Zehar Ka Pyala (زہر کا پیالہ)

زہر کا پیالہ

اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا قرآن، احادیث، اہلبیت، بارہ امام سے تعلق نہیں ہے۔ منگھڑت واقعات، احادیث کے نام پر جھوٹ، معجزہ بی بی زینب و فاطمہ، تعزیے، علم، ماتم، زنجیر زنی، ماہ محرم میں سوگ، ماہ صفر میں الائیں بلائیں، آخری بُدھ، 22 رجب کے کُونڈے، محرم میں قبر پر مٹی ڈالنا حالانکہ قبر ایک گِٹھ ہونی چاہئے، عجیب و غریب کہانیوں کے ساتھ ساتھ اہلبیت کو مظلوم بنا کر، صحابہ پر الزام لگا کر، جاہلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتاہے۔
اسطرح تاریخ کی بے سند روایات سے سیدنا حسن کی وفات کا الزام حضرت معاویہ سے پر لگاتا ہے حالانکہ کسی کو قاتل ثابت کرنے کے لئے تاریخ کی کتابیں نہیں بلکہ قرآن و سنت کے مطابق قانون و اصول پر جج فیصلہ دے گا۔ اسلئے دلائل یہ ہیں:
اہلسنت کی دلیل: عمیر بن اسحاق کہتے ہیں میں اور ایک آدمی سیدنا حسن بن علی کی عیادت کے لیے داخل ہوئے۔ آپ اس آدمی سے کہنے لگے: مجھ سے سوال نہ کرسکنے سے پہلے سوال کرلیں۔ اس آدمی نے عرض کیا: میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ آپ کوعافیت دے۔ آپ کھڑے ہوئے اور بیت الخلاء گئے۔ پھر نکل کر ہمارے پاس آئے، پھرفرمایا: میں نے تمہارے پاس آنے سے پہلے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا (پاخانے کے ذریعہ) پھینک دیا ہے۔ میں اس کو اس لکڑی کے ساتھ الٹ پلٹ کررہاتھا۔ میں نے کئی بار زہر پیا ہے، لیکن اس دفعہ سے سخت کبھی نہیں تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس اگلے دن آئے تو آپ حالت نزع میں تھے۔ سیدنا حسین آپ کے پاس آئے اور آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھ گئے اورکہا: اے بھائی!آپ کو زہر دینے والا کون ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ! فرمایا: اگر وہ شخص وہی ہے جو میں سمجھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں زیادہ سخت ہے۔ اوراگر وہ بری ہے تو میں ایک بری آدمی کوقتل نہیں کرنا چاہتا۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: 15/93،94، کتاب المحتضرین لابن ابی الدنیا: 132، المستدرک للحاکم: 3/186، الاستیعاب لابن عبد البر: 3/115، تاریخ ابن عساکر: 13/282)
اہلتشیع کا حوالہ: علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (زین العابدین) رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ حسین میرے چچا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے زہر پلانے کے وقت گئے تو حسن رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لئے گئے وہاں سے لوٹ کر کہا کہ مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا، لیکن اس مرتبہ کے ایسا کبھی نہ تھا اس میں میرے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے تم مجھے دیکھتے کہ میں ان کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا، حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا بھائی صاحب کس نے پلایا؟ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا، اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے، اگر زہر دینے والا وہی شخص ہے جس کے متعلق میرا گمان ہے تو خدا اس کے لئے کافی ہے اور اگر دوسرا ہے تو میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے، اس کے بعد حسن رضی اللہ عنہ زیادہ نہ ٹھہرے اور تین دن کے بعد انتقال کرگئے۔ (بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج 44 – الصفحة 148)
عقیدہ: شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے: ائمہ جانتے ہوتے ہیں کہ کب مریں گے اور وہ اپنے اختیار ہی سے مرتے ہیں۔‘‘ (اصول الکافی الکلینی : 258/1، الفصول المہمۃ للجرالعاملی : ص 155) ملا باقر مجلسی صاحب لکھتے ہیں: کوئی امام نہیں، مگر وہ قتل یا زہر کے ذریعے مرا ہے۔‘‘ (بحار الانوار للمجلسی : 364/43)
