ابو جہل اور ابو لہب کا حضورﷺ سے کیا رشتہ تھا؟
اکثرلوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ابوجہل کیا حضور ﷺ کا حقیقی چچا تھا؟ اُس کا اصل نام کیا تھا؟ اس کو ابوجہل کا لقب کس نے دیا؟
جواب: حضور ﷺ کے بارہ چچا (1) حارث (2) ابوطالب (3) زبیر (4) ابولہب (5) غیداق (6) مقوم (7) ضرار (۸) قثم (9) عبدالکعبہ (10) جحل (11) حمزہ (12) عباس ( سیرت مصطفے صفحہ 699, 700) تھے، ان بارہ میں سے سوائے سیدنا حمزہ اور عباس رضی اللہ عنھما کے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا۔
شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ابو جہل حضور اقدس ﷺ کا چچا تھا، یہ بالکل غلط بھی ہے ۔۔ ابو جہل کا قبیلہ بنو مخزوم کا تھا اور حضور اقدس ﷺ بنی ہاشم سے تھے پھر ابو جہل حضور اقدس ﷺ کا چچا کیسے ہو سکتا ہے ابوجہل بہت سرکش فسادی ۔۔ (بحوالہ فتاویٰ شارح بخاری جلد اول صفحہ 411، مکتبہ دائرۃ البرکات گھوسی )
بنو مخزوم قبیلہ: ابوجہل کا تعلق مخزومی قبیلے سے تھا اور بنی مخزوم قبیلے کے سردار مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کے کئی بیٹے تھے جن میں سے چند یہ ہیں جن کا ہماری تاریخ سے خاص تعلق ہے:
۱۔ ولید بن مغیرہ، سیدنا خالد بن ولید کا باپ تھا اسلئے ابوجہل سیدنا خالد کا چچا ہے اور سیدنا خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابوجہل کزن ہیں۔
۲۔ ہاشم بن مغیرہ۔ اس کی بیٹی حنتمہ سیدنا عمر کی ماں اور ابو جہل کی بہن تھی۔
۳۔ ہشام بن مغیرہ۔ ابو جہل اور حارث کا باپ۔ ۴۔ ابو امیہ بن مغیرہ، حضرت ام سلمہ کا باپ ۵۔ ابو ربیعہ بن مغیرہ۔ اس نے اپنے بھائی ہشام کے بعد اس کی بیوی اسماء بنت مُخّرِبہ (ابوجہل اور حارث کی ماں) سے نکاح کیا اور اس سے حضرت عیاش بن ابی ربیعہ پیدا ہوئے۔ اس طرح حضرت عیاش ابوجہل کے ماں جائے بھی تھے اور چچا زاد بھائی بھی۔
اسی خاندان سے مغیرہ کے ایک بھائی اسد بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کا بیٹا عبد مناف حضرت ارقم کا باپ تھا جن کا دار ارقم اسلامی تاریخ میں مشہور ہے۔ مغیرہ کے دوسرے بھائی ہلال بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم کا بیٹا عبدالاسد حضرت ابو سلمہ (ام المؤمنین حضرت ام سلمہ کے پہلے شوہر) کا باپ تھا۔
نام اور کنیت: ابوجہل کی کنیت ابوالحِکَم، جس کا مطلب "علم و حکمت کا بادشاہ”۔ ابوجہل ایک شاعر، مقرر، خانہ کعبہ کا متولی تھا مگر جب حضور کے مقابلے میں آیا تو ابو جہل بن گیا۔ علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:’’ابوالحِکَم ،ابوجہل کی کنیت تھی اور نبی ﷺ نے اُسے ’’ابوجہل ‘‘لقب دیا تھا، (التوشیح شرح بخاری، ج:6 ص:2484) علامہ غلام رسول سعیدی ابوجہل کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اُس کا نام عَمْرو بِن ہِشَام (عُمَر بِن ہِشَام نہیں) تھا، رسول اللہ ﷺ نے اُس کو ابوجہل فرمایا (نعمۃ الباری، ج:1، ص:704)۔
فرعون: ہر امت میں ایک فرعون ہوتا ہے اور میری امت کا فرعون ابوجہل ہے۔( مسند شاشی، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ، ما روی ابوعبیدۃ بن عبد اللّٰہ عن ابیہ، 2 / 331، الحدیث: 922) اب فرعون تو فرعون ہوا کیا کیا ظلم نہ کیا۔
پہلی بیوی: ابو جہل کی پہلی بیوی کا نام مجلدیہ بنت عمير بن معبد بن زرارة جس سے عکرمہ، زرارہ اور تمیمی تھے۔ دوسری بیوی کا نام عروہ بنت ابی العاص ابن امیہ جس سے آٹھ بیٹیاں صخرہ، اسماء، جمیلہ، ام حکیم، جویریہ، حنفہ، ام حبیبہ تھیں۔
صحیح بخاری 3110 اور دیگر احادیث کی کتب میں فتح مکہ کے بعد جب ابوجہل کا خاندان مسلمان ہو گیا تو سیدنا علی نے ابوجہل کی کسی ایک بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تو حضور نے پسند نہیں کیا۔
ابولہب
