نماز کی نیت اور رکعت
1۔ تمام اہلسنت کہلانے والی جماعتوں کے نزدیک نماز کی نیت کرنا لازم ہے یعنی ہر نمازی اللہ اکبر کہنے سے پہلے، دل میں یہ سوچے یا کہے کہ کونسی نماز اور کتنی رکعت فرض، واجب، سنت یا نفل نماز پڑھنے لگا ہے۔
2۔ سب اہلسنت کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی زبان سے ایسے چار نماز ظہر، واسطے اللہ تعالی، منہ قبلے کی طرف، پیچھے اس امام کے نیت نہیں کی، اسلئے عوام کے لئے بھی بہتر یہی ہے کہ زبان سے نیت نہ کریں کیوںکہ نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں۔
3۔ البتہ اہلسنت کا یہ کہنا ہے کہ جہاں نبی کریم ﷺ کی زبان سے نیت کرنے کی حدیث نہیں ہے، اسی طرح زبان سے نیت کرنے کو منع کرنے کی بھی حدیث نہیں ہے۔ اسلئے ہم زبانی نیت کرنے والوں کو گناہ گار یا بدعتی نہیں کہہ سکتے۔
ارادہ: ہر مسلمان قبلہ رُخ ہو کر (اکیلے یا امام کے پیچھے) ”دل“میں ایک لمحے کیلئے سوچے کہ کیا پڑھنے لگا ہوں جیسے 2 رکعت فجرفرض یا 4 سنت ظہر یا 3 فرض مغرب وغیرہ اور ساتھ ہی ”اللہ اکبر“ کہہ دے۔
سوچ: امام اور عوام کا منہ ”قبلہ“ کی طرف ہی ہوتا ہے، امام کی نیت امامت کروانے اور عوام کی نیت امام کے پیچھے”نماز“ پڑھنے کی ہوتی ہے۔ اسلئے منہ قبلہ کی طرف اور پیچھے اس امام کے کہنے کی ضرورت نہیں۔
نماز میں ایک، دو، تین یا چار رکعت ہوتی ہیں (نماز میں ہر دو سجدے کے بعد ایک رکعت ختم ہوتی ہے اور کھڑے ہونے پر دوسری رکعت شروع ہوتی ہے)۔ پانچ وقت کی نماز کی فرضیت کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے جیسے:
پانچ نمازیں: صحیح بخاری 7372: سیدنا معاذ بن جبل کو حضورﷺ نے فرمایا کہ یمن میں عوام کو بتانا کہ اللہ کریم نے تم پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے۔ بخاری 3221 میں بھی پانچ وقت کی فرض نماز کا وقت حضور ﷺ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا۔ بخاری 3935 میں بھی پانچ وقت کی فرض نمازوں کی رکعات بتائی گئی ہیں۔
سنت موکدہ: ترمذی 415، مسلم 730، ابو داود 1250: بارہ رکعتیں سنت موکدہ (چار رکعت ظہر سے پہلے، دو ظہر کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو نماز فجر کی) ادا کرنے والوں کیلئے جنت میں گھر کی بشارت ہے۔ صحیح بخاری 1159: فجر کی دو رکعتوں کو ہمیشہ حضورﷺ نے ادا کیا۔
نفل: ترمذی 428، ابوداود 1269: حضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی حفاظت کرتے تو اللہ تعالی اس پر آگ کو حرام قرار دیا“۔ یہ ثبو ت ہے کہ نماز ظہر سے پہلے چار رکعت سنت موکدہ ظہر اور دو رکعت سنت موکدہ ظہر اور دو نفل فرض نماز کے بعد ہیں۔
سنت غیر موکدہ عصر: ترمذی 430، ابو داود 1271: اللہ تعالی اس شخص پر رحم کرے جو عصر کی نماز سے قبل چار رکعت پڑھتا ہے۔ ابو داود 1272 کے مطابق اگر وقت کم ہو تو دو رکعت سنت غیر موکدہ عصر پڑھ لیں۔
مغرب کی سنت موکدہ: بخاری 1180 اور مسلم 1699 کے مطابق حضورﷺ مغرب کی نماز کے بعد دو رکعت سنت موکدہ ادا کرتے۔ البتہ مغرب کے دو نفلوں کے متعلق حضورﷺ کی حدیث نہیں ملتی، البتہ سیدنا عبداللہ بن عمر کا قول ہے کہ ”جس نے مغرب کی نماز کے بعد چار رکعت پڑھیں تو ایک غزوے کے بعد ایسے ہے جیسے دوسرا غزوہ کرنے والا۔
عشاء کی سنت غیر موکدہ: چار رکعت سنت موکدہ کا ثبوت حضورﷺ کی حدیث سے نہیں ملتا (اگر کسی کی نظر میں حوالہ ہو تو ضرور بتائے) البتہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔
عشاء کی سنت موکدہ اوردو نفل: صحیح بخاری 1180، مسلم 1699 اور بخاری 697 میں دو سنت موکدہ اور دو نفل یعنی چار رکعت عشاء کے بعد ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
نماز وتر واجب: وتر ایک علیحدہ نماز ہے جس کا ثبوت ابو داود 1419 اور 1416 میں موجود ہے، اسلئے بخاری 541 کے مطابق وتر عشاء کی نماز کے ساتھ، سونے سے پہلے، سونے کے بعد، فجر کی اذان سے پہلے ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ وتر کی نماز واجب ہے اگر نمازوتر چھوٹ جائے تو قضا کی جائے گی۔
جمعہ کے بعد: آثار صحابہ کرام و احادیث سے جمعہ کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت سنت موکدہ جمعہ کا ثبوت ملتا ہے اور نماز جمعہ کے بعد بخاری 895 اورمسلم 882 کے مطابق دو رکعت سنت موکدہ اور مسلم 881 سے چار رکعت جمعہ سنت موکدہ کا ثبوت ملتا ہے۔ اہلسنت دونوں احادیث پر عمل کر کے جمعہ کی چار اور دو رکعت سنت موکدہ یعنی 6 رکعت سنت موکدہ ادا کرتے ہیں اور آخر میں دو رکعت نفل ہیں۔
نیت: نیت دل کے ارادے کا نام ہے اس کا زبان سے تعلق نہیں ہے، حضورﷺ نے کبھی بھی زبان سے نیت نہیں کی، البتہ اہلسنت کے نزدیک زبان سے نیت کرنا جائز ہے مگر کوشش کریں کہ حضورﷺ کے طریقے کے مطابق دل میں نیت کریں۔ ہر مسلمان نماز ادا کرنے سے پہلے قبلہ رُخ ہی ہوتا ہے، جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے پر امام کے پیچھے ہی ہوتا ہے، عبادت ہمیشہ اللہ کے لئے ہی کرتا ہے، اسلئے نیت میں یہ سب کہنا لازم نہیں۔ ہر فرض نماز کے نام ہیں اور بعض نوافل کے بھی نام ہیں جیسے:
نماز فجر: صبح کی پہلی نماز کو فجر کہتے ہیں جس میں امام سے پہلے 2 رکعت سنت موکدہ ادا کرتے ہیں اور پھر امام کے پیچھے 2 رکعت فرض ادا کرتے ہیں۔ اسلئے 2 رکعت سنت موکدہ فجر دل میں کہیں اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کریں۔ امام کے پیچھے دل میں کہیں کہ 2 رکعت فرض فجراور امام کے اللہ اکبر کہنے کے بعد عوام ہمیشہ اللہ اکبر کہے گی اور کہہ کر ہاتھ باندھ لیں۔
نماز ظہر: بارہ بجے زوال کے بعد کی نماز کو نمازِ ظہر کہتے ہیں جس میں 4 رکعت سنت موکدہ ظہر، امام کے پیچھے 4 فرض ظہر، اُس کے بعد 2 رکعت سنت موکدہ ظہر اور پھر 2 نفل ادا کرتے ہیں۔ فرض، سنت موکدہ اور نفل نماز کی نیت دل میں کر کے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں۔
نماز عصر: سورج کی گرمی کم ہونے پر یعنی سورج غروب ہونے سے تقریباً دو گھنٹے پہلے کی نماز کو نمازعصر کہتے ہیں جس میں 4 رکعت سنت غیر موکدہ عصر کی نیت کرتے ہیں اور امام کے پیچھے 4 رکعت فرض عصر کی نیت دل میں کر کے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں۔ سنت غیر موکدہ عصر و عشاء کی دوسری رکعت میں التحیات، درود، دعا کے بعد سلام نہیں کرنا بلکہ کھڑا ہو کر سبحانک اللہ سے شروع کریں گے یعنی دو دو رکعت مکمل پڑھنی ہیں مگر سلام ایک کرنا ہے۔
نماز مغرب: سورج غروب ہونے کے بعد کی نماز کو نمازِ مغرب کہتے ہیں جس کا وقت تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ تک ہوتا ہے جس میں 3 فرض مغرب امام کے پیچھے، 2 سنت موکدہ مغرب اور 2 نفل کی نیت دل میں کر نے کے بعد اللہ اکبر کہہ کر نماز میں شامل ہو جائیں۔
نماز عشاء: نماز مغرب کے ایک گھنٹہ بیس منٹ کے بعد نماز عشاء کا وقت شروع ہوتا ہے جس میں 4 رکعت سنت غیر موکدہ عشاء، پھرامام کے پیچھے 4 رکعت فرض عشاء، اس کے بعد 2 رکعت سنت موکدہ عشاء، 2 نفل، 3 وتر واجب اور پھر 2 نفل کی نیت دل میں کرنی ہے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں۔
