سینوں کا علم
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو تعلیم کسی کتاب سے نہیں دی بلکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے جو سیکھا، اُس پر عمل کیا، اسلئے صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کی اتباع کی۔ تابعین نے نبی کریم ﷺ کی اتباع نہیں کی بلکہ محدث اور فقہی صحابہ کرام کی تقلید کی اور اسی طرح تبع تابعین نے تابعین کی تقلید کی۔
صحیح بخاری 3650: میری امت کا سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔
غیر مقلد سے سوال: اکثر غیر مقلد یہ سوال کرتے ہیں کہ چار ائمہ کرام سے پہلے کس کی تقلید ہوتی تھی تو یہ کنفرم کر دیں کہ کیا صحابہ کرام نے صرف نبی کریم کی اتباع نہیں کی اور اس کے بعد تابعین صحابہ کرام کے مقلد نہیں رہے اور تبع تابعین نے تابعین کی تقلید نہیں کی اور کیا یہ تقلید کتابوں کی بجائے سینہ بہ سینہ نہیں تھی جیسے قرآن پاک کے حافظ تھے۔
چار علماء: حضرات نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ 80 ۔150)، مالک بن انس (93۔ 179)، محمد بن ادریس (امام شافعی 150۔ 204)، احمد بن محمد حنبل (165۔ 241)ھ کے دور میں بھی زیادہ تر کوئی کتابیں نہیں تھیں مگر احادیث سینہ بہ سینہ موجود تھیں۔ ان چاروں فقہی امام نے اپنے فقہ کی بنیاد کے لئے اصول و قانون بنائے جس پر فتوی دیا جاتا ہے۔
غیر مقلد سے سوال: ان علماء کے دور میں کونسی کتابیں تھیں اور غیر مقلد رسول اللہ کی اتباع کا جھوٹا بیانیہ کیوں چلاتے ہیں۔
محدثین امام محمد بن اسماعیل (194۔256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204۔261)، امام ابو داؤد (202۔275)،امام محمد بن عیسی (229۔279 ترمذی)،امام محمد بن یزید(209۔273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215۔303 نسائی) ھ نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی شرائط پر احادیث اکٹھی کیں مگر ان سب محدثین کی نماز کا طریقہ ایک نہیں تھا کیونکہ سب ایک دوسرے کے بھی مقلد نہیں تھے۔
غیر مقلد سے سوال: ان میں سے کسی ایک کی تقلید کرتے ہیں یا سب کی کرتے ہیں، اصول و قانون کیا ہے اور کس نے بنایا ہے؟
تقلید کا قانون: خلافت عثمانیہ کے دور میں تقلید کا قانون منظور ہوا کہ چار ائمہ کرام کی قرآن و سنت کے مطابق تقلید کی جائے گی۔ اسلئے خانہ کعبہ میں چار مصلے رکھ دئے گئے جہاں تین براعظم سے آئے حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی مقلد اپنے اپنے امام کے پیچھے نماز ادا کرتے۔
غیر مقلد سے سوال: خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور میں بھی کوئی غیر مقلد نہیں تھا، اگر تھا تو کون؟
غیر مقلد: 1924 میں سعودی عرب کے غیر مقلد وہابی خلافت عثمانیہ کے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہہ کر تشریف لائے اور تقلید کو بدعت و شرک، خلاف سنت، حرام قرار دیا۔
محدثین: چار مصلے کے دور کے محدثین اور علماء امام حجر عسقلانی، امام بدرالدین عینی، امام جلال الدین سیوطی، امام حجر مکی، امام ملا قاری، امام یوسف نبہانی، امم شمس الدین دمشقی، امام زرقانی، امام عابدین شامی، امام مجدد الف ثانی، امام احمد قسطلانی،
شیخ عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدلاعزیز محدث دہلوی، مولانا فضل حق خیر آبادی، رحمتہ اللہ علیھم ہیں۔
سوال: غیر مقلد سے سوال ہے کہ خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور میں ان کے محدثین کون ہیں اور وہ رسول اللہ کی اتباع کس مجتہد کی تقلید اور کن کتابوں کی وجہ سے کرتے ہیں؟
مقلد: مقلد عوام کو تو علم ہے کہ جس دور میں ان کے ائمہ کرام ہوئے اُس وقت احادیث سینہ بہ سینہ زیادہ تھیں اور قانون و اصول پر کام ہوا اور صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق بہترین دور تھا۔ اس کے بعد جھوٹے غیر مقلد پیدا ہوئے جو کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کی اتباع کرتے ہیں۔
صحیح احادیث سے پہلے کیا سب ضعیف احادیث پر تھے، اگر ایسا ہے تو پھر غیر مقلد صحیح احادیث کے ساتھ کب وجود میں آئے۔
مقلد عوام اگر کوئی حوالہ کتابوں کا دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کتابوں میں یہ احادیث موجود ہیں حالانکہ چار ائمہ کرام مستند کتابوں سے پہلے کے ہیں جس وقت سینہ بہ سینہ احادیث چلتی تھیں۔
آخری سوال یہ ہے کہ نماز کا کوئی منکر نہیں لیکن ضعیف احادیث سے نماز ادا کرنے والوں کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