مسلمان
پوسٹ کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ دیوبندی و بریلوی جماعتوں کی تعلیم ایک ہے اور یہ تعلیم قرآن و سنت کے مطابق ہے۔ اگر عوام سمجھتی ہے کہ دیوبندی و بریلوی میں فرق اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، تیجہ دسواں وغیرہ کا ہے تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔
البتہ اہلتشیع حضرات کے عقیدہ تقیہ سے جھوٹ، عقیدہ تبرا سے ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرنا اور الزامی سوال کرنے کی بیماری سب جماعتوں میں موجود ہے حالانکہ دو حرفی دیوبندی و بریلوی جماعتوں سے سوال ہے کہ کیا دیوبندی و بریلوی سعودی عرب 1924 سے پہلے حرمین شریفین پر خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور کے متفقہ عقائد پر ہیں یا نہیں؟
کیا دیوبندی و بریلوی کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے یا نہیں؟ اور اس تعلیم پر دیوبندی جماعت کا عمل اب ہے یا نہیں؟ دیوبندی عقائد کی کتاب سے تین یا چار سوال و جواب بیان کرتے ہیں؟
المہند علی المفند
رسالہ دیوبندی اہلسنت و الجماعت کے عقائد پر ہیں جو جناب خلیل احمد صاحب محدث سہارنپوری صاحب نے تحریر فرمایا جس پر دیوبندی اکابر جناب محمود الحسن صاحب، جناب اشرف علی تھانوی صاحب، جناب شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوری، جناب حافظ محمد احمد صاحب، جناب عزیز الرحمن صاحب، جناب مفتی کفایت اللہ صاحب نے تصدیق فرمائی۔
حیات النبی ﷺ
پانچواں سوال: کیا فرماتے ہو جناب رسول اللہﷺ کی قبر میں حیات کے متعلق کہ کوئی خاص حیات آپ کو حاصل ہے یا عام مسلمانوں کی طرح برزخی حیات ہے؟
جواب: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرتﷺ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلا مکلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آن حضرت ﷺ اور تمام انبیاء علیھم السلام اور شہداء کے ساتھ، برزخی نہیں ہے۔۔چنانچہ فرماتے ہیں کہ علامہ تقی الدین سبکی نے فرمایا ہے کہ انبیاء و شہدا کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دُنیا میں تھی اور موسی علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے کیونکہ نماز زندہ جسم کو چاہتی ہے الخ۔(المہند صفحہ30-31)
مسجد نبوی اور قبر شریف
چھٹا سوال: کیا جائز ہے مسجد نبوی میں دعا کرنے والے کو یہ صورت کہ قبر شریف کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اور حضرت محمد ﷺ کا واسطہ دے کر حق تعالی سے دعا مانگے۔
جواب: اس میں فقہاء کا اختلاف ہے۔۔ زیارت کرنے والے کو قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہئے جیسا کہ امام حسن نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ۔۔۔ دوسرا امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ سنت یہ ہے کہ جب تم قبر شریف پر حاضر ہو تو قبر مطہر کی طرف منہ کر کے اس طرح کہو”آپ پر سلام نازل ہو اے نبی اور اللہ تعالی کی رحمت و برکات نازل ہوں پھر۔۔ فرماتے ہیں میں نے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو اس طرح فرماتے سنا کہ جب ابو ایوب سختیانی رحمتہ اللہ علیہ مدینہ منورہ میں آئے تو میں وہیں تھا۔ میں نے کہا میں ضرور دیکھوں گا یہ کیا کرتے ہیں۔ سو انہوں نے قبلہ کی طرف پشت کی اور رسول اللہﷺ کے چہرۂ مبارک کی طرف اپنا منہ کیا اور بلا تصنع روئے۔۔۔غرض اس سے ظاہر ہو گیا کہ جائز دونوں صورتیں ہیں مگر اولی یہی ہے کہ زیارت کے وقت چہرۂ مبارک کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہئے اور یہی ہمارے نزدیک معتبر ہے اور اسی پر ہمارا اور ہمارے مشائخ کا عمل ہے اور یہی حکم دعا مانگنے کا ہے جیسا کہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے جب کہ ان کے کسی خلیفہ نے ان سے مسئلہ دریافت کیا تھا۔الخ (المہندصفحہ31-33)
