امام مسجد
نبی کریم ﷺ نے امامت کے لئے جو شرائط بتائیں، صحیح مسلم 1529: تین شخص ہوں تو ان میں امامت کا حقدار وہ ہے جو قرآن زیادہ جانتا ہو۔ صحیح مسلم 1532: قرآن میں برابر ہوں تو جو سنت زیادہ جانتا ہو۔ صحیح مسلم 1535: جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرے۔
نتیجہ: امامت کی شرائط میں متقی، قرآن و احادیث و مسائل جاننے والا ہونا چاہئے مگر یہاں داڑھی رکھنا امامت کی شرائط میں نہیں لکھا کیونکہ اس وقت داڑھی کوئی کٹواتا ہی نہیں تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان صحیح بخاری 5893: "مونچھیں خوب کتروا لیا کرو اور داڑھی کو بڑھاؤ” پر عمل کرتے۔
سوال: کیا داڑھی منڈوانے اور کٹوانے والے کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے۔
جواب: اہلسنت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب یا سنت موکدہ ہے۔ اسلئے جو امام داڑھی نہیں رکھتا وہ فاسق ہے، اُس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے اور کسی عالم کو اس کے پیچھے نماز ادا نہیں کرنی چاہئے۔
سوال: داڑھی کتنی ہونی چاہئے؟
جواب: نبی کریم ﷺ کی داڑھی گھنی تھی، صحیح بخاری 760: قرات کے دوران داڑھی ہل رہی ہوتی، ابوداود 145: نبی کریم اس داڑھی کا حلال کرتے۔ البتہ نبی کریم نے اگر داڑھی کی معیاد مقرر نہیں کی تو چھوٹی کرنے کی بھی لمٹ نہیں بتائی تو پہلی حدیث پر عمل ہونا چاہئے کہ داڑھی جتنی مرضی آئے کاٹی ہی نہ جائے کیونکہ داڑھی بڑھانے کا حکم ہے، چھوٹی رکھنے کی لمٹ کہاں بیان ہے؟؟
صحیح بخاری 5892: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی (ہاتھ سے) پکڑ لیتے اور (مٹھی) سے جو بال زیادہ ہوتے انہیں کتروا دیتے۔
فقہاء کرام نے داڑھی کو ایک مشت، چار انگل رکھنے کو واجب یا سنت موکدہ کہا ہے۔
کچھ کہتے ہیں کہ ایک مشت یا چار انگل رکھنا مستحب ہے لیکن واجب نہیں بلکہ تین انگل بھی رکھ سکتے ہیں۔
کچھ منہاجی دو انگل سے کم یا زیادہ کی داڑھی کی پیمائش عوام کو سمجھا رہے ہیں۔
نتیجہ: کام وہ کرنا چاہئے جس پر کسی کا اختلاف نہیں، اسلئے چار انگل رکھنے پر کسی کا اختلاف نہیں۔ دوسرا اگر چار انگل رکھنا فرض، واجب یا سنت موکدہ نہیں بلکہ مستحب ہے تو پھر مستحب کو چھوڑنے والی عوام کو سمجھائیں کہ یہ سب مستحب یا جائز اعمال عوام نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں:
پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، تیجہ دسواں، عرس، میلاد، نعرہ رسالت، نوافل وغیرہ۔