حضور ﷺ کے بارہ چچا (1) حارث (2) ابوطالب (3) زبیر (4) ابولہب (5) غیداق (6) مقوم (7) ضرار ( قثم (9) عبدالکعبہ (10) جحل (11) حمزہ (12) عباس ( سیرت مصطفے صفحہ 699, 700) تھے سوائے سیدنا حمزہ اور عباس رضی اللہ عنھما کے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا۔
ابو لہب حضور ﷺ کا چچا، نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب، کنیت ابو عتبہ، چہرے کی خوبصورتی اور چمک دمک کی وجہ سے اسے ابو لہب یعنی شعلے والا کہا جاتا تھا۔ ابو لہب کی بیوی حرب بن امیہ کی بیٹی،ابو سفیان کی بہن، کنیت ام جمیل اور نام ارویٰ تھا۔
صحیح بخاری 4971: جب یہ آیت نازل ہوئی «وأنذر عشيرتك الأقربين» ”آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے“ تو رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے، تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ یہ سن کر ابولہب بولا، تو تباہ ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ پھر نبی کریم ﷺ وہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ سورت نازل ہوئی «تبت يدا أبي لهب وتب» الخ یعنی ”دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہو گیا۔“
دو صاحبزادیاں: سیدہ امّ کلثوم اور سیدہ رقیّہ کا نکاح حضورﷺ کے چچا ابولہب کے دو لڑکے عتیبہ اور عتبہ سے ہوا مگر رخصتی باقی تھی۔جب اللہ تعالی نے تبت یدا أبی لَھب (سورہ لہب) نازل فرمائی: تو ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں : عتیبہ اور عتبہ کو کہا: ”اگر تم نے محمد کی بیٹیوں کو طلاق نہ دی؛ تو تم دونوں کے سر کے لیے میرا سر حرام ہے“۔ ان دونوں کی ماں : بنت حرب بن امیّہ نے کہا: ”یہی ایندھن اٹھانے والی ہے کہ تم دونوں انھیں طلاق دے دو: کیوں کہ وہ دونوں صابی (اپنا دین بدلے ہوئے ) ہیں:“ چناں چہ ان دونوں نے انھیں طلاق دے دی۔ (تفسیر درّ منثور 8 / 667)
ابو لہب کی سنگ باری: سیدنا طارق بن عبد اللہ المحاربی فرماتے ہیں : میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو بازار ”ذی المجاز“ میں دیکھا: آپ ﷺ نے سرخ جبہ پہنا ہوا اور فرما رہے تھے: ”اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے“۔ ایک شخص آپ کے پیچھے پیچھے پتھر ماررہا تھا، جس سے آپ کی پنڈلی اور ایڑی خون آلود ہوگئے۔ وہ شخص ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا: ”اے لوگو! اس کی بات نہ سننا یہ جھوٹا ہے“۔ محاربی فرماتے ہیں کہ میں سے پوچھا کہ یہ شخص (آپ ﷺ) کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ لڑکا بنی عبد المطلب سے ہے۔ (پھر) میں پوچھا: وہ شخص کون ہے جو اس کا پیچھا کررہا ہے اور پتھر مار رہا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا یہ آپ ﷺ کا چچا عبد العزی یعنی ابو لہب ہے۔ (مصنف ابن أبی شیبہ، حدیث: 36565 )
بنو مالک بن کنانہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول کو بازار ”ذی المجاز“ میں دیکھاکہ یہ فرماتے تھے : ”اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے“۔ راوی فرماتے ہیں کہ ابوجہل آپ ﷺ پر مٹی پھیکتا تھا اور یہ کہتا تھا: اے لوگو! خیال رکھنا یہ شخص تم کو تمھارے دین کے حوالے سے دھوکہ نہ دیدے ؛ کیوں کا اس کا ارادہ ہے کہ تم لات وعزی کو چھوڑ دو! جب کہ رسول اللہ ﷺ اس کی طرف ذرہ برابر بھی التفات نہیں فرماتے تھے۔ (مسند احمد، حدیث: 16603)
عبر تناک موت : ابولہب بدر میں شریک نہیں ہو سکا۔ جب کفارِ قریش شکست کھا کر مکہ واپس آئـے تو لوگوں کی زبانی جن گ ِ بدر کے حالات سن کر ابولہب کو انتہائی رنج و ملال ہوا۔ اس کے بعد ہی وہ بڑی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس سے اس کا تمام بدن سڑ گیا اور آٹھویں دن مر گیا۔ عرب کے لوگ چیچک سے بہت ڈرتـے تھـے اور اس بیماری میں مرنے والے کو بہت ہی منحوس سمجھتـے تھـے اس لیے اس کے بیٹوں نے بھی تین دن تک اس کی لاش کو ہاتھ نہیں لگایا مگر اس خیال سے کہ لوگ طعنہ ماریں گے ایک گڑھا کھود کر لکڑیوں سے دھکیلتـے ہوئے لے گئے اور اس گڑھے میں لاش کو گرا کر اوپر سے مٹی ڈال دی اور بعض مورخین نے تحریر فرمایا کہ دور سے لوگوں نے اس گڑھے میں اس قدر پتھر پھینکے کہ ان پتھروں سے اس کی لاش چھپ گئی۔ (حوالہ زُرقانی ج 1 ص 452)
