ہدی یعنی قربا نی
10 ذی الحج کو دوسرا کام جمرات کے بعد یعنی بڑے شیطان کو کنکریاں مار کر ہدی کرنا ہوتا ہے یعنی جانور قربان کرنا ہوتا ہے، قربانی کرنے کے بعد تیسرا کام اپنی ٹنڈ کروانا ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے یوم النحر یعنی 10 ذی الحج کو جمرہ عقبہ کی رمی کی، بڑے شیطان کو کنکریاں ماریں، پھر آپ منی میں اپنی قیام گاہ میں لوٹ آئے، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا)، اس نے آپ ﷺ کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا اور بال مونڈ دئے، پھر ایک ایک اور دو دو بال ان لوگوں میں تبرکا تقسیم کئے جو آپ ﷺ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا، اور فرمایا: ابو طلحہ یہاں ہیں؟ اور وہ سب بال ابوطلحہ کو دے دئے۔ (ابو داود 1981، صحیح مسلم 1305، ترمذی 912، نسائی 4116، صحیح بخاری 171)
ہدی: اس جانور کو کہتے ہیں جو حج تمتع یا حج قران میں مکہ میں 10 ذی الحج کو ذبح کیا جاتا ہے، نیز اس جانور کو بھی ہدی کہتے ہیں جس کو غیر حاجی حج کے موقع سے مکہ میں ذبح کرنے کے لئے بھیجتا ہے مگر وہ حاجی نہیں ہوتا۔ ان دونوں کے متعلق مندرجہ ذیل احادیث ہیں:
قربانی کا جانور: رسول اللہ ﷺ نے ذی الحلیفہ میں ظہر پڑھی، آپ نے ہدی کا اونٹ منگایا اور اس کے کوہان کے داہنی جانب اشعار کیا۔ ۔۔۔ آپ ﷺ نے حج کا تلبیہ پڑھا۔ ( ابو داود 1752، ترمذی 906، نسائی 2776، ابن ماجہ 3097، صحیح بخاری 1549، مسلم 1243)
رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے سال جب ذی الحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اشعار کیا اور احرام باندھا۔ (صحیح بخاری، 1694، ابو داود 1754، نسائی 2773)
قربانی کے لئے جانور بھیجنا مگر عمرہ یا حج نہیں کیا۔
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت سی بکریاں قلادہ پہنا کر ہدی میں بھیجیں۔ (ابو داود 1755، صحیح بخاری 1701، ابن ماجہ 3096، ترمذی 909)
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کی ہدی کے لئے قلادے بٹے (قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ یا رسی لٹکانے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ ان جانوروں کو اللہ کے گھر کے لئے خاص جان کر ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں) ان کو پہنایا اور بیت اللہ کی طرف بھیج دیا اور خود مکہ میں مقیم رہے اور کوئی چیز آپ ﷺ کے لئے حلال تھی آپ ﷺ پر حرام نہ ہوئی۔ (ابو داود 1757، صحیح بخاری 1696، صحیح مسلم 1321، نسائی 2774، ابن ماجہ 3094)
مقیم اور صحاب استطاعت پر حج کے شکرانے کی بھی قربانی ہوتی ہے اور 10 ذی الحج کی بھی قربانی ہوتی ہے۔
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے آل کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی۔ (صحیح بخاری 1709، صحیح مسلم 1319، ابن ماجہ 3135، ابو داود 1750)
ٹنڈ کروانا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم کر، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول، اور کٹوانے والوں پر؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول، اور کٹوانے والوں پر؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اور کٹوانے والوں پر بھی۔ (ابو داود 1979، صحیح بخاری 1727، صحیح مسلم 1301، ابن ماجہ 3043، ترمذی 913)
رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع میں اپنا سر منڈوایا۔ (ابو داود 1980، صحیح بخاری 4410، صحیح مسلم 1304)
دو قربانیاں: حجِ قران یا حجِ تمتع کرنے والے پر حرم کی حدود میں ایک قربانی حج کے شکرانے کے طور پر لگے گی۔ یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں،عید والی قربانی کا حج والی قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔
اگر حاجی شرعی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر مسافر حاجی بھی اپنی خوشی سے عید والی قربانی کرے گا تو اس پر ثواب ملے گا، لیکن لازم نہیں ہے۔ اور اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا واجب ہوگی۔
حج کی قربانی حدود حرم میں ہو گی لیکن بقرعید کی قربانی حدودِ حرم میں کرنا ضروری نہیں، یہ قربانی حاجی اپنے وطن میں بھی کراسکتے ہیں۔
ترتیب: اہلسنت کے نزدیک 10 ذی الحج کو سب سے پہلے جمرات کو کنکریاں ماری جاتی ہیں، اس کے بعد قربانی کی جاتی ہے، اس کے بعد ٹنڈ کروائی جاتی ہے اور اس میں ترتیب واجب ہے۔ یہ نہیں کے پہلے ٹنڈ کروا لی، پھر جمرات، پھر قربانی۔ ترتیب کے ساتھ کام کریں گے ورنہ دم لگے گا۔ قربانی کے مسئلے میں احتیاط کرنی ہو گی کیونکہ آجکل بینک میں پیسے جمع کروا دیتے ہیں مگر کب قربانی ہوتی ہے معلوم نہیں۔
صحبت: ٹنڈ کروانے کے بعد احرام کھول دیتے ہیں اور تمام پابندیوں سے بندہ آزاد ہو سوائے عورت کے ساتھ صحبت، شہوت وغیرہ کے کام کرنے کے کیونکہ جب تک طواف زیارت نہیں کر لیتا حاجی اپنی بیوی سے صحبت نہیں کر سکتا۔