Rahi Karb o Bala (راہئی کربُ و بلا)

راہئی کربُ و بلا (کربلہ)


حضورﷺ کی آل سے محبت کرنے والے امام حُسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو بُلا نہیں سکتے مگر اہلتشیع کی طرح ایک نیا مذہب بنا کر غم منا نہیں سکتے۔ یہ آرٹیکل ”راہئی کربُ و بلا“رائٹر جناب امیر محمد اکرم اعوان صاحب، ادارہ نقشبندیہ اویسیہ، دارالعرفان، ضلع چکوال، کا مطالعہ کیا جس میں واقعہ کرب وبلہ بیان کیا گیا ہے۔ اس پیج کا اس آرٹیکل سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

1۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاوصال 22رجب 60ھ کو ہوا، اُن کے 19سالہ دور حکومت میں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھم کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی شکایت نہیں ہوئی جیسا کہ تلخیص شافی میں شیعہ ابو جعفر طوسی صفحہ نمبر49پر لکھتا ہے ”اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور خلافت ان کے سپرد کر دی اور خود اس سے دست بردار ہو گئے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے عطیے اور تحائف لیتے رہے۔
شیعہ حضرات کی کتاب مناقب شہر بن آشوب ۴:۳۳ کے مطابق بھی”حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے عہد لیا کہ مجھے ہر سال پچاس ہزار درہم دیں گے انہوں نے بقید حلف یہ معاہدہ کیا۔

2۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کوفہ چھوڑ کر مدینہ میں رہائش رکھی اور بعض کوفی لیڈر سخت ناراض تھے بلکہ ایک سردارنے تو یوں خطاب کیا ”اے مومنوں کے ذلیل کرنے والے اسلام و علیکم“ تو آپ نے جواباً وعلیکم اسلام فرما کر فرمایا ”میں مومنوں کو ذلیل کرنے والا نہیں ہوں بلکہ انہیں عزت دینے والا ہوں، میں نے لوگوں سے قتل و جدال کو دفع کیا“۔ کوفے والوں نے پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بہکانا چاہا مگر ابو حنیفہ دینوری کی تصنیف ”اخبار الطّوال“ کے مطابق انہوں نے فرمایا ”ہم نے بیعت کر لی ہے اور عہد کر لیا ہے اور ہمارے بیعت کے توڑنے کی کوئی سبیل نہیں“۔

3۔ اسلئے باغی گروپ اپنا کام بر وقت نہ کر سکا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اندرونی طور پر مضبوط ہوتے گئے اور بیرونی طور پر شمالی افریقہ، افغانستان، صوبہ سرحد کے علاقے فتح کئے۔ قسطنطنیہ کا دوبارہ محاصرہ ہوا جس میں ایک بار تو حضرت حسین بن علی، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھم نے خود شرکت کی، حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ محاصرے میں وفات پا کر شہر پناہ کے متصل دفن کئے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے پہلا بحری جہاد بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا۔

4۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال پر حکومت یزید کو ملی۔ حضرت حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے یزید کی بیعت نہیں کی بلکہ مدینہ منورہ سے چل کر مکہ مکرمہ چلے آئے۔ شعبان، رمضان، شوال، ذی قعد کے مہینوں میں کوئی لڑائی نہیں بلکہ تاریخ طبری سے یہ نشان ملتا ہے کہ حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما حرم کعبہ میں اکٹھے نمازیں اور گفتگو کرتے رہے۔