کیا مدینہ منورہ میں اب بھی اس کو شرک شرک یا اللہ یا اللہ نہیں کہا جاتا؟
وسیلہ
سوال: کیا وفات کے بعد رسول اللہﷺ کا توسل لینا دعاؤں میں جائز ہے یا نہیں؟ تمہارے نزدیک سلف صالحین یعنی انبیاء صدیقین اور شہدا اولیاء اللہ کا توسل بھی جائز ہے یا ناجائز؟
جواب: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء و صلحاء و اولیاء و شہداء و صدیقین کا توسل جائز ہے، ان کی حیات میں یا بعد وفات، بایں طور کہ کہے یا اللہ میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت براری چاہتا ہوں اسی جیسے اور کلمات کہے(المہندصفحہ29-30)
دیوبندی اور عرس
بزرگانِ دین کے یومِ وِصال کو عرس اِس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ محبوب سے ملاقات کا دِن ہے دلیلحدیث نم کنومۃ العروس ہے ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 60 دیوبند اشرف علی تھانوی)
عرس بزرگانِ دین اور سماع قوالی سننا جائز ہے بزرگانِ دین عرس مناتے اور سماع سنتے تھےاور اعراس کے دن کی تخصیص کا سبب یہ ہے کہ اُس دن اُناللہ والوں کا وِصال ہوا (بوادر النوادر صفحہ 400 دیوبندی اشرف علی تھانوی)
اعراس بزرگانِ دین خلاف شرع نہیں ہیں جس طرح مدارسِ دینیہ میں اسباق کےلیئے گھنٹے مقرر کرنا مباح امر اور جائز ہے اسی طرح تعین یوم عرس بھی جائزہے (بوادر النوادر صفحہ نمبر 401 دیوبندی اشرف علی تھانوی)
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ شاہ عبد الرّحیم اور شاہ ولی اللہ علیہماالرّحمہ کے مزرارت پر جاتے اور فاتحہ پڑھتے لنگر تقسیم کرتے ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ 38 حکایت 29 دیوبندی اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ عمرفاروق کراچی)
اشرف علی تھانوی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوتے اور محفلِ سماع و قوالی (اشرف السوانح جلد اول ،دوم صفحہ نمبر 226)۔
حضور ﷺ پر درود و سلام
ساتواں سوال:کیا فرماتے ہو جناب رسول اللہﷺ پر بکثرت درود بھیجنے اور دلائل الخیرات اور دیگر اوراد کے پڑھنے کی بابت؟
جواب: ہمارے نزدیک حضرتﷺ پر درود شریف کی کثرت مستحب اور نہایت موجب اجر وثواب طاعت ہے خواہ دلائل الخیرات پڑھ کر ہو یا درود شریف کے دیگر رسائل مؤلفہ کی تلاوت سے ہو، لیکن افضل ہمارے نزدیک وہ درود ہے جس کے لفظ بھی حضرت سے منقول ہیں گو غیر منقول کا پڑھنا بھی فضیلت سے خالی نہیں اور اس بشارت کا مستحق ہو ہی جائے گا کہ جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا۔ حق تعالی اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجے گا۔ (المہند صفحہ 33- 34)
حنفی حنبلی مقلد یا غیر مقلد
سوال: تمام اصول و فروع میں چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کا مقلد بن جانا درست ہے یا نہیں؟ اور اگر درست ہے تو مستحب ہے یا واجب اور تم کس امام کے مقلد ہو؟