صحیح بخاری 5101: ثوبیہ ابولہب کی لونڈی تھی۔ ابولہب نے اس کو آزاد کر دیا تھا۔ (جب اس نے نبی کریم ﷺ کے پیدا ہونے کی خبر ابولہب کو دی تھی) پھر اس نے نبی کریم ﷺ کو دودھ پلایا تھا جب ابولہب مر گیا تو اس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے کیا گزری؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک ذرا سا پانی (پیر کے دن مل جاتا ہے) ابولہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کے انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کر دیا تھا۔
ابولہب کی بیوی کا انجام: ارشادِ باری تعالیٰ ہے :وَّ امْرَاَتُهٗؕ-حَمَّالَةَ الْحَطَبِۚ(4)فِیْ جِیْدِهَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ۠(5) (پ30، اللھب:4۔5) ترجَمۂ کنز الایمان:اور اس کی جورُو لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھائے اس کے گلے میں کھجور کی چھال کا رسّا۔
علامہ مولانا سَیِّدمحمد نعیم الدین مراد آبادی ان آیات کے تحت فرماتے ہیں :اُمِّ جمیل بنتِ حَرْب بن اُمیّہ سیّدِ عالَم ﷺ کی عداوت میں خود اپنی سر پر کانٹوں کا گٹھا لاکر رسولِ کریم ﷺ کے راستہ میں ڈالتی تاکہ حضورﷺ کو اور حضور ﷺ کے اصحاب کو ایذا و تکلیف ہو اور حضورﷺ کی ایذا رسانی اس کو اتنی پیاری تھی کہ وہ اس کام میں کسی دوسرے سے مدد لینا بھی گوارا نہ کرتی تھی ۔ایک روز یہ بوجھ اٹھا کر لارہی تھی کہ تھک کر آرام لینے کے لئے ایک پتّھر پر بیٹھ گئی ایک فرشتے نے بحکمِ الٰہی اس کے پیچھے سے اس گٹھے کو کھینچا وہ گرا اور رسّی سے گلے میں پھانسی لگ گئی اور وہ مرگئی۔
اولاد: خوش قسمتی ہے کہ ابولہے کی ساری اولاد (عتبہ، خالدہ، درہ، عزا) مسلمان ہوئی سوائے عتیبہ جن کو شیرنے ہلاک کر دیا:
1۔ خالدہ بنت ابی لہب: حضور ﷺ کی چچا زاد بہن جس نے عثمان بن ابی العاص بن بشریٰ بن عبد بن دہمان الثففی سے شادی کی۔ (الإصابة في تمييز الصحابة، ترجمة خالدة بنت أبي لهب)
2۔ عتبہ : فتح مکہ کے بعد اسلام لائے (ابن سعد، جلد 4، ص 41،42)، غزوہ حنین میں شریک ہوئے(اسد الغابہ:3/366)، سیدنا ابوبکر کے دور میں وفات پائی۔ (اصابہ:4/216)
3: درہ بنت ابی لہب: ابن اثیر لکھتے ہیں کہ سیدہ درہ نے اسلام قبول کرکے ہجرت کی۔ سیدہ درہ رضی کا نکاح حضور ﷺ کے چچا زاد بھائی نوفل بن حارث کے بیٹے حارث سے ہوا۔ سیدہ درہ کے شوہر اور سسر نے غزوۂ خندق سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔ (حیات الصحابہ) آپ سے کئی حدیثیں مروی ہیں جن کے راویوں میں عبدﷲ بن عمیرہ اورسیدنا علی وغیرہ ہیں۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :حضرت درہ بنت ابولہب نہایت فیاض تھیں اور مسلمانوں کو کھانا کھلایا کرتی تھیں۔ حضرت درہ کے تین بیٹے عتبہ، ولید اور ابو مسلم پیدا ہوئے۔
4۔ عزہ بنت ابی لہب:اوفی بن حکیم بن امیہ بن حارثہ بن الاوقص السلمی نے آپ سے شادی کی اور آپ سے عبیدہ ، سعید اور ابراہیم بنی اوفی پیدا ہوئے۔ کتاب "اخوۃ ” میں کہا ہے: آپ سے کوئی روایت نہیں ہے۔ (معالي الرتب لمن جمع بين شرفي الصحبة والنسب. دار البشائر الإسلامية للطباعة والنشر والتوزيع، لطبقات الكبير)
5۔ عتیبہ مسلمان نہیں ہوا کیونکہ اس نے حضورﷺ کی توہین کی تو نبی اکرم ﷺ نے اس کے لئے بد دعا کر دی اے اللہ! اپنے کتّوں میں سے کسی کتّے کواس پر مسلّط فرما دے۔ اس کو تجارتی سفر کے دوران ایک شیر نے مار دیا۔(شرح المواهب ،باب فی ذکر اولادہ الکرام، جلد4 صفحہ 325, 326 (ملخصاً) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)