5۔ اس سکون کا حال کوفیوں کو بھی تھا، سازش تیار ہوتی ہے، کوفہ کے گورنر صحابہ رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے خلاف شورش برپا کی گئی۔ بقول طبری حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ یزید نے ہم سے زبردستی بیعت لی ہے مگر ہم سب آپ پر بھروسہ کئے بیٹھے ہیں۔ ہم نماز جمعہ میں والئی کوفہ کے ساتھ شریک نہیں ہوئے۔ آپ ہم لوگوں میں آ جائیے بلکہ یکے بعد دیگرے تینوں وفد کوفیوں کے مکہ مکرمہ آئے جن میں سے دوکو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپس جانے کو کہا مگر تیسرا وفد اپنے ساتھ ایسے خطوط لایا جن میں قسمیں دی گئیں تھیں، رسول اللہﷺ کا واسطہ دیا گیاکہ اگرآپ تشریف نہ لائے تو روز محشر آپ کو حضورﷺ کے سامنے پیش کریں گے کہ آپ نے ہماری راہنمائی نہیں فرمائی۔ آخر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل بن ابی طالب کو طلب فرما کر حکم دیا کہ ”تم کوفہ روانہ ہو جاؤ اور دیکھو کہ یہ لوگ مجھے کیا لکھ رہے ہیں، اگر سچ لکھ رہے ہیں تو میں وہاں چلا جاؤں (طبری)

6۔ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کوفہ پہنچ کر ابن عوسجہ نامی شخص کے ہاں بیٹھے، بارہ ہزار عوام نے بیعت کر لی، پھر وہاں سے حضرت مسلم ہانی بن عرسہ مراوی کے گھر قیام فرمایا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ 12ہزار کوفیوں نے بیعت کی ہے، مزید ہو رہی ہے آپ تشریف لے آئیے (طبری)

7۔ ادھرقاصد مکہ مکرمہ جاتا ہے، اُدھر حالات پلٹتے ہیں، کوفہ کا گورنر بدل دیا جاتا ہے، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی جگہ عبداللہ ابن زیادہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا جاتا ہے جس کے واقعات طبری میں تفصیل سے لکھے ہیں۔ اُس کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ بچ گیا۔ اُس نے مختلف سرداروں کو بلایا، ڈرایا حتی کہ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک بھی آدمی نہ رہابلکہ پناہ دینے والا بھی نہ رہا، گرفتار کر کے حضرت مسلم رضی اللہ عنہ شہید کر دئے جاتے ہیں اور شہادت سے پہلے سب حالات لکھ کر حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے نے حضورﷺ کے ماموں عشرہ مبشرہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عمر بن سعد بن ابی وقاص کو دی اور انہوں نے وہ خط ایک قاصد کے ذریعے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھجوایا جو مکہ مکرمہ سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ روانہ ہو چُکے تھے۔

8۔ ادھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو حضرت عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن جعفر طیار، زینب بنت علی کے خاوند، حضرت حسین کے چچا زاد بھائی کے علاوہ بھی بہت سے اکابر صحابہ نے کوفے جانے سے روکا، اسلئے کہ وہ کوفے والوں کی سازشوں سے واقف تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف جو کچھ بھی ہو مگر وہ گہری چال میں پھنستے جا رہے تھے۔

9۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حج نہیں کیا اور کوفے کی طرف روانہ ہو گئے، اسلئے کہ اگر وہ یہ نہیں کہتے تو 10محرم تک ان کو وادی کرب و بلا میں پہنچا نہیں سکتے۔ طبری نے جلد 4صفحہ 197پر لکھا ہے کہ آپ حج کے بعد کوفہ روانہ ہوئے۔ اسلئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حج کیا، یزید کے خلاف کوئی اعلان جنگ نہیں کیا، کسی کو ساتھ نہیں لیا بلکہ اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر کوفے کی طرف روانہ ہوئے۔

10۔ راستے میں حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر کے ساتھ خط بھی مل گیا۔ احباب سے مشورہ کیا کہ واپس چلیں یا کوفہ۔ سوال تو لاکھوں پیدا ہوئے ہوں گے کہ چچا زاد شہید، کوفی غائب، گورنر تبدیل اور کوفے میں اب مسائل پیدا ہوں گے۔

