خوش نصیب رضاعی ماں
بدری صحابی سیدنا ابوحذیفہ جن کی بیوی کا نام سہلہ بنت سہیل اور سگے بیٹے کا نام محمد بن ابوحذیفہ تھا۔ سیدنا ابو حذیفہ نے حضرت سالم کو آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ سورہ احزاب کی آیات اتریں کہ متنبی یعنی منہ بولا بیٹا حرام ہے تو سیدنا خذیفہ کی بیوی نے محسوس کیا کہ اس آیت کے اترنے پر سیدنا خذیفہ اپنے منہ بولے بیٹے کی طرف ناگواری سے دیکھتے ہیں، کیونکہ اب سالم کا اپنی پالنے والی ماں سے پردہ لازمی تھا اور وہ پردہ کرتے نہیں تھے کیونکہ بچپن سے ان کو والدین کا درجہ دیتے اور ساتھ رہتے تھے۔
صحیح مسلم 3601: سیدہ عائشہ نے کہا کہ سالم مولیٰ ابوحذیفہ، سیدنا ابوحذیفہ کے ساتھ ان کے گھر میں رہتے تھے اور سہیل کی بیٹی یعنی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ ﷺ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی کہ سالم حد بلوغ کو پہنچ گیا اور مردوں کی باتیں سمجھنے لگا وہ ہمارے گھر میں آتا ہے اور میں خیال کرتی ہوں کہ ابوخذیفہ کے دل میں اس سے کراہت ہے۔ سو فرمایا ان سے نبی کریم ﷺ نے کہا کہ ”تم سالم کو دودھ پلا دو کہ تم اس پر حرام ہو جاؤ اور وہ کراہت جو ابوحذیفہ کے دل میں ہے جاتی رہے۔“ پھر وہ لوٹ کر آپ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کی کہ میں نے اس کو دودھ پلا دیا اور ابوحذیفہ کی کراہت جاتی رہی۔
الزام: اگر کسی کو شک گذرے کہ جوان کو سینے سے لگا کر چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلایا گیا ہو گا تو یہ مقدس ہستیوں کے خلاف بات ہے۔ اگر کوئی گندہ ذہنی عیاش اس سے حدیث پر اعتراض کرے تو اس کا اعتراض اس کے منہ پر ہے۔ اہلتشیع حضرات اپنے ناجائز واہیات عقائد کو اس حدیث کی آڑ میں اہلسنت پر الزام لگائیں کہ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے، تو بالکل لکھا ہے اور اسیطرح لکھا ہے۔
شرح حدیث: امام ابن سعد (متوفی 230ھ) فرماتے ہیں کہ ایک برتن میں ایک چسکی نکالی جاتی اور پانچ روز تک سالم رضی اللہ عنہ اس میں سے ایک قطرہ پیتے (الطبقات الکبری)۔ علامہ ابن ھمام، امام ابن حجر عسقلانی، امام زرقانی، قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیھم کے یہی قول موجود ہیں۔ برتن سے دودھ پلانے کے معاملے میں ائمہ، مجتہدین، محدثین اور مشائخ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
مختار کُل: رسول اللہ ﷺ قرآن کی تشریح کرنے اور دین سکھانے میں اختیار رکھتے ہیں جیسے حضرت سالم کے معاملے میں کیا لیکن اہلسنت کے خلاف یہ پراپیگنڈا کیا جائے کہ اہلسنت اللہ کریم کی طرح مختار کُل مانتے ہیں تو ایسا کرنے والے قیامت والے دن مجرم ہوں گے۔
لغوی اور شرعی معنیٰ: لغت میں رِضَاع اور رَضَاع کا معنیٰ ہے ’’عورت کا پستان چوسنا‘‘۔ شرعی و اصطلاحی رضاعت کے معنی ہیں کہ عورت کے پستان سے مدتِ رضاعت میں بچے کے پیٹ میں دودھ پہنچنا، خواہ بچہ خود منہ کے ذریعے دودھ چوسے یا کسی اور طریقے سے اس کے پیٹ میں پہنچایا جائے۔
سورہ بقرہ میں ہے کہ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ترجمہ: اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں۔ سورہ لقمان میں ہے کہ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ ترجمہ: اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے۔ سورہ الاحقاف میں
اللہ تعالیٰ نے حمل اور رضاعت کی مدت کو اکٹھا بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانہ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔
ابو داود 2059، ترمذی 1072، ابن ماجہ 1936کے مطابق رضاعت وہی ہے جس سے ہڈی پیدا ہو اور گوشت بنے، دودھ چھڑانے کی عمر سے قبل ہو، بچہ پستان سے دودھ پئے یا کسی بھی طریقے سے اس کے حلق سے نیچے اتر جائے تو جس کا دودھ پیا، وہ اس کی رضاعی ماں بن جائے گی۔
دلیل: حضرت نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہ کے نزدیک مدت رضاعت اس آیت کے مطابق 30 ماہ ہے: وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ترجمہ: اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانہ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ صاحبین (امام ابویوسف اور امام محمد) اور امام شافعی کے نزدیک مدتِ رضاعت اس آیت کے مطابق دو سال ہے: وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ترجمہ: ور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں۔
جمہور آئمہ کے نزدیک مدت رضاعت دو سال جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک احتیاطاً اڑھائی سال ہے۔
فضیلت: حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں اور حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے متعلق تو حضورﷺ نے بھی فرمایا کہ قرآن چار شخصوں سے سیکھو، ابن مسعود، ابی بن کعب، معاذ ابن جبل اور سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنھم (جامع صغیر سیوطی) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وفات سے قبل فرمایا تھا کہ حضرت سالم رضی اللہ عنہ زندہ نہیں ورنہ میں آج انکو خلیفہ نامزد کرتا۔ یمامہ کی لڑائی میں حضرت ابو حذیفہ اور سالم رضی اللہ عنھما دونوں باپ بیٹا شہید ہوئے تو جب دیکھا گیا تورضاعی بیٹے کا سر اپنے رضاعی والد کے پاؤں پر رکھا ہوا تھا۔