نماز جمعہ: جمعہ والے دن ظہر کی نماز نہیں ہوتی، اسلئے 4 رکعت سنت موکدہ جمعہ، پھر امام کے پیچھے 2 فرض جمعہ، پھر 4 رکعت سنت موکدہ جمعہ، 2 رکعت سنت موکدہ جمعہ اور 2 نفل کی نیت دل میں کریں اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دیں۔
نوافل: تہجد، اشراق، چاشت، اوابین اور تسبیح نماز یہ نوافل کے نام ہیں۔
تہجد: کا وقت عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور فجر کی اذان پر ختم ہوتا ہے، کچھ کہتے ہیں کہ عشاء کے آخری 2 نفل تہجد کے ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ تہجد کے لئے سونا لازم ہے، کچھ کہتے ہیں کہ سونا شرط میں شامل نہیں بلکہ جب مرضی عشاء کے بعد نفل تہجد کی نیت سے پڑھ لیں۔ تہجد کی نماز میں کوئی بھی سورتیں پڑھ سکتے ہیں کوئی ممانعت نہیں۔ تہجد کے کم از کم نفل 2 اور زیادہ سے زیادہ 12 ہیں۔ 2 رکعت تہجد نفل کی نیت دل میں کر کے اللہ اکبر کہیں۔
اشراق: سورج نکلنے کے 20منٹ بعد 2 رکعت پڑھیں یا دو دو کر کے چار رکعت اشراق کی نماز ادا کریں۔ دل میں کہیں کہ دو رکعت اشراق نفل اور پھر اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں۔
چاشت: اشراق کے ایک گھنٹہ بیس منٹ بعد چاشت کے دو دو کرکے 4 نفل یا 2 نفل ادا کرسکتے ہیں جس میں نیت یہی ہو گی 2 رکعت چاشت نفل اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کریں۔
اوابین: نماز مغرب کے بعد 6 رکعت اوابین کے نفل دو دو کر کے ادا کئے جاتے ہیں جس میں دل میں نیت یہی ہوتی ہے 2 رکعت نفل نماز اوابین اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں۔
تسبیح نماز کا طریقہ سیکھ کر 4 رکعت تسبیح نماز کسی بھی وقت ادا کر سکتے ہیں البتہ مکروہ وقت نہ ہو۔
زہر: آپس میں لڑنے والی دیوبندی اور بریلوی جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیوبندی اور بریلوی کہہ کر مسلمانوں میں یہ زہر گھول دیا کہ مسلمان ہونے کے لئے دیوبندی یا بریلوی ہونا لازمی ہے حالانکہ مسلمان ہونے کے لئے دیوبندی یا بریلوی نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنا لازم ہے۔
فرقہ واریت: اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء نے 1924 سے پہلے 600 سالہ خلافت عثمانیہ کے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کس اصول اور کس مجتہد کے کہنے پر کیا، اگر اصول اور مجتہد کا نام بتا دیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی کہ اُس مجتہد نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ تعلیم اہلسنت میں کوئی بدعت و شرک نہیں ہے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ کے دور، اجماع امت کا دور، اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اتحاد امت صرف اور صرف دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر ہو سکتا ہے لیکن علماء اور جماعتوں پر نہیں۔
تبدیلی دین: اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے کیونکہ مسلمانوں میں خلافت چلی لیکن امامت کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ سیدنا علی پر بہتان ہے کہ وہ پہلے امام ہیں کیونکہ آپ نے نہ تو آئینی، قانونی، شرعی طور پر آپ نے امامت کی بیعت نہیں لی بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن کر کام کیا ہے۔ اہلتشیع حضرات جو امامت کو نہ مانے اس کو مسلمان نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیت مسلمان نہ رہے۔ چودہ اور بارہ کا عقیدہ اسلام کے خلاف اور ایک بے بنیاد دین کی غلطی ہے۔