11۔ یہ بات قابل غور ہے کہ مکہ سے کوفہ جانے والا قافلہ کربلہ کیسے پہنچا جو کوفہ سے دمشق کے راستہ پرپھر کوفہ سے 33میل کے فاصلہ پر ہے۔ ہوا یوں کہ جب یہ قافلہ القرعا کے مقام پر پہنچا تو کوفیوں کا فوجی دستہ موجود تھا، اسلئے آپ نے تین شرطیں رکھیں کہ مجھے واپس جانے دو، یزید کے پاس لے چلو یا کسی دوسرے ملک یا سرحد کی طرف نکلنے دو۔

12۔ البدایہ والنہایہ ص170ج8میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”مجھے یزید کے پاس جانے دو میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا پھر وہ میرے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے اور ابن جرید طبری نقل کرتے ہیں:یعنی میں اپنا ہاتھ یزید بن معاویہ کے ہاتھ پر رکھ دوں گا پھر دیکھیں گے وہ میرے بارے میں کیا رائے قائم کرتا ہے (تاریخ الامم والملوک ص 235ج 6)۔

13۔ جناب اکرام اعوان صاحب لکھتے ہیں کہ کربلہ میں پانی کی کمی کوئی نہیں تھی بلکہ وہاں تو خود شیعہ روایت میں ہے کہ حضرت نے بیلچہ مارا اور پانی نکل آیا مگر پھر دفن کر دیا کہ ہم(شیعہ)سے ہی لیں گے۔ اسلئے یہ پانی مانگنے کی روایات ہی جھوٹی ہیں۔

14۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا میں قیام فرمایا، کوفی لشکر نماز حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھ رہا ہے اور بات چیت بھی جاری ہے کہ خود مجھے خطوط بھیج کر بلایا اور اب بے وفائی کر رہے ہو، اسلئے جب حضرت حُر کو علم ہوا تو انہوں نے خطوط سے لاعلمی ظاہر کی تو خطوط منگوائے گئے۔ یہ ساری بات شیعہ حضرات کی کتاب ”خلاصتہ المصائب“ کے صفحہ 50پر بھی موجود ہے۔

15۔ اب وہاں کیا حالات ہوئے، ایک شیعہ عالم جناب شاکر حسین صاحب امروہی مؤلف مجاہد اعظم کہتا ہے ”صد ہا باتیں طبعزاد اور تراشی گئیں، واقعات کی تدوین عرصہ دراز کے بعد ہوئی، رفتہ رفتہ اختلافات کی اس قدر کثرت ہو گئی کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سے علیحدہ کرنا مشکل ہو گیا۔۔۔ابو مخنف لوط بن یحی ازدی کربلہ میں موجود نہ تھے سب واقعات انہوں نے سماعی لکھے ہیں لہذا مقتل ابومخنف پر بھی پورا وثوق نہیں پھر لطف یہ کہ مقتل ابو مخنف کے متعدد نسخے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف البیان ہیں اور ان میں صاف بیان ہے کہ خود ابو مخنف واقعات کے جامع نہیں بلکہ کسی اور ہی شخص سے ان بیان کردہ سماعی واقعات کو قلمبند کر دیا ہے“۔(یعنی واقعات جھوٹے ہیں۔)

”مختصر یہ کہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق تمام واقعات ابتداء سے انتہاء تک اس قدر اختلاف سے پر ہیں کہ اگر ان کو فرداًفرداً بیان کیا جائے تو کئی ضخیم دفتر فراہم ہو جائیں۔ اکثر واقعات مثلاً اہل بیت پر تین شبانہ روز پانی کا بند کرنا، فوج مخالف کا لاکھوں کی تعداد میں ہونا، شمر کا سینہ مطہرہ پر بیٹھ کر سر جدا کرنا۔ آپ کی لاش مبارک سے کپڑوں کا اتارنا، نعش مبارک کا لکد کوب سم اسپاں کیا جانا (گھوڑوں کے پاؤں تلے روند دینا)، سراوقات اہل بیت کی غارت گری، نبی زادیوں کی چادریں تک چھین لینا وغیرہ وغیرہ نہایت مشہور اور زبان زد خاص و عام ہیں حالانکہ اس میں بعض سرے سے غلط، بعض مشکوک، بعض ضعیف، بعض مبالغہ آمیز اور بعض منگھڑت ہیں“ (مجاہد اعظم 187)

