حجر اسود
حجراسود پتھر کعبہ شریف کے دروازے کے ساتھ چاندی کے حلقے میں گھیرا ہوا پتھر ہے جو زمین سے ڈیرھ میٹر بلند ہے اور خانہ کعبہ کا طواف یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جاۓ۔ اگر بھیڑ زیادہ ہوتو ہاتھ کے اشارہ بھی کفایت کرے گا۔
صحیح مسلم 2950: رسول اللہ ﷺ نےحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے۔ صحیح مسلم 3064: "رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود کو اپنے ہاتھ سے چھوا اور ہاتھ کو بوسا دیا”، اسطرح بھی استلام جائز ہے۔ صحیح مسلم 3077: رسول اللہ نے حجر اسود کو چھڑی سے چھوا اور چھڑی کو چوما، اسطرح بھی استلام جائز ہے۔
صحیح بخاری 1613: طواف میں حجرِ اسود کو بوسہ دینا سنت اور مستحب ہے۔ صحیح مسلم 1270: سیدنا عمر نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ میں تجھے چوم رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے لیکن میں نے نبی اکرم ﷺ کو تجھے چومتے دیکھا ہے۔
ترمذی 877، نسائی 2935: حجراسود جنت سے نازل ہوا۔ حجراسود جنت سے آیا تودودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کردیاہے۔
ابن ماجہ 2945: رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود پر اپنے دونوں ہونٹ رکھ کر دیر تک روتے رہے اور فرمایا اس جگہ آنسو بہائے جاتے ہیں۔
ترمذی 961: اللہ کی قسم اللہ اسے قیامت کے دن اس حال میں اُٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی، جس سے یہ دیکھے گا، ایک زبان ہو گی جس سے یہ بولے گا اور یہ اس شخص کے ایمان کی گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اس کا استلام کیا ہو گا۔ (مزید مسند احمد 2796) ترمذی 959: حجر اسود پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کا کفارہ ہے۔
صحیح بخاری 1605، مسلم 3067: سیدنا عمر نے رکن (حجرِ اسود) سے مخاطب ہو کر فرمایا، یقیناً میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ، نفع و نقصان کا مالک نہیں، اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا، پھر آپ نے اس کو بوسہ دیا، پھر فرمایا، ہمیں رمل سے کیا واسطہ تھا، ہم تو صرف مشرکین کو دکھانے کےلئے ایسا کرتے تھے ، اللہ نے ان کو ہلاک کردیا ہے ، پھر فرمایا، یہ ایسا کام ہے جسے نبیٔ کریم ﷺ نے کیا ہے، لہٰذاہم اسے چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔
حجر اسود جنت سےآیا ہے ، یہ برف سے زیادہ سفید تھا، مشرکین کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔ (مسند احمد) اگر اسے جاہلیت کی نجاستیں نہ لگی ہوتیں تو جو بھی مصیبت زدہ اسے چھوتا ، نجات پاتا، نیز اس کے علاوہ جنت کی کوئی چیز روئے زمین پر موجود نہیں۔ (السّنن الکبریٰ للبیہقی) یہ زمین میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے مصافحہ کرتا ہے۔ (مسند احمد، ابن خزیمہ 2737، مستدرک حاکم)
حجر اسود کے حوادث تاریخ کے آئینے میں
حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازاً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنےجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔ جس کو استلام کہتے ہیں۔
اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔
1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے قبیلہ بنی جرہم کے متعلق ملتا ہے کہ ان لوگوں نے حجر اسود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ تاریخ میں ہے کہ جب بنو بکر بن عبد مناہ نے قبلہ "جرہم” کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکّہ سے بے دخل ہوتے ہوئےکعبہ میں رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھ "حجر اسود” کو کعبہ کی دیوار سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا مگر ایک عورت نے دیکھ لیا اور حجر اسود واپس ہوا۔
2۔ رسول اللہ ﷺ کی عمر35 سال تھی جب کعبہ تعمیر دوبارہ کیا گیا اور حجر اسود کو رکھنے کے وقت جھگڑا ہوا تو پھر رسول اللہ نے سب سرداروں کو چادر پکڑا کر خود حجر اسود خانہ کعبہ میں نصب کیا۔
3۔ حضرت عبداللہ بن زبیر خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی۔ جس سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔
4۔ ابو طاہر نامی شخص کی قیادت میں ” قرا ما تین” نے 317 ہجری میں مکّہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا اور مسجد الحرام جیسے مقدس مقام پر تقریبا” سات سو انسانوں کو قتل کیا حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی دیوار سے الگ کردیا اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اسکو موجودہ دور میں جو علاقہ "بحرین” کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا۔ تقریبا 22 سال حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا رہا۔
اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا اس کا استلام کر تے تھے۔ 22 سال بعد 10 ذوالحجہ 339 ہجری کو” سنبر بن حسن ” جس کا تعلق بھی قراماتین قبیلے سے ہی تھا ، اس نے حجر اسود کو آزاد کرا یا اور واپس حجر اسود کے اصل مقام پر پیوست کروا دیا۔
5۔ سن 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی جس سے اس پر چٹخنے کا ایک واضح نشان پڑ گیا۔ دوسرا وار کرنے کے لئے وہ زندہ نہیں رہا۔
6۔ 413 ہجری میں فاطمید نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکّہ بھیجا جس میں سے ایک ” الحاکم العبیدی ” تھا اس نے حجر اسود کو تین ٹکروں میں تقسیم کیا۔
7۔ 990 ہجری میں بھی ہوا جب ایک غیر عرب باشندہ اپنے ہتھیا ر کے ساتھ مطاف میں آیا اور اسنے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی۔ اس وقت کا ایک شہزادہ ” شہزادہ نصیر ” مطاف میں موجود تھا جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
8۔ 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں میں ایک افغانی باشندہ مطاف میں آیا اور اسنے حجرہ اسود کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا-