غیب کا مطالعہ بزبان رسول اللہ ﷺ
دنیا غفلت کا مقام ہے اور یہاں جو اپنی بخشش کروا کر قبر میں نہ گیا تو بہت پریشانی ہو گی کیونکہ جسے رب کریم نے بخشنا ہوتا ہے، اُسے دنیا میں ہی بخش کر رسول اللہ کی اتباع کی توفیق عنایت فرماتا ہے اور باقی امتحان قبر سے شروع ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ فرمان ملتے ہیں:
قبر کے سوال
1۔ سورہ ابراہیم کی آیت 27: "اللہ تعالی ایمان والوں کو قول ثابت کے ذریعے اس دُنیا اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے“ عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی اللہ کریم جسے چاہے گا سوالوں کے جواب میں آسانی پیدا فرمائے گا۔
یہ اسطرح ہے جیسے دُنیا میں ہر مسلمان کو علم ہے کہ نماز پڑھنی ہے مگر ہر کوئی پڑھتا نہیں کیونکہ رب فاسقوں کو توفیق نہیں دیتا، اسیطرح قبر کے تین سوال میرا رب، میرا نبی اور میرا دین کا علم ہر ایک کو ہو بھی سکتا ہے مگر زبان سے جواب نہیں نکلے گا کیونکہ جس کو اللہ کریم دنیا میں دین پر ثابت قدم رکھتا ہے، اُسی کو قبر کے سوالوں میں بھی ثابت قدم رکھے گا۔
قبر وہ گڑھا ہے جس میں مردے کو دفن کرتے ہیں اور قبر کا ذکر (1) سورہ التوبہ 84، فاطر 22، الحج 17، الانفطار 4، العادیات 9، اللممتحنہ 13، عبس 21 ,22 اور التکاثر 102 میں موجود ہے۔ قبر کے لئے اجداث کا لفظ بھی سورہ یس 51، القمر 7، المعارج 43 میں استعمال ہوا ہے اور سورہ عبس 22 میں بھی برزخی قبر کا اشارہ ملتا ہے۔ صحیح مسلم 1325 حضور ﷺ امت کی تعلیم کیلئے عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ ( مکمل آیات کمنٹ سیکشن میں مطالعہ کریں)
صحیح بخاری احادیث نمبر 86، 184، 922، 1053، 1338، 1374، 7287 یعنی 7 احادیث میں صرف یہی لکھا ہے کہ مُردے سے قبر میں صرف حضور ﷺ کے متعلق ہی ایک ہی سوال ہو گا۔ البتہ ابوداود حدیث نمبر 4753 میں لکھا ہے کہ تین سوال (توحید، رسالت اور دین) پوچھے جائیں گے۔
باقی علماء کی بحث ہے کہ حضور ﷺ کا دیدار قبر میں ہو گا یا حضور ﷺ کی تصویر دکھائی جائے گی اور اصل حقیقت قبر میں جانے کے بعد سمجھ میں آئے گی۔ (حوالے کمنٹ سیکشن میں)
خیال: حضرت عزرائیل علیہ اسلام (موت کے فرشتے) ہر ایک انسان کی جان قبض کرتے ہیں تو کیا اسی طرح ہر قبر کے منکر نکیر اور ہر انسان کے ساتھ کراما کاتبین علیحدہ علیحدہ ہیں یا ایک ہیں؟ اپنی رائے تو یہی ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کرام کاتبین، ہر قبر کے منکر نکیر، ہر ایک کی جان قبض کرنے والے حضرت عزرائیل اور ہر قبر میں حضور ﷺ ایک ہی ہیں۔ واللہ اعلم
اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ قبر کے سوالوں کے ٹھیک جواب دینے کے بعد جسم اور روح دونوں پر کشادگی اور جنت کی رحمت و نعمتیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح جواب نہ دینے والے کے جسم و روح کو عذاب ہوتا ہے۔ عذاب کے فرشتے، سانپ بچھو وغیرہ مسلط کر دئے جاتے ہیں جیسا کہ احادیث میں آتا ہے۔
2۔ قیامت کا روز
سورہ معارج آیت 4 سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا دن 50 ہزار سال کا ہے ” اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے”۔ اسی طرح صحیح مسلم 2290 و ابوداود 1658 میں زکوۃ نہ دینے والے کی سزا نبی کریم ﷺ نے بتائی کہ ان کو حشر کے دن یعنی 50 ہزار سال تک عذاب ہوتا رہے گا جب تک اُس کا جنت یا جہنم کی طرف جانے کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ سورہ فرقان 26، سورہ مدثر 9، 10: اور یہ دن کافروں کے لیے انتہائی مشکل ہو گا۔ البتہ مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر 5476: کہ مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت کا دن مؤمن کے لئے آسان کردیا جائے گا یہاں تک کہ وہ دن اس پر فرض نماز (کی ادائیگی کے وقت) کے بقدر رہ جائے گا۔
3۔ حوض کوثر
نبی کریم ﷺ کو جب مشرکین مکہ نے کہا کہ اس کی نسل نہیں چلے گی تو اللہ کریم نے جہاں کہنے والوں کی نسل ابتر ہونے کا اشارہ سورہ کوثر میں دیا تو ساتھ ہی نبی کریم ﷺ کو فرمایا: ہم نے آپ کو کوثر دیا۔ نبی کریم ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ تم اس وقت تک صبر کئے رہنا کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو۔
احادیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کے گھر اور منبر کے درمیان کی جگہ جنت کا باغ ہے اور حضور ﷺ کا منبر حوض پر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: واللہ مجھے اس وقت بھی میرا حوض نظر آ رہا ہے اور مجھے زمین کے حزانے کی چابیاں دی گئی ہیں۔ میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔
نبی کریم ﷺ کی امتیوں سے ملاقات حوض کوثر پر ہو گی اور نبی کریم ﷺ پہلے وہاں موجود ہوں گے۔ حوض جرباء اور اذرحاء یا ایلہ اور یمن اور شہر صنعاء کی لمبائی کے برابر ہے بلکہ ایک بندہ ایک مہینہ چلتا رہے تو اتنا لمبا حوض کوثر ہو گا۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی خوشبو مشک سے زیادہ اچھی ہو گی اور وہاں اتنی تعداد میں پیالے ہوں گے جتنے آسمان کے ستارے ہیں، جو شخص اس میں سے ایک مرتبہ پی لے گا وہ پھر کبھی بھی پیاسا نہ ہو گا۔ حوض کوثر کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے گنبد بنے ہوئے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حوض پر میرے صحابہ کی ایک جماعت آئے گی۔ پھر انہیں اس سے دور کر دیا جائے گا۔ میں عرض کروں گا میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِي فَيُحَلَّئُونَ عَنْهُ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أَصْحَابِي: اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں، یہ الٹے پاؤں (اسلام سے) واپس لوٹ گئے تھے۔ (صحیح بخاری 6575 سے 6593 پڑھئے)
حدیث میں صحابی کے لفظ سے اہلتشیع حضرات کہتے ہیں کہ اس سے وہ صحابہ مراد ہیں جن کے فضائل نعوذ باللہ خود نبی کریم ﷺ نے بیان کئے ہیں حالانکہ اہلسنت کی احادیث کے راوی بھی صحابہ کرام ہیں اور انصاری صحابہ سے نبی کریم کیا فرما رہے ہیں اور اہلتشیع حضرات کی کتابوں میں تو انصاری و مہاجرین صحابہ کے فضائل موجود ہی نہیں ہیں۔
بدعت: دوسرا اسی حدیث میں ہے کہ :تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں، یہ الٹے پاؤں (اسلام سے) واپس لوٹ گئے تھے” إِنَّكَ لَا عِلْمَ لَكَ بِمَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، إِنَّهُمُ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمُ الْقَهْقَرَى: حدیث کے اس پہلو سے اہلسنت کو بدعتی قرار دیں گے حالانکہ نیا طریقہ وہ ہوتا ہے جو نبی اکرم اور صحابہ کرام کے طریقے کے خلاف ہو، جس کی بنیاد نہ ہو مگر اہلحدیث حضرات سے بندہ پوچھے کہ تمہیں کس امام غائب نے کہا تھا کہ صحیح احادیث کے مطابق نماز پڑھنی ہے اور ضعیف احادیث کا منکر بننا ہے۔
نتیجہ: صحابہ کرام نے رسول اللہ سے سینہ بہ سینہ علم حاصل کیا، نبی کریم ﷺ نے کوئی کتاب نہیں پڑھائی، صحابہ کرام نے تابعین کو سینہ بہ سینہ تعلیم دی، کسی بھی کتاب سے نہیں پڑھایا، تابعین نے تبع تابعین کو تعلیم دی۔ اہلحدیث حضرات بدعتی ہیں کہ کتابوں کے حوالے دے رہے ہیں اور یہ عمل نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کا طریقہ ہی نہیں ہے۔ بدعتی تو خود اہلحدیث حضرات ہوئے۔ اگر کوئی کتاب تھی تو دکھا دیں کہ ان کتابوں کے صحابہ، تابعین و تبع تابعین پڑھ کر رسول اللہ کی اتباع کرتے تھے۔
4۔ ترازو
قیامت کے دن ترازو کی حقیقت سورہ انبیاء 47 "اور ہم قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کریں گے تو کسی بھی آدمی پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا،اگر کسی نے رائی کے دانے کے برابر بھی(نیک یابرا) عمل کیاہوگا تو ہم اسے بھی سامنے لیکر آئیں گے اور حساب وکتاب لینے کیلئے تو ہم کافی ہیں۔
سورہ اعراف 8 – 9: اورقیامت کےدن وزن کا ہونا ایک اٹل حقیقت ہے تو جن لوگوں کے ترازو کے پلڑے بھاری ہونگے وہی کامیاب ہونگے، اور جن کے (نیک اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوگئے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں رکھا کیونکہ وہ ہماری آیات سے ظلم وناانصافی کیا کرتے تھے۔
سورہ القارعہ آیت 6 – 11: پھر جس آدمی کے پلڑے بھاری ہونگے وہ تو من پسند عیش وعشرت کی زندگی میں خوش ہوگا،اور جس کے پلڑے ہلکے ہونگے تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا اور آپ کو کیامعلوم کہ یہ ہاویہ کیا ہے؟ وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔
صحیح بخاری 4729: بلاشبہ قیامت کے دن ایک بہت بھاری بھر کم موٹا تازہ شخص آئے گا لیکن وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی قدر نہیں رکھے گا اور فرمایا کہ پڑھو «فلا نقيم لهم يوم القيامة وزنا» ”قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن نہ کریں گے۔
سورہ ق 17 – 18: جب دوفرشتے لکھنے والے اس کے دائیں اور بائیں طرف بیٹھ کر ہر چیز تحریرکررہے ہیں۔ سورہ الانفطار "اور یقینا تم پر نگران فرشتے مقرر ہیں، بڑے معزز ہیں وہ لکھنے والے، جو کچھ تم عمل کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں۔ اور قیامت کے دن یہی اعمال کے رجسٹر تقسیم ہونگے اور ان کا وزن کیاجائے گا۔
سورہ بنی اسرائیل 12 – 13: اور ہم نے ہر انسان کا نامہ اعمال اس کی گردن میں لٹکادیا ہے، جسے ہم روز قیامت ایک کتاب کی شکل میں نکالیں گے انسان اپنی اس کتاب کو اپنے سامنے کھلاہوا پائے گا۔(پھر ہم کہیں گے اے انسان) تم اپنی یہ کتاب پڑھو آج تم خود ہی اپنا حساب کرنے کیلئے کافی ہو۔
حدیث وَالْبِطَاقَةُ : قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے میری امت کے ایک شخص کی پکار ہو گی، اور اس کے ننانوے دفتر پھیلا دئیے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا ہو گا، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا: کیا تم اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو؟ وہ کہے گا: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میرے محافظ کاتبوں نے تم پر ظلم کیا ہے؟ پھر فرمائے گا: کیا تمہارے پاس کوئی نیکی بھی ہے؟ وہ آدمی ڈر جائے گا، اور کہے گا: نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: نہیں، ہمارے پاس کئی نیکیاں ہیں، اور آج کے دن تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله لکھا ہو گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں، وہ سارے دفتر ہلکے پڑ جائیں گے اور پرچہ بھاری ہو گا۔ اور ان ہی صحائف اعمال کا قیامت کے دن وزن کیاجائے گا۔ (سنن ابن ماجہ 4300)
صحیح بخاری 7563: دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے، وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں: سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم
ترمذی 2002: قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاق حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اور اللہ تعالیٰ بےحیاء، بدزبان سے نفرت کرتا ہے“۔
صحیح مسلم 2581: کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ مفلس کسے کہتے ہیں؟“ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے یہاں مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار اور ضروری سامان زندگی نہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہماری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن روزہ، نماز اور زکاۃ کے ساتھ اس حال میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پہ تہمت باندھی ہو گی، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، اور کسی کو مارا ہو گا، پھر اسے سب کے سامنے بٹھایا جائے گا اور بدلے میں اس کی نیکیاں مظلوموں کو دے دی جائیں گی، پھر اگر اس کے ظلموں کا بدلہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو مظلوموں کے گناہ لے کر اس پر رکھ دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا“
نتیجہ: میزان حق ہے یہ ایک ترازو ہے جس پر لوگوں کے نیک و بداعمال تو لے جائیں گے۔ نیکی کا پلہ بھاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پلہ اوپر کو اٹھے جبکہ دنیا میں بھاری پلہ نیچے کو جھکتا ہے۔ اسلئے ہر مسلمان کو علم، اُس علم پر عمل اور عمل میں خلوص ہونا چاہئے یعنی ہر کام اللہ کے لئے کرنا ہے تاکہ ترازو بلند ہو۔ ہر معاشی، معاشرتی، قولی، فعلی نیکی وہاں کام آئے گی۔
5۔ پُل صراط
جہنم کے اوپر کے پُل صراط پر گذرنا کوئی مشکل نہیں بلکہ مشکل اس دُنیا کے پُل صراط پر گذرنا ہے یعنی اس دُنیا میں اللہ کریم کے حُکم پر چلنا آخرت کے پُل صراط پر تیزی سے گذرنا ہے۔ اسلئے مشکل جہنم کے اوپر والا پُل صراط نہیں ہے بلکہ اس دنیا کا پُل صراط ہے جس کو ہم سمجھ نہ پائے جیسے آپ آخرت میں بخشش چاہتے ہیں کہ دُنیا سے بخشے بخشائے جانا چاہتے ہیں؟
عقیدہ: عقیدہ”صِراط“ حق ہے۔ اس پر ایمان لانا واجب (شرح الصاوی علی جوہرۃ التوحید، ص 389) اور اِس کا انکار گمراہی ہے۔ (المعتقد مع المعتمد، ص 335) اس پُل سے گزرے بغیر کوئی جنت میں نہیں جا سکتا کیونکہ جنت میں جانے کا یہی راستہ ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، ج 2، ص15) عقیدہ قرآن و احادیث سے بنتا ہے:
دوزخ سے گذرنا: اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو، تمہارے ربّ کے ذمہ پر یہ ضرور ٹھہری ہوئی بات ہے۔ (سورہ مریم 71) ہر نیک و بد نے جہنم کے اوپر یا اُس کے اندر داخل ہو کر گذرنا ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: جن لوگوں نے بیعت رضوان کی ہے اگر اللہ چاہے تو ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہ جائے گا تو سیدہ حفصہ نے سورہ مریم 71 پڑھ کر اعتراض کیا تو نبی کریم ﷺ نے سورہ مریم 72 پڑھ کر سمجھایا ”پھر ہم نجات دیں گے پرہیز گاروں کو اور چھوڑ دیں گے ظالموں کو گھٹنوں کے بل”۔