16۔ کیا کوفیوں نے ایک تیر سے کئی شکار نہیں کئے، شمر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سالار، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بھائیوں جعفر، عباس اور عثمان رضی اللہ عنھم کا سگا ماموں تھا۔ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔عمر ابن سعد رضی اللہ عنہ حضورﷺ کا ماموں زاد بھائی تھا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا رشتہ میں نانا۔ اور جلاء العیون میں ہے کہ دیر تک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا کرتا تھا بلکہ خود یزید کی بیوی عبداللہ بھی جعفر طیار رضی اللہ عنھا کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنھا کی سوتیلی بیٹی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بھانجی تھیں۔ چچا زاد بھائی کے ناطے سے بھتیجی بھی۔

17۔ مظلوم قافلہ کوفیوں کے ساتھ دمشق پہنچا تو ابن جریر نے کامل اور تاریخ کبیر ذہبی میں موجود ہے کہ یزید نے خبر سنی تو آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور کہنے لگا کہ بغیر قتل حسین رضی اللہ عنہ کے بھی میں تمہاری اطاعت سے خوش ہو سکتا تھا۔ ابن سمیہ پر خدا کی لعنت ہو۔ واللہ اگر میں وہاں ہوتا تو حسین رضی اللہ عنہ سے ضرور در گذر کرتا، خدا حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ قاصد کو یزید نے کوئی انعام نہیں دیا۔

18۔ ایک شیعہ عالم نہج الاحزان مطبوعہ ایران ص321”کسی نے یزید سے آ کر کہا کہ تیری آنکھیں روشن ہوں، حسین رضی اللہ عنہ کا سرآ گیا، یزید نے بنظر غضب دیکھا اور کہا تیری آنکھیں روشن نہ ہوں“۔ خلاصتہ المصائب ص293کہ ”تباہ حال قافلہ دمشق پہنچا تو یہ دیکھ کر کہ یزید رو پڑا اس کے ہاتھ میں ایک رومال تھا جس سے آنسو پونچھتا جاتا تھا، اس نے سب کو اپنی زوجہ ہند بنت عامر کے پاس بھیج دیا، جب اہلبتِ حسین رضی اللہ عنھا محل میں پہنچے تو گریہ و زاری بلند ہوئی جس کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔“

19۔ جلاء العیون اور طراز المذاہب مظفری ص468پہ لکھتا ہے”یزید حضرت علی (زین العابدین) کو عزت دیتا، صبح و شام ان کو شریک طعام کرتا جب وہ دستر خوان پر نہ آتے یزید کھانا نہ کھاتا نہ آرام کرتا“۔

20۔ تاریخ لکھتی ہے کہ حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو مدینہ بھیج دیا گیا۔ حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنھا اپنی بیٹی یعنی یزید کی بیوی کے پاس رہ گئیں، وہیں انتقال فرمایا اور وہیں دمشق میں ان کا مزار ہے۔

21۔ کوفہ والے کون تھے، یہ بھی یاد رہے کہ یہ عہد فاروقی کی ایک فوجی چھاؤنی تھی جو 15ھ میں بنائی گئی، رفتہ رفتہ شہر بن گیا اور مختلف علاقوں کے لوگ یہاں آ کر آبا د ہو گئے۔ یہود کی زیر زمین خلافِ اسلام تحریک جس کے ہاتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مبارک خون سے آلودہ اور جس کی تلوار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے رنگین تھی، جس کی عباسے تا حال خون علی رضی اللہ عنہ خشک نہیں ہوا تھا، اس کا مرکز بھی کوفہ تھا اور اس کی داعی اور بانی عبداللہ ابن سباء کے سب سے زیادہ خاص شاگرد کوفہ ہی میں تھے اور شیعان علی کہلاتے تھے۔

22۔ نہج البلاغہ از قسم اول 77 میں ان شیعان کے متعلق لکھا ہے ”وائے مردوں کی ہمشکل نامردو لڑکوں کی سی سمجھ رکھنے والو، عورتوں کی سی عقل والو، مجھے آرزو ہے کہ کاش میں نے تم کو نہ دیکھا ہوتا ار نہ پہچانا ہوتا۔ یہ پہچاننا ایسا ہے کہ واللہ اس سے پیشمانی حاصل ہوئی اور رنج لا حق ہوا۔ خدا تم کو غارت کرے تحقیق تم لوگوں نے میرا دل پیپ سے بھر دیا اور میرا سینہ غصہ سے لبریز کر دیا، تم لوگوں نے مجھے غم کے گھونٹ سانس لے لے کے پلائے اور نافرمانی کر کے اور ساتھ نہ دیکھر میری رائے خراب کر دیا۔ یہاں تک کے قریش کے لوگ کہتے ہیں ابن ابی طالب بہادر تو ہے لیکن اس کو لڑائی کا فن نہیں۔

23۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اثنائے راہ مقام زبالہ پہ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی تو فرمایا: ہمارے شیعوں نے ہمیں ذلیل کر دیا (خلاصتہ المصائب ص49) اور یہ بات بھی خلاصتہ المصائب ص201پر موجود ہے کہ ”(شہادت کے وقت) ان میں کوئی شامی یا حجازی نہ تھا بلکہ سب کوفی تھے)۔ شیعہ مجتہد قاضی نور اللہ شوستری اپنی کتاب مجالس المومنین مجلس اول صفحہ 25پر لکھتے ہیں ”اہل کوفہ کے شیعہ ہونے پر دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ان کا سنی ہونا خلاف اصل اور محتاج دلیل ہے اگرچہ ابوحنیفہ کوفی تھا۔“

24۔ تاریخ لکھنے والا لوط بن یحی نامی جس کا لقب ابی مخنف تھا، اس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے تقریباً 150سال بعد عجیب و غریب کہانیاں بنا بنا کر مقتل حسین نامی کتاب لکھی جسے اس کے بعد کے مورخین نے بنیاد بنایا اور 350سال بعد معزالدولہ نے ایک علیحدہ مذہب کی باقاعدہ بنیاد رکھی جسے ابو جعفر کلینی نے الکافی نامی کتاب میں ترتیب دیا تھا جس کا سن وفات 230ھ ہے اور مذہب کی روایت کو حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ کی طرف منسوب فرمایا جو اس سے بھی 200سال پہلے گذر گئے تھے۔ اس کے لئے اس پیج کی پوسٹ ”فقہ جعفر“ کا لنک مانگ سکتے ہیں۔

تجزیاتی رپورٹ

1۔ اس پیج کی رائے کے مطابق حضرت عُمر فاروق، عثمان، علی،عمار ابن یاسر، حسن و حُسین رضی اللہ عنھم کے قاتل کوئی ”صحابی“ نہیں بلکہ اہلتشیع کی بنیاد رکھنے والے ”باغی“ ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ باغی گروپ جنگ جمل و جنگ صفین میں صحابہ کا نام لیں گے اور واقعہ کربلا میں صحابہ کرام کے بیٹوں کا نام لیں گے۔

2۔ کوفی، سبائی، ایرانی، یہود و نصاری کی یہ اسلام کے خلاف ایک کامیاب سازش ہے، اہلبیت اور صحابہ کرام کو آپس میں علیحدہ علیحدہ کیا گیا، ڈپلیکیٹ علی تیار کیا گیا، اہلبیت کو مظلوم کہا، اسلئیے حضرت عمر، عثمان، عمار ابن یاسر، علی، حسن اور اُس کے بعد حضرت حُسین رضی اللہ عنہ اُن کے لئے بہت آسان شکار تھے کیونکہ اُس سے پہلے جنگ جمل و صفین میں مسلمانوں کو لڑوانے کا تجربہ کر چکے تھے۔