جواب: اس زمانہ میں نہایت ضروری ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کی جائے بلکہ واجب ہے کیونکہ ہم نے تجربہ کیا ہے کہ ائمہ کی تقلید چھوڑنے اور اپنے نفس و ہوا کے اتباع کرنے کا انجام الحاد و زندقہ کے گڑھے میں جا گرنا ہے۔ اللہ پناہ میں رکھے اور باین وجہ ہم اور ہمارے مشائخ تمام اصول و فروع میں امام المسلمین ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے مقلد ہیں۔ خدا کرے اسی پر ہماری موت ہو اور اسی زمرہ میں ہمارا حشر ہو۔۔(المہند صفحہ 34-35)
سوال: سعودی عرب کے حنبلی امام کے پیچھے حنفی دیوبندی مقلد عوام ”حنبلی طریقے“ سے نماز ادا کرے تو کیا نماز نہیں ہو گی؟ کیا اصول و فروع میں فرق نہیں ہے؟ مقلد رہا یا نہیں؟
قبور سے فیض
گیارھواں سوال: کیا صوفیہ کے اشغال میں مشغول اور ان سے بیعت ہونا تمہارے نزدیک جائز اور اکابر کے سینہ اور قبر کے باطنی فیضان پہنچنے کے تم قائل ہو یا نہیں اور مشائخ کی روحانیت سے اہل سلوک کو نفع پہنچتا ہے یا نہیں؟
جواب: ہمارے نزدیک مستحب ہے کہ انسان جب عقائد کی درستی اور شرع کے مسائل ضروریہ کی تحصیل سے فارغ ہو جائے تو ایسے شیخ سے بیعت ہو جو شریعت میں راسخ القدم ہو، دنیا سے بے رغبت ہو آخرت کا طالب ہو، نفس کی گھاٹیوں کو طے کر چُکا ہو۔۔ خود بھی کامل ہو دوسروں کو بھی کامل بنا سکتا ہو ایسے مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنی نظر اس کی نظر میں مقصود رکھے اور صوفیہ کے اشغال یعنی ذکر و فکر اور اس میں فناء تام کے ساتھ مشغول ہو اور اس نسبت کا اکتساب جو نعمت عظمی اور غنیمت کبری ہے۔۔بحمد للہ ہم اور ہمارے مشائخ ان حضرات کی بیعت میں داخل اور ان کے اشغال کے شاغل اور ارشاد و تلقین کے درپے رہے ہیں والحمد للہ علی ذالک، اب رہا مشائخ کی روحانیت سے استفادہ اور ان کے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض پہنچنا، سو بے شک صحیح ہے۔۔الخ (المہندصفحہ35-36)
پوسٹ کا سوال: دیوبندی ثابت کر دیں کہ سینوں اور قبروں سے فیض کیسے ملتا ہے؟
المہند کا محمد بن عبدالوہاب
بارہواں سوال: محمد بن عبدالوہاب نجدی حلال سمجھتا تھا مسلمانوں کے خون اور ان کے مال و آبرو کو اور تمام لوگوں کو منسوب کرتا تھا شرک کی جانب اور سلف کی شان میں گستاخی کرتا تھا، اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے اور کیا سلف اور اہل قبلہ کی تکفیر کو تم جائز سمجھتے ہو،یا کیا مشرب ہے؟
جواب: ہمارے نزدیک ان کا حُکم وہی ہے جو صاحب در مختار نے فرمایا ہے اور”خوارج“ ایک جماعت ہے شوکت والی جنہوں نے امام پر چڑھائی کی تھی تاویل سے کہ امام کو بطال یعی ک ف ر یا ایسی معصیت کا مرتکب سمجھتے تھے جو قتال کو واجب کرتی ہے اس تاویل سے یہ لوگ ہماری جان و مال کو حلال سمجھتے ہیں اور ہماری عورتوں کو قید بناتے تھے۔ آگے فرماتے ہیں، ان کا حُکم باغیوں کا ہے اور پھر یہ بھی فرمایا کہ ہم ان کی تک فیر صرف اسلئے نہیں کرتے کہ یہ فعل تاویل سے ہے اگرچہ باطل ہی سہی اور علامہ شامی نے اس کے حاشیے میں فرمایا ہے”جیسا کہ ہمارے زمانے میں عبدالوہاب کے تابعین سے سزد ہوا کہ ”نجد“ سے نکل کر حرمین شریفین پر متغلب ہوئے اپنے کو ”حنبلی مذہب“ بتاتے تھے مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے عقیدہ کے خلاف ہو وہ مشرک ہے۔۔ عبدالوہاب اور اس کا تابع کوئی شخص بھی ہمارے کسی سلسہ مشائخ میں نہیں ہے، نہ تفسیروفقہ و حدیث کے علمی سلسہ میں نہ تصوف میں۔۔۔(المہند صفحہ36-37-38)
ذکر ولادت و میلاد
سوال نمبر21:کیا تم اس کے قائل ہو کہ جناب رسول اللہ ﷺ کا ذکر ولادت شرعاً قبیح سیۂ حرام ہے یا اور کچھ؟