وفات اور جنازه: سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی بیماری کے ایام نہایت صبر و عمل سے گزارے اور ربیع الاول ۴۹ھ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اس وقت کے امیر مدینہ سعید بن العاص الاموی رضی اللہ عنہ تھے ان کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ آپ جنازہ پڑھائیں اور ساتھ ہی قاعده شرعی بیان فرمایا کہ دین اسلام میں سنت یہی ہے کہ امیر وقت نماز جنازہ پڑھانے کا زیادہ حقدار ہے۔ اگر یہ سنت نبوی نہ ہوتی تو میں آپ کو صلوة جنازہ کے لیے مقدم نہ کرتا، اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے بھائی کی وفات کے بعد بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ امیر کی اطاعت سے نہیں نکلے۔
سیدنا حسن کا جنازہ حضرت سعید بن العاص نے پڑھایا۔ (مستدرک الحاکم ج3،ص190)
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں بطور وفد کے ہمراہ سال تشریف لے جاتے تھے۔ اس وقت ان کے لیے بہت کچھ انعام و اکرام حضرت معاویہ کی طرف سے کیا جاتا تھا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اسے بخوشی قبول کرتے تھے۔ 51ھ میں جب غزوہ قسطنطنیہ پیش آیا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس میں جا کر شامل ہوئے اور اس وقت امیر الجیش حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا فرزند یزید تھا۔
الزام: شیعہ مورخ مسعودی نے لکھا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی نے زہر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا یزید کے کہنے پر اس لالچ میں دیا کہ میں تجھ سے نکاح کر لوں گا۔ علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یہ روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان (امام حسن رضی اللہ عنہ) کی بیوی سے مل کر زہر دلایا شیعوں کی بنائی ہوئی ہے حاشا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔ (ابن خلدون ج 2 ص 187) علامہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: میرے نزدیک تو یہ بات بھی صحیح نہیں کہ یزید نے سیدنا امام حسن کو زہر دے کر شہید کر دیا ہے اور اس کے والد ماجد سیدنا امیر معاویہ کے متعلق یہ گمان کرنا بطریق اولٰی غلط ہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج 8 ص 43)
علامہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سوانح کربلا میں فرماتے ہیں: مؤرخین نے زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث ابن قیس کی طرف کی ہے اور اس کو حضرت امام کی زوجہ بتایا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ زہر خورانی باغوائے یزید ہوئی ہے اور یزید نے اس سے نکاح کا وعدہ کیا تھا۔ اس طمع میں آکر اس نے حضرت امام کو زہردیا ۔ (تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب، ص152) لیکن اس روایت کی کوئی سندِ صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر کسی سندِ صحیح کے کسی مسلمان پر قتل کا الزام اور ایسے عظیم الشان قتل کا الزام کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔
حقائق: مندرجہ بالا کتابوں اور اہلتشیع کے عقائد سے علم ہوا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو خود بھی علم نہیں تھا کہ زہر کس نے دیا۔ دوسرا ان کو اہلتیشع عقیدے کے مطابق ان کی مرضی سے ہی زہر سےموت آئی تو پھر کسی پر الزام کیسا؟ تیسری بات حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد بھی کسی کے خلاف پرچہ درج نہیں کرایا۔ چوتھی بات ان کا جنازہ قانون کے مطابق حاکم وقت نے پڑھایا، کوئی تیر وغیرہ مروان نے نہیں چلائے۔ پانچویں بات امام حسن رضی اللہ عنہ کے گھر والوں پر بھی الزام غلط ہے۔ چھٹی بات حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے رشتہ نہیں توڑا۔
بے بنیاد مذہب: اہلتشیع سے بات کرو تو اپنی کتابوں سے مکر جائے گا، پھر اپنے علماء سے مکر جائے گا، پھر بارہ امام کی سینہ بہ سینہ روایات پر آ جائے گا، پھر احادیث کا منکر ہو جائے گا، پھر قرآن کی تفسیر غلط کر کے دھوکہ دے گا، پھر اہلسنت پر الزامی وار کرے گا،آخر پر آپ کو ثابت ہو جائے گا کہ اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general