Hajj Ki Iqsam (حج کی اقسام)

حج کی اقسام

حج افراد، حج تمتع یا حج قران یعنی ن تین اقسام میں سے کوئی بھی حج کرو، فرض ادا، رحمتیں برکتیں ملتیں، گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ ہر طریقہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے۔
1۔ حجِ افراد : یعنی حج کے دنوں میں صرف حج کی ادائیگی کے لیے میقات سے احرام باندھنا، خانہ کعبہ کے ساتھ پھیرے لگانا حج مفرد کرنے والے کے لئے سنت ہے۔ صفا و مروہ کی سعی بھی کر لے لیکن بہتر ہے کہ طواف زیارت کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرے، حج افراد والا شخص عمرہ نہیں کر سکتا اور دوسرا اس پر 10 ذی الحج میں حج کے شکرانے میں جو قربانی کی جاتی ہے وہ بھی لازم نہیں۔ حج مفرد والا نیت بھی صرف حج کی کرے گا۔
2۔ حجِ تمتع: ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج کا فائدہ اُٹھانے والا ’’حج تمتع‘‘ کرتا ہے۔ پہلے میقات سے عمرہ کی نیت کرتا ہے اور عمرہ کرنے کے بعد عام سادہ لباس میں احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور اُس کے بعد 8 ذی الحج کو حج کا احرام باندھ کر حج کے لئے منی آ جاتا ہے۔ ایسے حاجی پر 10 ذی الحج کو حج کے شکرانے کی قربانی واجب ہوتی ہے۔ پاکستانی عازمینِ حج عموماً حج ِتمتع ہی کرتے ہیں۔
3۔ حجِ قران : میقات سے عمرہ اور حج دونوں کی نیت کرنا، پہلے عمرہ کے ارکان ادا کیے لیکن عمرے کی سعی کے بعد حلق یا قصر نہیں کیا، بلکہ طوافِ قدوم اور حج کی سعی کرنے کے بعد بدستور حالتِ احرام میں رہا، یہاں تک کہ ایامِ حج میں حج کے ارکان ادا کر کے حلق یا قصرکرایا اور احرام سے فارغ ہوا۔
وضاحت: حجِ قران اور حجِ تمتع کرنے والے پر بطورِ شکر حج کی قربانی واجب ہے، اگر متمتع یا قارن صاحبِ حیثیت ہو اور قربانی (عید الاضحیٰ) کے ایام میں مقیم ہو، (مسافر نہ ہو) تو اس پر عید الاضحیٰ کی قربانی اس کے علاوہ واجب ہوگی۔
حج افراد کے متعلق احادیث
1۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد کیا۔ (صحیح مسلم 1211، ابو داود 1777، ترمذی 820، نسائی 2716، ابن ماجہ 2964)
2۔ راوی سیدہ عائشہ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، جب آپ ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو حج کا احرام باندھنا چاہے وہ حج کا احرام باندھے، اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمرہ کا باندھے“۔ (ابو داود 1778، نسائی 2993)
3۔ راوی سیدہ عائشہ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم (مکہ) آئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جو اپنے ساتھ ہدی نہ لایا ہو وہ حلال ہو جائے یعنی احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جائے۔ (صحیح بخاری 1561، مسلم 1211، نسائی 3785، ابو داود 1783)
حج افراد اورحج تمتع
4۔ راوی سیدہ عائشہ، ہم لوگ حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے ہم میں کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا، رسول اللہ ﷺ نے حج کا احرام باندھا، چنانچہ جن لوگوں نے حج کا یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا انہوں نے یوم النحر (یعنی دسویں ذی الحجہ) تک احرام نہیں کھولا۔(صحیح بخاری 1562، صحیح مسلم 1211، ابو داود 1779، نسائی 2717، ابن ماجہ 2965)
5۔ راوی سیدنا جابر، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا اس میں کسی اور چیز کو شامل نہیں کیا، پھر ہم ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد مکہ آئے تو ہم نے طواف کیا، سعی کی، پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں احرام کھولنے کا حکم دے دیا اور فرمایا: ”اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا“، پھر سراقہ بن مالک کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! یہ ہمارا متعہ (حج کا متعہ) اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(نہیں) بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے۔(ابن ماجہ 2980، ابو داود 1787، صحیح مسلم 1216، نسائی 2807)
6۔ راوی سیدنا جابر، رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم ﷺ اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ ﷺ نے باندھا ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کر لیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔ (ابو داود 1789، صحیح بخاری1651)
7۔ راوی عبداللہ بن عباس، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”یہ عمرہ ہے، ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا لہٰذا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پوری طرح سے حلال ہو جائے، اور عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو گیا ہے“۔ (ابوداود 1790، صحیح مسلم 1241، نسائی 2817، بخاری 1085)
حج تمتع کرنے والا جب عمرہ کر لیتا ہے تو کن پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے
8۔ راوہ سیدنا جابر،ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج افراد کا احرام باندھ کر آئے، سیدہ عائشہ عمرے کا احرام باندھ کر آئیں، جب وہ مقام سرف میں پہنچیں تو انہیں حیض آ گیا یہاں تک کہ جب ہم لوگ مکہ پہنچے تو ہم نے کعبۃ اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جن کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول دیں، ہم نے کہا: کیا کیا چیزیں حلال ہوں گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر چیز حلال ہے“، چنانچہ ہم نے عورتوں سے صحبت کی، خوشبو لگائی، اپنے کپڑے پہنے حالانکہ عرفہ میں صرف چار راتیں باقی تھیں، پھر ہم نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو احرام باندھا، پھر رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ کے پاس آئے تو انہیں روتے پایا، پوچھا: ”کیا بات ہے؟“، وہ بولیں: مجھے حیض آ گیا لوگوں نے احرام کھول دیا لیکن میں نے نہیں کھولا اور نہ میں بیت اللہ کا طواف ہی کر سکی ہوں، اب لوگ حج کے لیے جا رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ (حیض) ایسی چیز ہے جسے اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے لہٰذا تم غسل کر لو پھر حج کا احرام باندھ لو“، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور سارے ارکان ادا کئے جب حیض سے پاک ہو گئیں تو بیت اللہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کی سعی کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اب تم حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو گئیں“، وہ بولیں: اللہ کے رسول! میرے دل میں خیال آتا ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف (قدوم) نہیں کر سکی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”عبدالرحمٰن! انہیں لے جاؤ، اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ۔ (صحیح مسلم 1210، ابو داود 1785، نسائی 2764، ابن ماجہ 2911)
حج قران کی احادیث
1۔ راوی سیدنا انس بن مالک میں نے رسول اللہ ﷺ کو حج و عمرہ دونوں کا تلبیہ پڑھتے سنا یعنی نیت کرتے دیکھا۔ (ابو داود 1795، صحیح بخاری 2986، ترمذی 821، ابن ماجہ 2917، صحیح مسلم 1251)
2۔ راوی سیدنا انس، نبی اکرم ﷺ نے رات ذی الحلیفہ میں گزاری، یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سواری آپ کو لے کر بیداء پہنچی تو آپ ﷺ نے اللہ کی تحمید، تسبیح اور تکبیر بیان کی، پھر حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور لوگوں نے بھی ان دونوں کا احرام باندھا، پھر جب ہم لوگ (مکہ) آئے تو آپ ﷺ نے لوگوں کو (احرام کھولنے کا) حکم دیا، انہوں نے احرام کھول دیا، یہاں تک کہ جب یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) آیا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ ﷺ نے سات اونٹنیاں کھڑی کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کیں ( ابو داود 1796، نسائی 4392، صحیح مسلم 690، بخاری 1547)
3۔ راوی براء بن عازب، جس وقت رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی کو یمن کا امیر مقرر کر کے بھیجا، میں ان کے ساتھ تھا تو مجھے ان کے ساتھ (وہاں) کئی اوقیہ سونا ملا، جب آپ یمن سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو دیکھا کہ سیدہ فاطمہ رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں، اور گھر میں خوشبو بکھیر رکھی ہے، وہ کہنے لگیں: آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا تو انہوں نے احرام کھول دیا ہے، سیدنا علی کہتے ہیں: میں نے فاطمہ سے کہا: میں نے وہ نیت کی ہے جو نبی اکرم ﷺ نے کی ہے، میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے مجھ سے پوچھا: ”تم نے کیا نیت کی ہے؟“، میں نے کہا: میں نے وہی احرام باندھا ہے جو نبی اکرم ﷺ کا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تو ہدی ساتھ لایا ہوں اور میں نے قِران کیا ہے“، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”تم 67 اونٹ (میری طرف سے) نحر کرو اور 33 اپنے لیے روک لو، اور ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا گوشت میرے لیے رکھ لو۔ (ابو داود 1797، نسائی 2746)
4۔ راوی ابووائل، صبی بن معبد نے عرض کیا کہ میں ایک نصرانی بدو تھا میں نے اسلام قبول کیا تو اپنے خاندان کے ایک شخص کے پاس آیا جسے ہذیم بن ثرملہ کہا جاتا تھا میں نے اس سے کہا: ارے میاں! میں جہاد کا حریص ہوں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حج و عمرہ میرے اوپر فرض ہیں، تو میرے لیے کیسے ممکن ہے کہ میں دونوں کو ادا کر سکوں، اس نے کہا: دونوں کو جمع کر لو اور جو ہدی میسر ہو اسے ذبح کرو، تو میں نے ان دونوں کا احرام باندھ لیا، پھر جب میں مقام عذیب پر آیا تو میری ملاقات سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان سے ہوئی اور میں دونوں کا تلبیہ پکار رہا تھا، تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: یہ اپنے اونٹ سے زیادہ سمجھ دار نہیں، تو جیسے میرے اوپر پہاڑ ڈال دیا گیا ہو، یہاں تک کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، میں نے ان سے عرض کیا: امیر المؤمنین! میں ایک نصرانی بدو تھا، میں نے اسلام قبول کیا، میں جہاد کا خواہشمند ہوں لیکن دیکھ رہا ہوں کہ مجھ پر حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں، تو میں اپنی قوم کے ایک آدمی کے پاس آیا اس نے مجھے بتایا کہ تم ان دونوں کو جمع کر لو اور جو ہدی میسر ہو اسے ذبح کرو، چنانچہ میں نے دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تمہیں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کی توفیق ملی۔ (ابو داود 1799)
5۔ راوی سیدہ حفصہ، اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے احرام کھول دیا لیکن آپ نے اپنے عمرے کا احرام نہیں کھولا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر میں تلبید کی تھی اور ہدی کو قلادہ پہنایا تھا تو میں اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہدی نحر نہ کر لوں۔(صحیح بخاری 1566، مسلم 1229، نسائی 2681، ابن ماجہ 3046، ابو داود 1806)
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general