توکل
توکل کی آسان تعریف یہ ہے کہ اس دنیا میں دین و دنیا کے سارے کام حکمت عملی، دانائی، شرعی علم اور تمام اسباب کو کام میں لاتے ہوئے کرنا مگر نتیجہ اللہ کریم پر چھوڑ دینا کیونکہ نتیجہ اللہ کریم پر چھوڑ دینے والا کبھی دُکھی نہیں ہوتا اور نتیجہ اپنی مرضی کا چاہنے والا کبھی سُکھی نہیں ہوتا۔ اسلئے توکل علم، اُس کے بعد عمل اور اُس کے بعد پیدا ہونے والی کیفیت کا نام ہے۔
قرآن پاک تعلیم دیتا ہے جیسے سورہ طلاق 3: اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ سورہ مائدہ 23: اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے۔ ترمذی 2344: رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں۔
چند الفاظ ہی کافی ہیں سمجھنے سمجھانے کے لئے
بھروسہ کر اپنے رب پر، زندگی ملی ہے جس کے لئے
سوچ: اب ہر کوئی اللہ کریم پر یقین رکھ کر جب عمل کرے گا تو نتیجہ بھی مانگتا ہے مگر یہاں نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کریم کو بڑا ماننا ہے اور جو بھی کیفیت بنے اُس کو شریعت پر تولنا ہے کہ اللہ کریم نے اُس کا اجر کیا رکھا ہے جیسے:
مسند احمد بن حنبل کی حدیث ہے: جب مسلمان کا بچہ مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کرلی۔ عرض کرتے ہیں: ہاں۔ فرمایا: تم نے اسکے دل کا پھل توڑ لیا؟ عرض کرتے ہیں: ہاں ، فرماتا ہے: پھر میرے بندے نے کیا کہا؟ عرض کرتے ہیں: تیرا شکر کیا اور ’انا للہ و انا الیہ راجعون‘ پڑھا۔ فرماتا ہے میرے بندے کیلئے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اسکا نام حمد کا مکان رکھو۔
سمجھ: اس ایک حدیث سے آپ اپنے دُکھ، رزق میں گھاٹا، پریشانیاں وغیرہ کا اجر جان سکتے ہیں۔ البتہ اگر آپ صبر نہیں کرتے تو اللہ کریم کے ساتھ سے انکاری ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ کریم صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
محبت: اللہ کریم پر(مطلق) توکل کرنا فرضِ عین ہے۔ توکل ترکِ اَسباب کا نام نہیں بلکہ اِعتماد علی الاسباب کا ترک (توکل) ہے یعنی اَسباب کو چھوڑ دینا توکل نہیں بلکہ اسباب پر اعتماد نہ کرنے (وربّ تَعَالٰی پر اعتماد کرنے) کا نام توکل ہے۔
توکل کے خلاف کام: سامنے کھانا رکھا ہو، بھوک بھی ہو اور کھانے کی ضرورت بھی ہو لیکن بندہ اپنا ہاتھ اس کی طرف نہ بڑھائے اور یوں کہے: ’’میں توکل کرتا ہوں ۔‘‘تو ایسا کرنا بے وقوفی اور پاگل پن ہے۔
کوئی شخص شہروں اور قافلوں سے جدا ہو کر سنسان راستے پر سفر کرے جن پر کبھی کبھار ہی کوئی آتا ہے تو اگر اس کا سفر بغیر زاد راہ کے ہو تو یہ توکل نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص کمانے کی بالکل تدبیر نہ کرے تو یہ توکل نہیں بلکہ یہ چیز توکل کو بالکل ختم کردیتی ہے۔ سنت کے مطابق رِزقِ حلال کماناتوکل کے خلاف نہیں جبکہ اُس کا اِعتماد سامان اور مال وغیرہ پر نہ ہو اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ مال کے چوری یا ضائع ہونے پر غمزدہ نہ ہو۔
عیال دار شخص کا اپنے اہل خانہ کے حق میں توکل کرنا درست نہیں، ان کے لیے بقدر حاجت کمانا ضروری ہے، اسی طرح سال بھر کے لیے کھانا وغیرہ جمع کرکے رکھنا بھی توکل کے منافی نہیں۔غم ملے تو اُس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غمگین ہو جائے بلکہ سوچنا یہ ہے کہ اس غم کا مداوا کیا جا سکتا ہے، اس غم سے نکلنے کے اسباب کیا ہیں؟ ان تمام اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے غم سے نکلنے کی تدابیر کی جائیں اور ہر انسان کرتا ہے۔