حدیث پر اعتراض
ہر حدیث کو من و عن نہیں مان لیا جاتا بلکہ قانون و اصول کے مطابق ہر حدیث کی شرح کی جاتی ہے کیونکہ متن صحیح بخاری و مسلم کا بھی ہو تو اس میں بھی ضعف ہو سکتا ہے جیسے:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مسلمان حضرت ابوسفیان کی طرف دھیان نہیں کرتے تھے نہ اس کے ساتھ بیٹھتے تھے (کیونکہ حضرت ابوسفیان کئی مرتبہ نبی ﷺ سے لڑا تھا اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا) ایک بار انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے نبی! تین باتیں مجھے عطا فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا۔“ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس وہ عورت ہے کہ تمام عربوں میں حسین اور خوبصورت ہے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا میری بیٹی، میں اس کا نکاح آپ سے کر دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا۔“ دوسری یہ کہ میرے بیٹے معاویہ کو آپ اپنا کاتب بنائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا۔“ تیسرے مجھ کو حکم دیجئیے مشرکین سے لڑوں (جیسے اسلام سے پہلے) مسلمانوں سے لڑتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا۔“۔ ابوزمیل نے کہا: اگر وہ ان باتوں کا سوال آپ ﷺ سے نہ کرتا تو آپ ﷺ نہ دیتے اس لئے کہ حضرت ابوسفیان جس جس بات کا سوال آپ ﷺ سے کرتے آپ ﷺ ہاں فرماتے اور قبول کرتے۔
تشریح: اس حدیث پر محدثین کے بہت سے اشکال موجود ہیں جیسے
1۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ مسلمان سیدنا ابوسفیان کی طرف نہ دیکھتے ہوں حالانکہ فتح مکہ میں سیدنا ابوسفیان پہلے مسلمان ہوئے تھے اور باقی مکہ کہ مشرکین بعد میں مسلمان ہوئے۔ سیدنا ابوسفیان کا گھر دارالامن نبی کریم ﷺ نے قرار دیا تھا، اُس سے کس نے نفرت کرنی تھی۔ ایک دن پہلے تک تو سیدنا ابو سفیان مکے والوں کے سردار تھے، پھر اچانک منہ نہ لگانا غلط متن ہے۔ انصار و مہاجرین تو ہر مسلمان سے اخلاق سے پیش آتے تھے تو اس میں صحابہ کرام کی بھی توہین ہے۔ اسلام لانے سے پہلے جو معزز تھا، اسلام لانے کے بعد اس کے اعزاز میں مزید اضافہ ہوگیا اسی لئے سیدنا عمر حضرت عباس و ابوسفیان کا اسلام لانے کے بعد از حد احترام کرتے تھے۔
2۔ نبی ﷺ کا سیدہ ام حبیبہ سے 6ھ میں حبشہ میں نکاح منعقد ہوا جبکہ سیدنا ابو سفیان کے ایمان لانے کا واقعہ 8 ھ کا ہے۔ دوسرا صلح حدیبیہ کے بعد جب حضرت ابوسفیان مدینہ منورہ اپنی بیٹی کے گھر بستر پر بیٹھنے لگے تو بیٹی نے بستر نیچے سے کھینچ لیا کیونکہ اس وقت حضرت ابوسفیان مسلمان نہیں تھے۔ ہوسکتا ہے کہ سیدنا ابو سفیان نے نبی کریم ﷺ سے تجدید نکاح کی عرض کی ہو مگر حدیث میں یہ بھی واضح نہیں ہے۔ سیدنا ابو سفیان نے سیدہ ام حبیبہ سے نہیں بلکہ ان کی بہن سیدہ عزہ سے نکاح کی بات کی تھی حالانکہ روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے ساری باتیں قبول کر لیں لیکن دو بہنوں سے نکاح حرام ہے، اسلئے ایسا نہیں ہوا۔
علامہ ابن کثیر البدایۃ و النہایۃ جلد ۴ صفحہ ۱۳۰ میں اس روایت کی بابت فرماتے ہیں کہ یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کے باعث امام مسلم پر سخت اعتراضات کئے گئے ہیں۔
3۔ نبی کریم ﷺ کسی کو مانگنے پر عہدہ نہیں دیتے، اسلئے حضرت ابوسفیان کو کسی لڑائی میں عہدہ دینے کے بجائے انکو نجران کا عامل بنا کر بھیج دیا تھا۔ البتہ حضرت ابوسفیان غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ان کی ایک آنکھ تیر لگنے سے ضائع ہو گی اور جب یرموک کی لڑائی میں تیر لگا تو دوسری آنکھ بھی ضائع ہو گئی۔
4۔ اس روایت کے آخر میں راوی ابو زمیل کے الفاظ کہ اگر سیدنا ابو سفیان نبی ﷺ سے ان چیزوں کا مطالبہ نہ کرتے تو نبی ﷺ ان کو کبھی یہ چیزیں عطا نہ کرتے، یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اس روایت میں جہاں تاریخی لحاظ سے کئی قباحتیں ہیں، وہاں اس کو درست ماننے سے سیدنا ابو سفیان، سیدنا معاویہ اور سیدہ ام حبیبہ اور صحابہ کرام پر بھی تبرا آتا ہے۔
حقیقت: یہ روایت شاذ ہے( یعنی ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کررہا ہے) اور نبی کریم ﷺ نے سیدہ ام حبیبہ سے فتح مکہ سے کافی پہلے نکاح کرلیا تھا جس وقت کہ سیدہ ام حبیبہؓ حبشہ میں تھیں۔ اسی طرح سیدنا ابو سفیان کو بغیر کسی سفارش کے ان کی قابلیت کے پیش نظر کوئی عہدہ طلب کرنے سے پہلے ہی ان کو نجران کا عامل بنا کر روانہ کردیا تھا اور یہی کچھ سیدنا معاویہ کے بارے میں بھی ہے کہ ان کو بھی بلا کسی سفارش کے اپنا کاتب مقرر فرمایا تھا۔