپ جائے۔ (ابو داود 639) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالى بالغ عورت كى نماز اوڑھنى كے بغير قبول نہيں فرماتا۔ (ابو داود 641، ترمذی 377، ابن ماجہ 655)
اگر لباس اتنا باريك ہو كہ وہ نيچے سے بدن كو ظاہر كرے یا دوپٹہ اتنا باریک ہو کہ سر کے بالوں کی چمک نظر آئے تو يہ لباس عورت کا پردہ نہيں ہو گا۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ۔۔ لباس پہننے کے باوجود ننگی عورتیں۔ (مسلم 2128)
تنگ لباس: عورت ہو یا مرد تنگ لباس میں نماز نہ پڑھے جس سے اس کے سارے اعضاء نظر آتے ہوں۔ گھر میں بھی اس اسٹائل سے بیٹھیں کہ آپ کے مخصوص اعضاء ابھر کر نظر نہ آئیں۔
فرق: کوئی ٹوپی پہن لے یا عمامہ (دستار) باندھ لے تو زیادہ ثواب ہے۔ ٹوپی فرض، واجب، سنت موکدہ میں نہیں آتی بلکہ یہ مستحب میں آتی ہے۔ اگر اہلحدیث ضد میں ٹوپی نہ پہنیں تو غلط ہے اور اگر یہ سمجھیں کہ ضروری نہیں تو بالکل ٹھیک ہے نماز ہو جائے گی۔ البتہ اللہ کریم کے حضور خوبصورت بن کر کھڑا ہونا چاہئے۔
فرقہ واریت: اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء نے 1924 سے پہلے 600 سالہ خلافت عثمانیہ کے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کس اصول اور کس مجتہد کے کہنے پر کیا، اگر اصول اور مجتہد کا نام بتا دیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی کہ اُس مجتہد نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ تعلیم اہلسنت میں کوئی بدعت و شرک نہیں ہے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ کے دور، اجماع امت کا دور، اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اتحاد امت صرف اور صرف دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر ہو سکتا ہے لیکن علماء اور جماعتوں پر نہیں۔
تبدیلی دین: اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے کیونکہ مسلمانوں میں خلافت چلی لیکن امامت کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ سیدنا علی پر بہتان ہے کہ وہ پہلے امام ہیں کیونکہ آپ نے نہ تو آئینی، قانونی، شرعی طور پر آپ نے امامت کی بیعت نہیں لی بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن کر کام کیا ہے۔ اہلتشیع حضرات جو امامت کو نہ مانے اس کو مسلمان نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیت مسلمان نہ رہے۔ چودہ اور بارہ کا عقیدہ اسلام کے خلاف اور ایک بے بنیاد دین کی غلطی ہے۔