نیک اعمال: لوگ جہنم میں جائیں گے، پھر اس سے اپنے نیک اعمال کے سہارے نکلیں گے، پہلا گروہ (جن کے اعمال بہت اچھے ہوں گے) بجلی چمکنے کی سی تیزی سے نکل آئے گا۔ پھر ہوا کی رفتار سے، پھر گھوڑے کے تیز دوڑنے کی رفتار سے، پھر سواری لیے ہوئے اونٹ کی رفتار سے، پھر دوڑتے شخص کی، پھر پیدل چلنے کی رفتار سے“۔ (ترمذی 3159، 3160)
پُل صراط: صحیح بخاری میں "باب الصراط جسر جہنم” (صراط ایک پل ہے جو دوزخ پر بنایا گیا ہے) لکھا گیا۔ جہنم پر پل بنا دیا جائے گا (صحیح بخاری 6573)
باریک: "أَنَّ الْجِسْرَ أَدَقُّ مِنْ الشَّعْرَةِ وَأَحَدُّ مِنْ السَّيْفِ” وہ پُل بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا” (صحیح مسلم 183)
پہلا شخص: حضور ﷺ نے فرمایا: فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ پُل صراط پار کرنے والا میں پہلا شخص ہوں گا۔ (صحیح بخاری 6573)
امتی خوش قسمتی: دوزخ کی پیٹھ پر پل صراط نصب کر دیا جائے گا اور میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو پار کرنے والے ہوں گے (بخاری 7437)
دُعا: اُس دن رسولوں کی دُعا اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ اے اللہ! مجھ کو سلامت رکھیو۔ (صحیح بخاری 6573) اسلئے رسول اللہ ﷺ کی دعا امت کے لئے بھی ہو گی: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ ” "اے اللہ! سلامتی عطافرما،سلامتی عطا فرما۔”
کانٹے اور آنکڑے: اس پل میں لوہےکے آنکڑے اور نہایت خطرناک کانٹے ہوں گے جو اللہ کریم کے حکم سے بے ایمان اور قطع تعلقی کرنے والوں کو اپنی گرفت میں لیں گے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہرنیک اور بد جہنم میں ضرور جائے گا لیکن جہنم مومنوں پر اس طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر ہوگئی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کو نجات عطا فرمادے گا اور ظالموں کو اس میں گرا ہوا چھوڑ دے گا (و قال الہشیمی ر واہ احمد ورجالہ ثقات مجمع زوائد ج 7 ص 55 تفسیر سورہ مریم)
اصل: اس پل پر سے ہر مومن وکافر کوگزرنا ہوگا۔ مومن تو اپنے اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بد دیر گزر جائیں گے۔ کچھ پلک جھپکنے میں، کچھ بجلی اور ہوا کی طرح، کچھ پرندوں کی طرح، کچھ عمدہ گھوڑوں کی طرح اور تیزروافراد کی طرح اور کچھ گرتے پڑتے اور گھسٹتے ہوئے۔ کچھ لوگ بالکل صحیح سالم، کچھ زخمی مگر پل عبور کرلیں گے اور کچھ جہنم میں گر پڑیں گے، جنھیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیا جائے گا لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور سب جہنم میں گر پڑیں گے۔ (پڑھیں صحیح مسلم 454)
غور و فکر: ان تمام باتوں پر ایمان لانے کے بعد اپنی زندگی میں نیکیوں کی رفتار تیز کرنا ہو گی تاکہ رسول اللہ ﷺ کا ہمیں دنیا میں ساتھ مل سکے۔ دوسرا یہ ڈاٹ ہیں جس سے ہم غیب پر ایمان رکھتے ہیں مگر اس پر مکمل انفارمیشن ہر ایک کو قبر، حشر میں ہی معلوم ہو گی۔ صحیح مسلم 2670: آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا کہ بال کی کھال نکالنے والے ہلاک ہوئے یعنی جو ہر بات کی کھال اُتارنے والے ہوتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