3۔ یزید، شمر، ابن زیاد، عمر بن سعد بن ابی وقاص اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی آپس میں رشتے داریاں نکالیں تو سمجھ آئے گی کہ ”باغی“ حکومت میں بھی تھے، رشتے دار بھی تھے لیکن تاریخ کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دینے والے یہ نہیں بتاتے کہ اُس وقت ایرانی، یہود و نصاری کیا کررہے تھے؟

4۔ اہلتشیع ایرانی، ابو لوفیروز کا مزار بنانے والے، صحابہ کرام کو گالیاں دینے والے، اہلبیت کے نام پرڈپلیکٹ مذہب بنانے والے۔ اس وقت بھی پاکستان میں ان کا اثر و رسوخ ہے اسلئے تو غدیر خم، مولائی، نجفی، ملنگی کے نعرے لگ رہے ہیں۔

5۔ اصل حقیقت تو یہی سمجھ آ رہی ہے کہ اہلسنت علماء کرام چار مصلے والے بکھر کر سعودی عرب کے وہابی علماء کے ساتھ اور کچھ ایران کے ساتھ ہوتے جائیں گے اور آئندہ 100سالوں کے درمیان پھر ان کی آپس میں لڑائی کروائی جائے گی کیونکہ جنگ ”حرمین شریفین“ پر قبضہ کی ہو گی تاکہ اسلام کو مجوسی مذہب یا کوئی اور مذبہب ثابت کیا جا سکے۔

6۔ جنگ صفین اور جمل کی طرح دیوبندی اور بریلوی علماء کے درمیان بھی ”باغی گروہ“ موجود ہے جو ان دونوں کے درمیان کبھی صُلح نہیں ہونے دے گا کیونکہ پھر ان کا مفاد خطرے میں پڑ جائے گا۔

7۔ اہلتشیع حضرات کیوں مرزا انجینئر، طاہرالقادری، حنیف قریشی اور دیگر کی ویڈیو لگاتے ہیں حالانکہ ان سب مسائل پر چار مصلے والے اہلسنت قانون بنا کر خاموش رہنے کا مشورہ دے چکے تھے اور یہ قانون دیوبندی اور بریلوی علماء نے آپس کی لڑائی میں ہمیں سکھایا نہیں۔

8۔ فتاوی رضویہ اور جناب احمد رضا خاں صاحب کو بدنام کرنے کا سعودی ایجنڈا بھی اسی کا حصہ ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ باغی گروپ کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ بریلوی حضرات نے فتاوی رضویہ سکھایا نہیں اور چار کفریہ عبارتوں کے غم میں دیوبندی علماء نے حوالہ بتایا نہیں۔

9۔ اس پیج کی یہ سب کاوش مسلمانوں کو متحد کرنے کیلئے ہے، مزیداچھی تجاویز کمنٹ سیکشن میں ضرور دی جائیں کیونکہ کل پوچھا جائے گا کہ دین کیلئے کیا کیا؟ علماء عوام کواور عوام علماء کو ذمہ دار ٹھرائیں گے مگر حضورﷺ کے امتی کو اپنے وقت میں عقائد اہلسنت پر سب کو اکٹھا کرنا چاہئے۔

متفقہ حل: اہلسنت علماء کرام نے صحابہ کرام کی معاملات پر قرآن و احادیث کے مطابق ”خاموشی“ کا قانون دیا اور یزید کے بارے میں کوئی مسلمان کچھ بھی کہے مگر اسے کچھ بھی نہیں کہا جائے گا۔ اہلتشیع حضرات بتا دیں کہ ”یزیدی اور حسینی“ اصطلاح سے کونسا ”دین“ بناکر کس سے کیا بدلہ لینا مقصود ہے۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general