حاشا کہ ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ کی جوتیوں کے غبار اور آپ کی سواری کے گدھے کے پیشاب کا تذکرہ بھی قبیح و بدعت سئیہ یا حرام کہے وہ جملہ حالات جن کو رسول اللہﷺسے ذرا بھی علاقہ ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک پسندیدہ اور اعلی درجہ کا مستحب ہے خواہ ذکر ولادت شریفہ ہو یا آپ کے بول و براز، نشست و برخاست اور بیدار ی و خواب کا تذکرہ ہو جیسا کہ ہمارے رسالہ براہین قاطعہ میں متعدد جگہ بصراحت مذکور اور ہمارے مشائخ کے فتوی میں مسطور ہے چنانچہ شاہ محمد اسحق صاحب دہلوی مہاجر مکی کے شاگرد مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کا فتوی عربی میں ترجمہ کر کے ہم نقل کرتے ہیں تاکہ سب کی تحریرات کا نمونہ بن جائے۔مولانا سے کسی نے سوال کیا تھا کہ مجلس میلاد شریف کس طریقہ سے ناجائز؟ تو مولانا نے اس کا یہ جواب لکھا کہ سیدنا رسول اللہﷺ کی ولادت شریف کا ذکر صحیح روایات سے ان اوقات میں جو عبادات واجبہ سے خالی ہوں، ان کیفیات سے جو صحابہ کرام اور ان اہل قرون ثلاثہ کے طریقے کے خلاف نہ ہو جن کے خیر ہونے کی شہادت حضرت نے دی ہے ان عقیدوں سے جو شرک و بدعت کے موہم نہ ہوں ان آداب کے ساتھ جو صحابہ کی اس سیرت کے مخالف نہ ہوں، جو حضرت کے ارشاد ما انا علیہ و اصحابی کی مصداق ہے ان مجالس میں جو منکرات شرعیہ سے خالی ہوں سبب خیر و برکت ہے بشرطیکہ صدق نیت اور اخلاص اور اس عقیدہ سے کیا جائے کہ یہ بھی منجملہ دیگر اذکار حسنہ کے ذکر حسن ہے کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں پس جب ایسا ہو گا تو ہمارے علم میں کوئی مسلمان بھی اس کے ناجائزیا بدعت ہونے کا حُکم نہ دے گاالخ اس سے معلوم ہو گیا کہ ہم ولادت شریفہ کے منکر نہیں بلکہ ان ناجائز امور کے منکر ہیں جو اس کے ساتھ مل گئے ہیں جیسا کہ ہندوستان کے مولود کی مجلسوں میں آپ نے خود دیکھا ہے کہ واہیات موضوع روایات بیان ہوتی ہیں مردوں عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے۔ چراغوں کے روشن کرنے اور دوسری آرائشوں میں فضول خرچی ہوتی ہے اور اس مجلس کو واجب سمجھ کر جو شامل نہ ہوں اس پر طعن و تکفیر ہوتی ہے اس کے علاوہ منکرات شرعیہ ہیں جن سے شاید ہی کوئی مجلس میلاد خالی ہو پس اگر مجلس مولود منکرات سے خالی ہو تو حاشا کہ ہم یوں کہیں کہ ذکر ولادت شریفہ ناجائز اور بدعت ہے اور ایسے قول شنیع کا کسی مسلمان کی طرف کیوں کر گمان ہو سکتا ہے پس ہم پر یہ بہتان جھوٹے ملحد دجالوں کا افتراء ہے۔ خدا ان کو رسوا کرے اور ملعون کرے خشکی و تری نرم و سخت زمین میں۔ (المہندصفحہ52-55)
نتیجہ: مسلمان، جماعتوں اور علماء پر نہیں بلکہ ایک تعلیم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ ہمارا دعوی ہے کہ دیوبندی و بریلوی دونوں جماعتوں کی تعلیم اہلسنت کی ہے، قرآن و سنت کے مطابق ہے، البتہ ان جماعتوں کا بنیادی اختلاف ابھی ڈسکس نہیں کرتے کیونکہ پہلے تعلیم پر اکٹھے ہوں تو پھر اختلاف کا حل بھی نکل آئے گا۔ اس کے لئے لازم ہے کہ دیوبندی حضرات واضح کریں کہ کیا یہ تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے یا نہیں؟
تو ساری زندگی انہی مسائل میں الجھ کر وقت گذارنا چاہتا ہے
کوئی مسلمانوں کو سمجھا کرایک تعلیم پر اکٹھا کرنا چاہتا ہے
فرق ہوتا ہے سمجھنے سمجھانے میں، یہ فرقہ واریت نہیں ہے
بلکہ مسلمانوں کے درمیان کوئی شیطانی گنجھل سلجھانا چاہتا ہے۔