حج مبرور اصل میں حج اکبر ہے
عقائد کے بعد حقوق اللہ میں فرائض یعنی نماز، روزہ، زکوۃ اور حج ادا کرنے کو کہتے ہیں۔ شیطانی بیانیہ یہ ہے کہ اللہ کریم حقوق اللہ معاف کر دے گا مگر حقوق العباد معاف نہیں کرے گا حالانکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کا حکم کس کا ہے؟ اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے تو بات تو صرف اللہ کریم کی ہے، چاہے تو حقوق اللہ پر پکڑ کرے یا حقوق العباد پر پکڑ کرے اور چاہے تو سب کچھ معاف کر دے۔
حج مبرور: نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (صحیح بخاری 1773) حج مبرور وہ ہوتا ہے جس سے حاجی کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور حج مبرور کرنے کے بعد حاجی دوبارہ گناہوں کی طرف نہیں آتا۔
اکبری حج: اسلئے ہر حاجی کا وہ حج "حج اکبر” ہے جس میں اس کے گناہ معاف اور گناہوں کی طاقت چھین کر اُس کو نیکیوں پر لگا دیا جائے۔
سوچ: اگر کوئی مسلمان حج نہیں کر سکتا لیکن اپنے فرائض یہاں پورے کرتا ہے جس میں اس کو گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکیوں پر چلنے کی طاقت مل جائے تو مان لیں کہ گھر بیٹھے حج اکبراور حج مبرور کا مزہ لے رہا ہے۔
قرآن اور حج اکبر: 9 ھ کو سیدنا ابوبکر صدیق کو اسلام کے پہلے حج کا امیر بنا کر بھیجا گیا، اس حج میں وقوف عرفات جمعہ کو نہیں تھا مگر اس کو حج اکبر کہا گیا:
وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے حج اکبر کےدن لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے( سورة توبة ايت 3)
ممانعت: راوی سیدنا ابوہریرہ، اس حج کے موقع پر مجھے سیدنا ابوبکر نے یوم نحر (ذی الحجہ کی دسویں تاریخ) میں اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا تاکہ ہم منیٰ میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکتا اور کوئی شخص ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا۔ ( صحیح بخاری 369)
حج اکبر: 10 ھ کو رسول اللہ نے حجتہ الوداع کیا اور صحیح بخاری 1755، راوی عبداللہ بن عمر، نحر کے روز (دسویں ذی الحجہ کو) حجۃ الوداع میں جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور لوگوں سے پوچھا: ”یہ کون سا دن ہے؟“، لوگوں نے جواب دیا: یوم النحر، آپ نے فرمایا: هَذَا يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ ”یہی حج اکبر کا دن ہے”۔ (صحیح بخاری 1742، ابو داود 1945، ابن ماجہ 3058)
جمعہ حج اکبر: ایک یہودی نے سیدنا عمر فاروق سے کہا: اے امیر المومنین! تمھاری کتاب میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو، اگر ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم ضرور اس دن کو عید کا دن بنا لیتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کونسی آیت ہے؟ وہ کہنے لگا: الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدۃ: 3) تو سیدنا عمر فرمانے لگے: ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جس میں یہ نبی کریم ﷺ پر اتری، اس وقت آپ عرفات (کے میدان) میں جمعہ کے دن کھڑے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: 45، 7268، مسلم: 3017) بے شک یہ آیت دو عید کے دنوں میں اتری، جمعہ اور عرفہ کا دن۔ (ترمذی 3044)
مماثلت: امام ابن سیرین نے فرمایا: حجِ اکبر وہ حج ہے کہ جو اس دن کے مُوافق ہو جس دن رسولُ اللہ ﷺ اور تمام اَعراب نے حج کیا تھا۔ (تفسیر طبری، التوبۃ آیت 3، تفسیر بغوی، تفسیرقرطبی، البحر المحیط، در منثور اور تفسیر خازن میں ہے ’’جو حج تاجدارِ رسالت ﷺ کے حج کے موافق ہو اسے حجِ اکبر کہا گیا ہے اور یہ دن جمعہ کا دن تھا)
عرب قبائل: ایام جاہلیت میں عمرہ کو حج اصغر اور حج کو حج اکبر کہتے تھے جیسے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو عمرہ میقات سے احرام باندھ کر کیا جاتا ہے وہ بڑا عمرہ ہوتا ہے اور جو عمرہ تنعیم یا جعرانہ سے احرام باندھ کر کیا جائے وہ چھوٹا عمرہ ہوتا ہے حالانکہ عمرہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔
عوامی اکبری حج: جمعہ والے دن جو حج آ جائے اس کو اکبری حج کہتے ہیں۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ جو حج جمعہ کے دن ہو اس کی فضیلت عام دنوں کی بہ نسبت بڑھ جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ ﷺ نے جو حج فرمایا تھا وہ بھی جمعہ کو ہوا تھا۔ دوسرا جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ بندہ اس گھڑی میں جو بھی دعا کرتا ہے وہ قبول ہوتی ہے۔
تیسرا یہ کہ آیت کریمہ الیوم اکملت لکم دینکم کے نزول کی وجہ سے یومِ عرفہ ایک طرح سے عید کا دن ہے اور یوم جمعہ بھی عید ہے، جب دو عیدیں جمع ہوگئیں تو بلاشبہ اس کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
نتیجہ: حج اکبری وہی ہے جس میں گناہ معاف ہو جائیں اور نیکیوں کی طاقت مل جائے۔ باقی ابحاث ہیں جتنی مرضی کر لیں۔