دوسری جماعت
مسجد میں کسی بھی نماز کی ”جماعت“ ہو چکی ہو لیکن کبھی کبھارکچھ مسلمان جماعت کے بعد اگرنماز کیلئے اکٹھے ہو گئے تو دوسری جماعت کروا سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ (1) اذان نہیں دیں گے (2) اقامت بھی نہیں کہیں گے اور (3) امام کے مصلے پر بھی کھڑے ہو کر جماعت نہیں کروائیں گے یعنی اسطرح سے جماعت کروائیں گے کہ معلوم ہو کہ پہلی جماعت ہو چکی ہے اور یہ ضرورت کے تحت دوسری جماعت ہے۔
اکثر مسافر حضرات بھی دوسری جماعت کروا لیتے ہیں، یا راستے میں جو مساجد پڑتی ہیں ان میں اکثر دو دو تین نمازیں ہوتی ہیں مگر محلے میں ایک جماعت ہو چکی ہو تو مسجد کی انتظامیہ اور امام سے پوچھ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، ان سب کی دلیل مندرجہ ذیل احادیث ہیں:
صحیح مسلم 1534: کسی کے گھر میں اس کی امامت نہ کرے، نہ اُس کی جگہ پر بیٹھے، جب تک وہ تجھے اجازت نہ دے یا فرمایا: اس کی اجازت سے۔
ترمذی 221: سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد) آیا رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے تھے تو آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی“۔
ابوداود 574: راوی ابو سعید خدری، رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے، یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے“۔
علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے ”نصب الرایۃ“ میں اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ”قوت المغتذی“ میں لکھا ہے : ”جس آدمی نے اس کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ “
مسئلہ: اس سے ایک کا فرض ادا ہو گیا اور سیدنا ابوبکر کی نماز نفل ہو گی۔ البتہ نماز ظہر اور عشاء میں شامل ہو کر کسی کے فرض میں مدد دے سکتے ہیں مگر فجر اور عصر کے بعد نفل نہیں ہوتے، اسی طرح مغرب کی تین رکعت ہوتی ہیں وہ بھی تین نفل نہیں ہو سکتے۔
راوی سیدنا ابوبکر صدیق، رسول اللہ ﷺ مدینہ کے اطراف سے تشریف لائے، آپ ﷺ نماز ادا کرنا چاہتے تھے۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے تو آپ ﷺ اپنے گھر چلے گئے، آپ ﷺ نے گھر والوں کو جمع کیا پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ “ (مجمع الزوائد 48/2، طبراني أوسط 4739، الكامل لابن عدي 2398/6)
اسلئے اگر کوئی مسجد میں جماعت نہ کروانے دے تو گھر جا کر جماعت سے پڑھیں یا جماعت ادا کرنے والوں کو اپنے گھر لے جا کر جماعت کروائیں۔ البتہ اس دور میں اس حدیث کے مطابق مارکیٹ، دفاتر اور دیگر جگہوں پر جہاں وقت ملتے ہی لوگ نماز ادا کرنے جاتے ہیں، وہ جماعت سے محروم ہو جائیں گے۔
دیوبندی حضرات کہتے ہیں کہ دوسری جماعت نہیں ہو سکتی، البتہ اہلسنت بریلوی اور اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ عادتا نہیں لیکن ضرورتا دوسری جماعت کروائی جا سکتی ہے۔